قاضی اعجاز محور
مجھے باہوں میں بھر کے مار ڈالو
نہتہ مجھ کو کر کے مار ڈالو
نہ آئے قتل کا الزام تم پر
مجھے تم مجھ سے ڈر کے مار ڈالو
میں زندہ ہوں مگر تم مردہ سمجھو
مجھے پھر زندہ کر کے مار ڈالو
یہ میری شہرتیں دشمن ہیں میری
مجھے بدنام کر کے مار ڈالو
میں باہر سے بڑا مضبوط ہوں تم
مرے اندر اْتر کے مار ڈالو
محبت زہر بنتی جا رہی ہے
محبت مجھ سے کر کے مار ڈالو
زمیں جنت بنانی ہے تو محورؔ
سبھی دشمن ہنر کے مار ڈالو