صبا اکبر آبادی
کس نور کی شمع جل رہی ہے
سائے سے بھی لو نکل رہی ہے
اُبھرے گا ابھی حرا سے سورج
اب کفر کی رات ڈھل رہی ہے
تنہا میں چلا ہوں کب مدینے
تقدیر بھی ساتھ چل رہی ہے
سجدے ہیں دیارِ مصطفیؐ میں
اب حسرتِ دل نکل رہی ہے
کفار میں ہے وہ داعیٔ حق
کانٹوں میں بہار پل رہی ہے
ہے کتنی کشش رہ نبیؐ میں
خود زندگی رخ بدل رہی ہے
اب تو مجھے لے چلو مدینے
آئی ہوئی موت ٹل رہی ہے
محشر میں وہ رحمت فراواں
کوثر کی طرح ابل رہی ہے
کر لے گی خود اپنے پاؤں زخمی
دنیا ہمیں کیا کچل رہی ہے
سب جائیں مدینے ہم نہ جائیں
واماندگی ہاتھ مل رہی ہے
صحرائے عرب ہے بحرِ رحمت
اس ریت میں ناؤ چل رہی ہے
بے اذن حضور کیسے مانگوں
ہونٹوں پہ دعا مچل رہی ہے
اب ہوش میں آچکے صباؔ ہم
دیوانگی رخ بدل رہی ہے