جمیل الرحمن(ہالینڈ)
رنگ اس کے در و بام کا سادہ نہیں ہوتا
قبروں سے بھرا شہرکشادہ نہیں ہوتا
سچ یہ ہے کہ مہروں کے سوا کچھ نہیں ہم لوگ
اور یوں ہے کہ ہر مہرہ پیادہ نہیں ہوتا
کیوں آتی ہے آواز کوئی کوہ ندا سے
جب گھر سے نکلنے کا ارادہ نہیں ہوتا
رکھتی ہے برہنہ ہمیں تنہائی مسلسل
ایسا بھی نہیں تن پہ لبادہ نہیں ہو تا
کہتے ہیں اُسے حاصل ایمان و جنوں بھی
وہ ایک نظرجس کا اعادہ نہیں ہو تا
پر کاٹ دئے ان کے بھی موسم کی روش نے
اب کوئی شجر چھاؤں سے زیادہ نہیں ہوتا
لوٹیں گے جمیل اس میں سوار اور طرف سے
درویش ہوں قصّہ مرا سادہ نہیں ہو تا