صبا اکبر آبادی
اس طرح ہستی کا قصہ پاک ہو
ہم ہوں اور کوئے نبیؐ کی خاک ہو
غائیت ارضِ مدینہ تھی یہی
ایک جنت بھی تہہِ افلاک ہو
نامۂ اعمال اپنا حشر میں
شاید اس دستِ کرم سے چاک ہو
زخمِ ہجرِ مصطفیؐ جو دل میں ہے
پھول دیکھے تو کلیجہ چاک ہو
میری بگڑی بھی بنا دو لطف سے
تم تو آقا سرورِ لولاکؐ ہو
عاصیوں کی پردہ پوشی کے لئے
آپ کی اتری ہوئی پوشاک ہو
جسم جس کی اس قدر ہے دیکھ بھال
کیا خبر کس خاک کی خوراک ہو
پھر دیارِ شاہِ دیںؐ کا قصد کر
پہلے سب آلائشوں سے پاک ہو
جان دینگے ہم تو پڑھ پڑھ کے درُود
موت چاہے جتنی ہیبت ناک ہو
پوچھتے ہیں سب مقامِ مصطفیؐ
لب کشا اے جذبۂ بے باک ہو
بحرِ اوصافِ نبیؐ کی تہہ نہیں
ڈوب کر دیکھو اگر پیراک ہو
رفعتِ معراج سمجھے گا وہی
اپنی پستی کا جسے ادراک ہو
وہ چڑھا دو عاشقوں کی قبر پر
جو مدینے کا خس و خاشاک ہو
منزلِ مقصود طیبہ ہے صباؔ
کیوں چلیں وہ راہ جو کاواک ہو