انور سدید
اندھے غار سے نکلو، بارش تھم گئی ہے
باہر دنیا دیکھو، بارش تھم گئی ہے
اندر جتنا شور تھا، اب بھی جاری ہے
خود یہ شور سمیٹو، بارش تھم گئی ہے
سب تعبیریں خوابوں کی منہ زور ہوئیں
ان پر مُہر لگا دو، بارش تھم گئی ہے
زیست کے منظر، آنکھیں کھول کے دیکھ لیے
آنکھ پہ پٹی باندھو، بارش تھم گئی ہے
وقت طناب پہ انورؔ لرزہ طاری ہے
وقت طناب کو روکو ، بارش تھم گئی ہے