انور سدید(لاہور)
میرے احوال کی خود اس نے جو پرسش کی ہے
گویا بے حال پہ اک اور نوازش کی ہے
کچھ نہیں چاہیے اقلیم جہاں میں مجھ کو
ہاں مگر دیدۂ بیدار کی خواہش کی ہے
جب کرن مہر و محبت کی نہ بیدار ہوئی
سوچتا رہ گیا کس بت کی پرستش کی ہے
حدِ ادراک سے آگے جو مری سوچ گئی
آپ کہہ دیں کہ مری سوچ نے لغزش کی ہے
ہے ترا قریۂ جاں کتنا منور انورؔ
کس نے آج آ کے ترے دل میں رہائش کی ہے