ڈاکٹر اعجاز راہی
حسن عباس رضاؔکا شاعری میں ظہور ایک واقعہ تھا۔جب وہ آیا ، دیکھنے میں شانت ، روح میں جوار بھاٹا ،نیناں میں سلگن ،باتوں میں قوسِ قزح، شہزادگی مطمع نظر اور شہزادی منتہائے مقصود تھی۔آنا اور چھاجانا اس کی عادت ،پانا اور کھو دینا ا س کا بھاگ۔ا س وقت اسے فون پر باتیں کرنا اچھا لگتا تھا اور دوسری طرف موجود میں کوئی نہ کوئی قدرِ مشترک ڈھونڈلیتا تھا
ہم دونوں مستانوں کی اک خواہش ملتی جلتی ہے مجھ کو شہزادی،اُس کو شہزادے اچھے لگتے ہیں
پھر پتہ نہیں دوسری طرف شہزادہ مِلا یا نہیں ،لیکن آنکھ کھلتے ہی پلکوں کے آشرم میں موجود شہزادی اس کی دسترس سے باہر جا چکی تھی ،پھر خواب میں کھویا ،نیند میں چلنے کے چلن سے پانے کی جستجوکی؛
کسی شب نیند میں چلتے ہوئے آجائیں گے تم تک کہ اے جانِ حسنؔ،ہم گھرکبھی تیر ا نہیں بھُولے
مگر خیال وخواب کا سچ کہاں ہوا ہے،یوں بھی وہ ان دنوں دکھ اور تمنا ساتھ لے کر چلتا تھا ۔تمنا ثمر بار ہوتی تو دکھ راستہ روک لیتا تھا ۔دکھ بڑھا تو اک نیا خواب دیکھنے لگا ،بس اسی دھوپ چھاؤں کے کھیل میں بالآخر اس کے خواب عذاب ہوگئے۔خواب عذاب ہوئے تونیند مسافر جاگا،مگر آنکھوں میں سندر سپنے دیکھنے کی سزا وقت کی عدالت میں طے پا چکی تھی ،چنانچہ پہلے دو مجموعوں میں فکر و نظر کی جو دھندلی تصویریں اور خوابیدگی کی ردا تھی ، تاوان ادا کرتے ہوئے چھٹ گئی ۔اب ایک ہمہ گیر دردمندی اور عصری شعور کی بازیافت اس کے شعروں میں درآئی،اور اب جابجا ملنے کی خواہش شرائط کے ساتھ نظر آنے لگی ؛
سیلابِ غمِ ہجر اُتر جائے تو ملنا جب صبر ترا حد سے گزر جائے، تو ملنا
ہم ایسے مقّدر کے سکندر بھی نہیں ہیں! پھر بھی جو کوئی شام سنور جائے تو ملنا
حسن عباس رضاؔ،۱۹۷۰ء کے بعد آنے والے شعراء کے جم غفیر میں سے ایک تھا اور شعری صفات میں بھی ایک ہی تھا ۔اس کے پاس کہنے کو نئی بات ،بیان کا نیا انداز،لفظوں کے چناؤمیں ندرت،بنت کاری میں انوکھا پن، لبوں پر مسکان اور آنکھوں میں بلب روشن تھے ۔اوّل اوّل اس کا محور ذات تھی،پھر کائنات بن گئی ۔تب وہ سارے دکھ بھی دیکھنے لگا جو اس کے ارد گرد بستے لوگوں کا نصیب تھے،بس وہ حسن عباس نہیں رہا ،جو آتے وقت تھا،کھلنڈری شاعری کا نویکلا شاعر۔ایک بار پکڑا گیا ،پکڑا ہی جانا تھا ،کوئی اور بھی وہ کہتا ،جو یہ کہہ رہا تھا، پکڑا جاتا ، مگر بات کہنے سے باز نہ آیا ، کسی وردی والے نے پوچھا:’’کس جرم وچ آیا ایں سو ہنٹریاں؟‘‘
کہنے لگا۔
'' ہمارا جرم اتنا ہے
کہ جس دن شہر بھر میں
سگ شماری ہورہی تھی
ہم نے
اپنا نام
فہرستِ سگاں میں کیوں نہ لکھوایا ! ؟ " (گھناؤنا جرم)
اب بات اس سے آگے چلی گئی ہے۔سوچتا ہے․․․․․․سوچتا ہے تو دکھ پاتا ہے․․․․․․․دکھ پاتا ہے تو دکھی ہوجاتا ہے۔
ارادہ تھا کہ اب کے رنگِ دنیا دیکھنا ہے خبر کیا تھی کہ اپنا ہی تماشا دیکھنا ہی
اور پھر ایسے ہی کسی لمحے نے،جس پر مادی ضرورتوں کا غلبہ ہو، اسے نقل مکانی پر مجبور کردیا،پھر یوں بھی اقتصادی افراتفری اور سماجی انار کی کے عہد میں انسانوں کے ساتھ پرندے بھی ہجرت کرجاتے ہیں،مگر سوال یہ ہے کہ اسے ہجرت نے کیا دیا؟
تلاشِ رزق میں نکلے ، تو آنکھیں رہ گئیں گھر میں
نہیں معلوم پھر اُلٹا قدم کب ، اور کہاں رکھا
۰۰
دیس میں ا پنی جاں اور مٹی تلک چھوڑ آیا ہے جو
جانے انصار کو اور کیا چاھیے ، اُس پنہ گِیر سے
۰۰
یہ ایک ہجر کا دن ہی نہیں کٹا ہم سے
ابھی تو رات بھی ساری ہے ، کیا کِیا جائے
یہ کیسے موڑ پر ہم آگئے ہیں کہ اپنے آپ سے اُکتا گئے ہیں
۰۰
دعا کا شامیانہ بھی نہیں ہے اب تو سر پر
سو ، خود کا حدُتِ غم میں سلگتا دیکھنا ہے
۰۰
شکست و ریخت اتنی ہو چکی ہے وقت کے ہاتھوں
کہ پھر اک بار مجھ کو میرا کوزہ گر بلاتا ہے
حسن رضاؔ نے اس ہجرت کو جلاوطنی کے کرب کے ساتھ دیکھا ہے ، اس کے ہاں بعض اوقات اتنا درد امڈ آتا ہے کہ روح تک لرز جاتی ہے ۔
دیارِ غیر میں ایسی بھی رات اُتری ، کہ میں نے
بدن مٹی کو سونپا ، اور سر پتھر پہ رکھا
۰۰
بدن میں قطرہ قطرہ زہر اُتارا جا رہا ہے
کہ ہم کو آج کل قسطوں میں مارا جا رہا ہے
بظاہر تو بہت ہی دُور ہیں گرداب سے ہم
مگر لگتا ہے ہاتھوں سے کنارا جا رہا ہے
ہم اہلِ درد جوئے میں لگی ایسی رقم ہیں
جسے دانستہ ہر بازی میں ہارا جا رہا ہے
۰۰
حسنؔ ، میں ایک لمبی سانس لینا چاہتا ہوں
میں جیسا تھا ، کسی دن خود کو ویسا دیکھنا ہے
عمیق نگہی ، نفسی درون بینی اور خارجی عوامل کے اشتراک نے حسنؔ کے پورے شعری نظام کو بدل کر رکھ دیا ہے ، بنت ، اسلوب ، ترتیب خیال اور عصری شعور نے اس کے فنی افلاک میں نیا رنگ بھر دیا ہے ، اب وہ روایتی ترتیب میں بھی نئی بات کہتا ہے ، اور سچ تو یہ ہے کہ یہ وہ مقام ہے جو ہر شاعر کی کب نصیب ہے ؟
حسنؔ کا تخلیقی عمل تجرباتی اور مشاہداتی بحرِ بے کنار سے ابھرتے شعور و آگہی کا فن ہے ۔ معاشرتی استبدادیت اور معاشی استحصال فکری گوشوں کو جب انگیخت کرتا ہے تو وہ خواب دیکھنے لگتا ہے ، آپ مجھ سے اتفاق کریں گے کہ خواب ہر آنکھ کا نصیب نہیں ہوتے ، میں نے ایک کتاب پر بات کرتے ہوئے لکھا تھا کہ خواب دیکھنے کے لیے انقلاب دیکھنا بہت ضروری ہے ، جن آنکھوں میں روشن مستقبل ہو ، ان آنکھوں کے خواب بھی انقلاب آور ہوتے ہیں ۔ حسنؔ ، ڈرا ہوا ، سہما ہوا ہے ، مگر پھر بھی خواب دیکھتا ہے ، کہ اس کی آنکھوں کے دید بانوں میں انقلاب بدستور سجا ہے ۔ ہاتھوں سے کنارا جانے کا ادراک ہے ، اور پھر سے خود کو ویسا ہی دیکھنے کی آرزو مندی اب بھی زور آور ہے ۔ اس نے اپنے سامنے امکانات کے دیے بجھنے نہیں دیئے ، مگر اسے زندگی نے کیا دیا ۔۔؟
جب وراثت کی تقسیم پوری ہوئی ، تب یہ جا کر کھلا
تین چوتھائی حصہ مِلا ہے ہمیں دکھ کی جاگیر سے
۰۰
قمار خانہء جاں میں ہارنا کچھ تو !
سو ، ہم نے زندگی ہاری ہے ، کیا کِیا جائے
ڈسے گا بے بسی کا ناگ جانے اور کب تک
نہ جانے اور کتنے دن یہ نقشہ دیکھنا ہے!
۰۰
برہنہ پا ہی نہیں ہُوں حسنؔ بہ نوکِ سناں
مرے تو سر پہ آری ہے ، کیا کِیا جائے
اگر چہ عصری صداقتوں کے ساتھ اس کا رشتہ اوائل سے تھا ،مگر جابجا تجربات کے تھپیڑوں نے مزید گہرا کردیا ۔شاعری کی سب سے بڑی ضرورت تو واقعیت کا ادراک اور عصری آگہی ہے۔حسنؔ کی شاعری کا تدریجی ارتقا وقت کے ساتھ ساتھ اس کے وژن کے پھیلاؤ اور اجتمائی زندگی سے قرابت داری کے بڑھتے ہوئے دروبست کا گواہ ہے۔اب وہ بات محبوبہ کی بھی کر رہا ہوتو وہ پھیلتی ہوئی پورا عہد بن جاتی ہے،۔اس کے جسم کی قوسیں سماجی صداقتوں کے نشیب و فراز میں بدل چکی ہیں،جب وہ خود کو مضمون بناتا ہے تو نا ہموار معاشرتی در و بست کی علامت بن جاتا ہے۔اس کا عرفانِ ذات وسیع تناظر میں اس طرح پھیلا ہے کہ اس میں پوری کائنات سموئی ہوئی ہے۔زندگی کے مشاہدات و تجربات نے اسے فہم و ادراک کی وہ سطح عطا کردی ہے،جس سے اس کے فن کی نامیاتی خصوصیات ،لفظ کی انفرادی اور اجتماعی(اکہری اور کثیر الجہات)ماہیت سے کما حقہ آگاہی کے سبب حسنِ استعمال کا سلیقہ پا گیا ہے،اور پھر اس کی مسلسل ریاضت ،موضوعی استغراق اور فنی مکاشفے نے اس کی اسلوبیاتی شناخت وضع اور واضح کردی ہے،وہ شعروں کی بنت کاری میں لفظیات کی شائستگی کے ساتھ فکری تزئین و ترتیب پر کمال قادر ہے۔
حسنؔ بظاہر مضبوط اعصاب کا آدمی ہے،لیکن اندر سے ابریشم کی طرح نرم، چنانچہ کرخت مضمون اور کھردری لفظیات اس کے شعر میں ڈھل کر نرمل ہو جاتی ہے، اصلاً یہ نرماہٹ اس کی درونِ ذات کوملتا کا فیض ہے اور یہی کوملتا اسے سخت جانی سے رقیق القلب بنا دیتی ہے۔
حسن کچھ تو ہماری آنکھ میں پانی بہت ہے
کچھ اس دریا میں بھی اس بار طغیانی بہت ہے
کبھی صحراؤں کی وسعت بھی ناکافی تھی ہم کو
اور اب چھوٹے سے اک کمرے میں وحشت کر رہے ہیں
کیسی ساعت تھی جب ہم ہوئے در بدر، تُو کدھر رہ گئی، میں کہاں آگیا
کچھ بتاتا نہیں آئنہ بھی مجھے، اے مری بیکسی میں کہاں آگیا
شہرِ غم کے دوراہے پہ لا کر ہمیں،شامِ ہجراں بھی روتی رہی دیر تک
پھر نہ جانے ردائے ملال اوڑھ کر، تُو کہاں جا بسی، میں کہاں آگیا
گزشتہ شام سے دل کو عجب دھڑکا لگا ہے
نہ جانے کیوں مرا ہمزاد اتنا رو رہا ہے
اس نوع کے اشعار میں المیاتی کرب ایسی شدت کے ساتھ وارد ہوتا ہے جس کے سبب اس کے باطن میں جلتے بھانبڑ کا سیک پوری حدتوں کے ساتھ قاری تک پہنچتا ہے، وہیں اس کی قادرالکلامی اپنا اعتراف بھی کراتی ہے۔ حسنؔ کا تلاشِ معاش کے لئے گھر اور اپنی زمین سے نکلنا اور جلا وطنی میں بدل جانا بظاہر اس کی ذات کو فوکس کرتا ہے، مگر رفتہ رفتہ یہ ذاتی واردات ایک ہمہ گیر درد مندی اور اجتماعی سانچے میں ڈھلنے لگتی ہے کہ نہ جانے کتنے حسن عباس رضا ، روشن مستقبل کے خواب دیکھتے دیکھتے تلاشِ رزق میں گھر سے نکلے اور پرائے جزیروں کی خاک میں خاک ہو گئے۔
دور سفر پر گئے مسافر کا سندیسہ گھر نہیں آیا
جسم تو آیا، لیکن اس کا ہنستا چہرہ گھر نہیں آیا
حسنؔ کی اس شدت اظہار سے بسااوقات یہ خوف محسوس ہونے لگتا ہے کہ کہیں اس کے لہجے کا ملال اور آزردگی اور خود ترسی تک نہ لے جائے، کہ جہد البقا کے سفر میں یہ درندے مسافر کو بے ثبات کر دیتے ہیں، مگر وہ بھی کیا کرے کہ ایک ذات کا سوال تو نہیں، یہاں تو دلگیروں کی بارات ہے، چنانچہ پیچھے مڑکر بار بار دیکھنا اور دیکھتے رہنا اس کے سلسلۂ فکر و جستجو سے وابستہ ہے جو اسے مدام فعال رکھتا ہے۔تاہم کبھی کبھی جب دکھ زور مارتا ہے تو اپنے زمین و آسمان کی پناہ گیری ملامت یا حزیمت کی بجائے Restorationکا کام بھی دیتی ہے۔
احمد ندیم قاسمی نے حسن کی شاعری کے بارے میں فرمایا تھا۔
’’ حسن عباس رضا، اس دور کی جدید نسل کا نہایت باشعور اور نہایت ذہین شاعر ہے، اسے تخلیق کار کے منصب و مقام کا علم ہے․․․․․․․․․وہ اردو ادب کے ان جدید غزل گو شعراء کی صف میں شمولیت کی طرف بڑھ رہا ہے جن میں فراق و فراز ، ناصر و اطہر نفیس ، احمد مشتاق اور شکیب شامل ہیں ۔ حسن عباس رضا کے ہاں بھی ان اعجاز کا روں کی طرف روایت اور جدت کا امتزاج موجود ہے․․․․․․․حسن رضا ایک ترقی پسند ، ارتقاء پسند شاعر ہے، اس لئے اس کی غزل کے دائرے میں انسانیت متعدد مثبت امکانات سے سج کر جلوہ نما ہوتی ہے۔‘‘
حسن عباس رضاؔ کی فکر و نظر ، مقام و مرتبہ اور فنی معراج کی تفہیم کے لئے قاسمی صاحب نے بہت خوبصورت بات کہی ہے ، اصلاً حسن عباس رضا نے اجتماعی زندگی کے تمام رنگوں کو شاعری کی ایزل پر مصور کیا ہے، پتہ دیتا ہے کہ اس نے شاعری کے اس جوہر کامل کو پا لیا ہے، جو اسے اس منزل کی طرف لے جا رہا ہے، جس کی طرف فیض صاحب نے اس کے پہلے شعری مجموعے کے فلیپ میں اشارہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ ’’اس خوبصورت نقش اول کے بعد ان کی مزید کاوش انتظار کے قابل چابت ہو گی ۔‘‘
جس مفہوم میں چاہتے ہیں وہ مجھے حسنؔ
کاش وفا کے وہی معانی ہو جائیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’حسن عباس رضا کی شاعری کی نمایاں خصوصیت اس کے لہجے کا بانکپن ، اور شگفتگی ہے ، کیسا اچھوتا سا اندازِ سخن ہے ، جس میں کئی رنگ اور بہت سی خوشبوئیں اسی مٹی کی ہیں ، جس سے ہم سب نے جنم لیا ہے ،۔ اس کی شاعری یوں بھی اچھوتی ہے کہ اس میں اردو کے مروجہ اسالیب کو اس دھرتی کی اپنائیت کی آنچ سے کچھ نہ کچھ بدلا گیا ہے ،اور یوں قوت ایجاد سے آئندہ کے شعر کے لیے نئے لسانی امکانات کی جستجو کی گئی ہے ۔‘‘
آفتاب اقبال شمیم ’’خواب عذاب ہوئے‘‘ کے فلیپ سے اقتباس