آپ کے رسالہ میں عمران شاہد کا مضمون بہت عالمانہ اور سنجیدہ ہے۔اس طرح کی چیزیں اردو میں کم چھپتی ہیں۔مبارک باد! پروفیسر شمیم حنفی(دہلی)
جدید ادب شمارہ :۱۰بھی اچھا لگا۔یہاں ادبی حلقوں میں اس کی گونج ہے۔اکبر حمیدی کے گوشے سے لے کر خصوصی مطالعہ تک تمام تحریریں زیرِ بحث ہیں،اور اچھے رسالے کی یہی پہچان ہے۔
ڈاکٹر لدمیلا واسیلئیوا کی’پرورشِ لوح و قلم‘ پر آپ کا تبصرہ حق بجانب ہے۔کلکتہ یونیورسٹی میں فیضؔ کی ملازمت کے بارے میں لدمیلا نے بغیر تحقیق کیے جو باتیں کہی ہیں اُن کی تصحیح ہونی چاہیے۔میں وہاں اقبال چئیر کا پہلا اور تاحال آخری پروفیسر ہوں،کیونکہ میرے بعد ۲۰۰۱ء سے اس چیئر پر کسی دوسرے پروفیسر کا تقرر نہیں ہوا ۔ وہاں اقبال چیئر بطور خاص فیض کے لیے createنہیں کی گئی تھی بلکہ اردو والوں کے دیرینہ مطالبے پر ۱۹۷۸ء میں اقبال صدی تقریبات کے موقعہ پر قائم کی گئی تھی۔بعد ازاں جنرل ضیاع الحق کے رویے سے بیزار ہو کر فیض ہندوستان آئے اور اس چیئر پر تقرر کے از خود خواہشمند ہوئے تو ڈاکٹر محمد حسن کے ساتھ کلکتہ گئے،جہاں ٹرانسپورٹ منسٹر محمد امین کے توسط سے ان کی ملاقات اس وقت کے چیف منسٹر جیوتی باسو سے ہوئی اور طے پاگیا کہ فیض کو اقبال چیئر کے پروفیسر کی حیثیت سے کلکتہ یونیورسٹی طلب کیا جائے گا۔لیکن دفتری امور میں اتنا وقت لگا کہ اس اثناء میں فیض نے بیروت میں ’لوٹس‘ کی ادارت قبول کر لی اور کلکتہ یونیورسٹی نہ آسکے۔ان باتوں کی تفصیل فیضؔ کے مکاتیب بنام پروفیسر محمد حسن میں دیکھی جا سکتی ہے، جو ’عصری ادب‘(مدیر ڈاکٹر محمد حسن) اور سہ ماہی ’دستک‘ (مدیر عنبر شمیم) میں شائع ہو چکے ہیں۔ ڈاکٹر مظفر حنفی(دہلی)
جدید ادب کا شمارہ نمبر دس(۱۰) موصول ہوا،فہرست پر نظر ڈالنے کے بعد سب سے پہلے ’گفتگو‘(اداریہ) کو پڑھا ۔جس میں آپ نے ایک انتہائی اہم سماجی مسئلے یعنی پاکستان کے ڈاک خرچ کے بڑھتے ہوئے نرخ پر قلم اُٹھایا ہے۔اسی مسئلے کی طرف وقتاَ فوقتاَ مختلف جریدوں کے مدیران بھی توجہ دلا چکے ہیں ،مگر تا حال متعلقہ شعبے کے اربابِ اختیار کی طرف سے کوئی مثبت پیش قدمی نہیں ہوئی ۔انفرادی سطح پرکی گئی کاوشیں تو بے سودد رہی ہیں مجموعی سطح پر بھی اس مسئلے کے حل کے لئے کیے گئے عملی احتجاج کا کوئی نوٹس نہیں لیا گیا۔ ہمارے ملک میں تو ہر شعبہ مسائل سے دوچار ہے ۔ جس کی بنیادی وجہ تعلیم کی کمی اور نظام کی خرابی ہے۔کسی بھی سماج میں نظام کی تبدیلی کے لئے علم کے ساتھ ساتھ عملی جدوجہد درکار ہوتی ہے اورعلوم چاہے سماجی ہوں یا سائنسی اُن کے حصول کے لئے ہماری مادی حالت ہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی ہے ۔
محترم شہزاد احمد اپنے خطبہءِ صدارت میں سائنسی علوم کی اہمیت کو واضح کرنے کے ساتھ ساتھ شاعروں کو بھی اُن کا بھولا ہوا منصب یاد دلاتے ہوئے کہہ رہے ہیں کہ ’’موجودہ زمانے میں،جو spaceکا زمانہ ہے،کہا جاسکتا ہے کہ اس بات کا امکان پیدا ہوا ہے کہ ہم مکان یعنی spaceکے اندر دور تک داخل ہوسکیں، اس معاملے میں ادب اور شاعری پیش رو کی حیثیت رکھتے ہیں۔‘‘ہو سکتا ہے ایسا ہو مگر اُنھوں نے اپنے خطبہ ءِ صدارت میں یہ واضح نہیں کیا کہ ادب اور شاعری کس طرح یہ حیثیت حاصل کریں گے ،خاص طور پر پاکستان کے حوالے سے یہ خیال کرنا بڑا تعجب خیز لگتا ہے کہ جب ہمارے شاعر و ادیب جدید سائنس و ٹیکنالوجی سے لیس معاشرتی و سماجی نظام ہی سے واقف نہیں تو یہ کیسے ممکن ہوگا؟ حسیاتی ادراک ہی فکرکی سنگت میں کسی تجربے کوممکن بناتا ہے اور ماؤزے تنگ کے مطابق احساسات علم کی پہلی اور عمومی سطح ہے جس سے گزر کر ہی اعلیٰ علوم کی گہرائی تک انسان کی رسائی ہوتی ہے۔سائنس و ٹیکنالوجی سے مزّین زندگی کی ہمارے ملک میں عدم موجودگی اور معاشی ناانصافیوں سے بھرے ہوئے سماج میں جہاں ضرورتیں خوابوں ، خواہشوں اور جذبوں کو کچل رہی ہوں وہاں تجربے اور علم سے محروم تخیل کی پرواز کہاں تک ہوگی؟ایسے میں spaceمیں داخلے کی اجازت بھی صاحبِ حیثیت ممالک کے افراد کوہی ملے گی ۔علوم بھی تو بتدریج حصول کا تقاضا کرتے ہیں spaceمیں جانے کے لیے بھی سماجی اور معاشی مسائل کے حل کے ذریعے ہی سے راستے اور واسطے تلاش کرنے ہونگے۔ یہ ٹھیک ہے کہ ’’ جمہوریت کے نعروں کے باوجود کوئی ہمیں بنیادی حق دینے کو تیار نہیں۔‘‘کوئی ہمیں ہمارے حقوق دے گا بھی نہیں ، کیونکہ کسی بھی قوم کو اپنے حقوق حاصل کرنا پڑتے ہیں ،خود آگے بڑھنا پڑتاہے۔ بنیادی حقوق جدو جہد کے بغیر کبھی کسی قوم کو میسر نہیں ہوئے، مگر ہم ہمیشہ یہی چاہتے ہیں کہ ہمارے مسائل خود بخود کسی جادوئی لمحے میں حل ہوجائیں۔
عملی سطح پر درکار جدوجہد کے لئے جس سچائی اور حوصلے کی ضرورت ہے ہم میں وہ مفقود ہے اور سچ تویہ ہے کہ ہم ابھی تک بحیثیت ایک قوم کے اُبھر ہی نہیں سکے ،وہ جذبہ ہی پیدا نہیں کرسکے جو قوموں کا فخر ہوتا ہے اور اس کے ذمہ دارکسی حد تک اہلِ قلم بھی ہیں۔اس سچائی سے محرومی کی تصدیق ’جدید ادب‘ کے اسی شمارہ کے خصوصی مطالعے میں محترم عمران شاہد بھنڈر کا گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے شائع ہونے والا مضمون ’’اُردو ادب میں سرقہ اور اس کا دفاع کب تک ؟‘‘ کرتا ہے۔جیسے جیسے مضمون پڑھتی گئی میری حیرت میں اضافہ ہوتا چلا گیا ۔ہم جھوٹ کے اتنے عادی ہوچکے ہیں کہ کبھی کبھی سچائی پر یقین کرنے میں وقت لگ جاتا ہے۔ عمران شاہد بھنڈر نے گوپی چند نارنگ کی کتاب’ ساختیات پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘ میں کیے گئے سرقے کے سلسلے میں تمام کتابوں کے حوالے ،مصنفین کے نام اور سالِ شاعت تک فراہم کیے ہیں ۔ اس کے بعد کسی شک و شبے کی گنجائش ہی نہیں رہ جاتی کہ گوپی چند نارنگ نے سرقہ کیا ہے،اس کے باوجود میں نے اپنی تسلّی کے لیے برطانیہ میں لائبریریوں کی طرف سے دی گئی سہولت سے فائدہ اُٹھاتے ہوئے اُن تما م کتب تک رسائی حاصل کی جن کا حوالہ محترم عمران شاہد بھنڈر نے اپنے مضمون میں دیا ہے۔ان تفصیلات کے مطابق گوپی چند نارنگ کا لفظ بہ لفظ کیا ہوا سرقہ جب جب پڑھتی گئی ،تب تب مجھے افسوس ہوتا رہا کہ جب اس سطح پر بھی حقیقی تصنیف کا اس قدر فقدان ہے تو باقی کی صورتحال سے کیا اُمید لگائی جائے۔ بہرحال محترم عمران شاہد بھنڈر نے جہاں پاک و ہند کے تمام نقد و ادب کی ’اوریجنیلٹی‘ پر سوالات کھڑے کردئیے ہیں وہاں پر سچائی جینے کی طرح بھی ڈالی ہے۔مستقبل میں ان جیسے نقادوں کی موجودگی کسی حد تک اردوادب میں سچائی کو زندہ رکھنے میں اہم کردار ادا کرے گی۔ خصوصی مطالعے کے اسی حصے میں اور اسی سلسلے میں جناب جاوید حیدر جوئیہ صاحب کا مضمون بھی پڑھا ،جو اُنھوں نے اُردو ادب میں غالب رجحان کے تحت مصنف کے نفسِ مضمون کو سمجھے بغیر ذات کو نشانہ بناتے ہوئے تحریر کیا ہے۔ اس مختصر سے مضمون میں بھی وہ فکری سطح پر تضادات کا شکار لگے ۔ایک بات جو سمجھ سے بالا تر رہی کہ جاوید حیدر جوئیہ صاحب نے اپنی تحریر کے آغاز میں دو صفحات پر عمران شاہد بھنڈر کے مضمون ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں ‘سے کچھ نکات تحریر کیے ہوئے ہیں ،مگر وہ کسی بھی جگہ پر اُن سے متعلق کوئی تجزیہ پیش نہیں کرسکے نہ ہی توجیہ پیش کرسکے کہ آخر اُن کو لکھنے کا کیا مقصدتھا، جب کہ باقی پوری تحریر میں اُنھوں نے ذاتیات پر اُتر کر صرف مخالفت برائے مخالفت کا ثبوت دیا ہے۔نجانے ہمارے ہاں یہ روایت کب تک چلے گی کہ کسی بھی علمی بحث میں ادیب کی ذات کو کھینچ کر ضرور لے آتے ہیں ۔
حصہءِ غزل کچھ اشعار کے علاوہ نہ تو بصارتوں کو زنجیر کرسکا نہ ہی فکر میں جاگزیں ہوسکا۔ حصہءِ نظم میں ن۔م۔ راشد کی نظم ’’ابو لہب کی شادی‘‘کا اسلوب اچھا لگا اور ان کے علاوہ قابلِ ذکر ستیہ پال آنندکی نظم ’’اپنی آنکھیں کھول دوں یا بند رکھوں؟‘‘معنوی سطح پر بھر پور طریقے سے متاثر کرتی ہے۔ اقبال نوید کی نظمیں ’’تاریخ کا چہرہ نہیں بدلا‘‘ اور ’’شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں‘‘،ایک موضوعی نفسیات کے مسائل پر روشنی ڈالتی ہوئی تو دوسری معروضی حقائق کی مکمل عکاسی کرتی ہوئی، جمالیاتی تاثر کے ساتھ ساتھ معنویت بھی لیے ہوئے ہیں۔آخر میں ہماری ثقافت کی نمائندگی کرتے ہوئے ماہیوں کی لے، ڈھولک کی تھاپ پرخود بخود سماعت میں پہچان کے کئی در کھولتی رہی اور بصارتوں میں وطن کے رنگوں سے سجے، مہندی کی خوشبو میں رچے، کئی منظروں کو مقید کر ڈالا۔پاک و ہند سے باہر ’جدید ادب‘ ہم اہلِ سفر کی ادبی ضرورتیں پوری کرنے کے علاوہ اہلِ اُردو کی بھر پور نمائندگی بھی کررہا ہے، جو قابلِ تحسین ہے ۔ شبانہ یوسف(انگلینڈ)
جدید ادب شمارہ دہم بابت جنوری تا جون۲۰۰۸ء مجھے ۴دسمبر ۲۰۰۷ء کو موصول ہوا‘ متعدد مسائل‘ مصروفیات سے نبرد آزما ہونے کے ساتھ ساتھ حسب توفیق مطالعہ اور غور جار ی رکھا‘ یوں آج ۲۸فروری کو یہ مکتوب لکھنے کی نوبت آئی۔آپ کے اداریے بعنوان ’گفتگو‘ میں اٹھایا گیا نکتہ وہ اہم مسئلہ ہے جس کے لیے اردو دنیا کے تمام اہل قلم کو مشترکہ مساعی کرنا چاہیے۔ شہزاد احمد صاحب کا خطبہ صدارت عمدہ خیال انگیز تحریر ہے‘ اس سے ان کی نثر نگاری کی خفتہ صلاحیت آشکار ہوتی ہے۔ڈاکٹرستیہ پال آنند نے قرۃ العین حیدر کے حوالے سے مختصر یادنگاری فرمائی جو ’افکار پریشاں‘ (Random thoughts) کا مشرقی نمونہ ہے‘ البتہ جا بجا کمپوزر صاحب کی مہربانی سے سنین غلط ہوگئے۔صفحہ نمبر۱۸ اور ۲۲خاص کر دیکھیے۔ قرۃ العین حیدر کا پہلا افسانوی مجموعہ ۱۹۴۸ء میں شائع ہوا (صفحہ نمبر ۲۲)۔یا ۔۱۹۴۶ء میں(صفحہ نمبر ۲۵)……؟ وضاحت درکار ہے ۔انگریزی کے اثر سے فاضل ادیب نے ساحرؔ کے چار مصرعوں کو سطریں کہا ہے‘ غور طلب ہے!
’’صباؔ اکبر آبادی کی غزل‘‘ دہلی سے خلیق انجم (ڈاکٹر؟)کی تحریر ہے۔ مجھے خلیق صاحب سے کہیں بہتر کی توقع تھی۔نظیرؔ اکبر آبادی کے نام کو قوسین میں نذیرؔ لکھنا سہوکتابت ہے۔ مضمون نگار کا یہ کہنا کہ ’’ دوسرے مصرع کے آغاز میں تباہ کی جگہ خراب کا لفظ بھی آسکتا تھا‘ پھر شاید یہ شعر فحاشی کی سرحدوں(نہ کہ حدوں؟)کو چھولیتا‘‘…… میرے نزدیک درست نہیں‘ شعر غور سے پڑھیں:
ہوس پرست ادیبوں پہ حد لگے کوئی تباہ وہ کرتے ہیں لفظوں کی عصمتیں کیا کیا
میری ناقص معلومات کے مطابق لفظ ’خراب‘ بالکل برمحل ہوتا‘ جبکہ ’تباہ‘ کا درست تلفظ ادا کرنے سے یہ خارج از بحر ہوتا نظر آتا ہے۔
عبداﷲ جاوید کی نگارش ’’ جوگندر پال۔ہمارے دور کا ایک اہم کہانی کار‘‘ اچھی فکر انگیز تحریر ہے۔ایک جگہ انہوں نے براہ راست کی بجائے لفظ’بالراست‘ لکھا(صفحہ نمبر ۳۳) جو غلط محض ہے‘ کیوں کہ راست یعنی سیدھا فارسی ہے‘ ’بہ‘ لگائیں تو بنا: ’’سیدھے سے‘‘ اور ’با‘ لگائیں تو ’’ سیدھے کے ساتھ‘‘ …… عربی کا ’با‘ لگانا کیسے درست ہوگا؟…… علاوہ ازایں ان کی تحریر کا انجام بجائے خود نقطۂ آغاز محسوس ہوتا ہے۔عبدالرب استاد کی نگارش ’’ انتظار حسین کا افسانہ‘ زرد کتا……ایک تجزیہ‘‘ علمی رنگ لیے مضمون ہے‘ مگر پھر بھی اختتام پر تشنگی محسوس ہوئی۔ انہوں نے ذوقؔدہلوی کا مقبول شعر نقل کیا‘ میرے پاس اس کی تضمین بھی موجود ہے:
نہ مارا آپ کو تا خاک سے اکسیر بن جاتا نہنگ و اژدہا و شیر نر مارا تو کیا مارا (بہادرشاہ ظفرؔ)
ایک حدیث کے متن کا بھی فرق موجود ہے‘ حوالہ لاز م ہے۔ میری معلومات کے مطابق یہ الفاظ ہیں : المسلم من سلم المسلمون من لسانہٖ و یدہٖ (صحیحین‘ مشکوٰۃ شریف)
آگے چل کر فاضل مضمون نگار نے خیال ظاہر کیا کہ ’’ کلام پاک میں جتنے انبیاء کا ذکر آیا ہے ‘ وہ تمام کے تمام ایشیا یعنی مشرق میں نازل ہوئے ہیں‘‘۔میرے استاد گرامی مفتی محمد اطہر نعیمی کا بھی یہی خیال ہے‘ مگر اس ارشادباری کا کیا مفہوم نکلے گاکہ’’ ہم نے ہر قوم میں داعی بھیجا‘‘؟……کیا ہزاروں سال قبل محض ایشیا ہی مسکن انسانی تھا؟
یونس خان نے ’’قدیم چینی شاعری‘‘ سے ہماری معلومات میں اضافہ کیا۔ایک جگہ انہوں نے شاعر بائی جووی (۷۲۴ء تا ۸۴۶ء) کا ذکر کیا (جو اس لحاظ سے ۱۲۶سالہ شخص تھا)‘ پھر اسے متعلق کیا حضرت سعد بن ابی وقاص رضی اﷲ عنہ،(لفظ ’ابی‘ چھوٹ گیا ہے)کے دورۂ چین سے جو تاریخ’’الکامل‘‘ از علامہ ابن اثیر کی رُو سے حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ، کے عہد میں ہوا۔(حضرت عثمان غنی رضی اﷲ عنہ، کی شہادت ۳۶ھ مطابق ۶۶۷ء /۶۶۸ء میں ہوئی)…… یہ تطابق کس طرح درست ہوسکتا ہے؟[یہاں ضمناً عرض کروں کہ میری تحقیق کا نچوڑ بر موضوع ’’ چین میں اشاعت اسلام کی ابتداء‘‘ کئی سال قبل انگریزی اخبار ٹوڈے نیوز‘ اسٹار‘ جریدہ دی میسج انٹرنیشنل اور اردو روزنامہ جنگ‘ کراچی میں مضمون کی شکل شائع ہوچکا ہے]…… ایک معمولی سہو کتابت یہ ہے کہ کویل کی جمع بجائے ’’ کویلوں‘‘ کے ’’ کوئلوں‘‘ ہوگئی جو معنی بدلنے کو کافی ہے۔
اکبر حمیدی کا گوشہ اتنا بھرپور ہے کہ الگ کتابی صورت میں شائع ہونا چاہیے۔ان کے کوائف میں ’ قیام ‘ کی جمع ’’ قیامات‘‘ دیکھ کر تعجب ہوا۔ اس گوشے کے مضامین پر الگ الگ لکھنا ‘ خوف طوالت سے ‘ پھر کسی موقع پر اٹھا رکھتا ہوں۔ اکبر حمیدی کے اشعار میں متروک تراکیب‘ فارسیت‘اور پنجابیت گلے ملتی نظر آتی ہیں۔بعض بدیع خیال بھی تحسین طلب ہیں۔البتہ ایک بات ڈنکے کی چوٹ پر کہوں گا‘ وطن سے محبت فطری جذبہ ہے مگر وطن کو دھرتی ماتا کہنا خالصاً ہندوانہ نظریہ/ عقیدہ ہے…… اسلام کہتا ہے : الارض ﷲ۔۔۔ اکبر حمیدی کے حوالے سے شہزاد احمد صاحب کے عالمانہ مضمون کو پڑھ کر یہی کہنے کو جی چاہتا ہے کہ وہ نفسیاتی تنقید ہی لکھا کریں……آپ کے ذاتی مضمون میں یہ کہنا’’ ہائیکو چوں کہ تین مساوی الوزن مصرعوں پر مشتمل ہیں‘ اس لیے میں انہیں ثلاثی کے زمرے میں شمارکرتا ہوں‘‘ گویا اس صنف کے پنجاب مکتب کے لیے للکار ہے۔ اس ضمن میں کراچی مکتب اور اکثر اہل سخن خالص جاپانی طرز پر ۵۔۷۔۵ صوتی ارکان کی پابندی کے ساتھ‘ مخصوص بحر ‘ بحر متقارب پر طبع آزمائی کرتے ہیں‘ جبکہ ثلاثی میں کسی بحر کی پابندی نہیں…… شک ہو تو حمایت علی شاعرؔ صاحب سے رجوع فرمائیں۔ ’’ جست بھر زندگی‘‘ پر منشا یاد کے ابتدائی پیراگراف کے آخر میں چست جملے نے گویا طنز کا صحیح نمونہ پیش کیا ہے۔ آگے بھی بعض نکات اس قابل ہیں کہ انہیں بھرپور داد دی جائے‘ اختصار کے پیش نظر ممکن نہیں۔خود اکبر حمیدی نے منشایاد کا خاکہ بہت عمدہ لکھا ہے۔ ان کی شاعری جدا مضمون کی مقتضی ہے۔شعری حصے کے بارے میں کافی نکات لکھے‘ بطور حاشیہ …… مگر خوف طوالت سے ترک کرتا ہوں۔ حسن عباس رضاؔ کی دوسری غزل کے مطلع میں پہلے ’’تماشہ گر‘‘ لکھا گیا‘ پھر ’’ تماشا‘‘…… جناب صحیح لفظ تماشا ہے‘ عربی ’’تماشیٰ ‘‘ سے‘ اس میں ’ہ‘ لگانا ہرگز درست نہیں۔
ناظم خلیلی نے Swappingکا ذکر کیا جو ہمارے یہاں بھیKey clubکے نام سے موجود ہے اور جانگلوس (از شوکت صدیقی) میں اس کا ذکر ملتا ہے۔ میری تازہ غزل کی اشاعت کا بہت شکریہ‘ میرے خیال میں یہ میری اب تک کی سب سے بہتر کاوش ہے۔اقبال حسن آزاد کا افسانہ ’’کاٹنے والے‘ جوڑنے والے‘‘ اچھی تحریر ہے…… پروردگار کو ’اوپر والا‘ کہنا غیر اسلامی اور ہندوانہ طریقہ ہے……وہ تو خود قرآن مجید میں فرماتا ہے کہ میَں تم سے ‘ تمہاری شہ رگ سے زیادہ قریب ہوں۔انجام بھی نظر ثانی چاہتا ہے‘ کیوں کہ متن میں آمنے سامنے صفحات پر ہی اختلاف نمایاں ہے۔ڈاکٹر بلند اقبال کا افسانہ مختصر مگر بھرپور ہے‘ سمیرا نقوی نے اچھا رومانی افسانہ قلم بند کیا…… نثری کلام کو براہ کرم الگ عنوان دیا کیجئے۔فرازؔحامدی ماہیا غزل کے بعد ماہیا نظم اور ماہیا گیت کا تجربہ خوب کر رہے ہیں۔گوپی چند نارنگ کے مسئلے پر محض دو باتیں:
ا) آپ کی وضاحت درو ضاحت کے بعد سوائے نارنگ کے ‘ کسی اہل قلم کو زحمت تحریر دینا غیر ضروری تھا۔
ب)عمران شاہد بھنڈر صاحب واقعی تحقیق اور مطالعے کے بعد لکھنے والے ادیب ہیں۔
امین خیالؔ کا ماہیا کیا خوب وہ ہستی ہے/ حسن پرستی بھی/توحید پرستی ہے ایک بدیع خیال کا مرقع ہے…… تمام مقامات پر وحدت الشہود کا پرچار کرنے کے ساتھ ساتھ انہوں نے ایک جگہ وحدت الوجود کا نظریہ بھی پیش کیا……ایں چہ بوالعجبیست؟
اکمل شاکر کا ماہیا دل ایسا پرندہ ہے/یاد کی ٹہنی پر/تیرے لیے زندہ ہے
اصل میں اقبال حیدر(کراچی/امریکا)کے نہایت مشہور ہائیکو کا پرتو ہے:
دل وہ پرندہ ہے /آخری گیت سنانے کو/اب تک زندہ ہی
(بحوالہ ہائیکو انٹرنیشنل‘ اقبال حیدر نمبر۔۲۰۰۰ء:http://iqbalhaider786.spaces.live.com)
شمس الرحمن فاروقی کے ناول’’ کئی چاند تھے سر آسماں‘‘ کا جامع تعارف ہر لحاظ سے اچھا لگا۔گوشۂ مکاتیب اس مرتبہ ندارد؟ یار زندہ صحبت باقی! اور اﷲ بس ‘ باقی ہوس! سہیل احمد صدیقی(کراچی)
’جدید ادب‘ کا تازہ شمارہ (جنوری ۲۰۰۸ء) دو ہفتے تک میرے زیر مطالعہ رہا۔عید اور اینڈ ٹرم کی چھٹیاں تھیں ،سو میں اسے اپنے ساتھ گاؤں لے گیا اور یقینا یہ ایک اچھا رفیق ثابت ہوا۔تمام تحریروں کی یکجائی میں ایک ماہرانہ سلیقہ روا رکھا گیا ہے اور نئے و پرانے لکھنے والوں کو مناسب طریقے سے پرچے میں جگہ ملی ہے۔جدید ادب کی اس کامیاب پیش کش پر مبارکباد قبول فرمائیے۔یقینا یہ کاوشِ مسلسل قابلِ داد ہے ۔ایک پرائے ملک میں بیٹھ کر اپنے علم و ادب سے اس وابستگی اور والہانہ محبت کی جتنی بھی تعریف کی جائے ،کم ہے۔اللہ آپ کے وفور علم وعمل کو فزوں تر کرے ۔آمین
اس شمارے میں آپ نے گفتگو کے عنوان کے تحت جو نکتہ اٹھایا ہے وہ یقینا اہم اور پاکستان محکمہ ڈاک کو اس بارے میں ضرور غور کرنا چاہیے۔کاش ایسا ہو لیکن افسوس کے ساتھ کہنا پڑتا ہے کہ یہاں ایک محکمہ ڈاک کیا، قومی حوالے سے ہر شعبے پر ایک گہری نیند کا عالم ہے۔خمار کا جُھولا جھل رہا ہے اور سب اپنے آپ میں مست ہیں۔خدا خیر کرے۔جدید ادب میں شاعری اور افسانے کا حصہ مناسب ہے اور آپ نے اچھی اور تازہ تحریروں کو تلاش کرنے میں سرگرمی دکھائی ہے۔گوشہء اکبر حمیدی اس درویش صفت فنکار کی شخصیت اور فن پرعمدہ تحریروں کا مرقع ہے۔یہاں ان کی ادبی حیثیت کے جملہ پہلوؤں کا خوبی سے احاطہ ہوا ہے۔
مضامین میں شہزاد احمد کا خطبہ صدارت بہت قابل توجہ تحریر ہے ۔تخلیقی تسلسل کو جدید سائنسی منظر نامے میں رکھ کر دیکھنے اور شعر و شعور کو سمجھنے سمجھانے کو انھوں نے بہترین پیرایہ اختیار کیا ہے۔ڈاکٹر ستیہ پال آنند نے ’عینی آپا کچھ یادیں کچھ باتیں ‘ میں قرۃ العین حیدر سے اپنی چند ملاقاتوں کو بنیاد بنایا ہے۔یادوں کے نقش کچھ ایسے پر اثر نہیں لیکن بیان کی شگفتگی نے ان میں رنگ بھر دیا ہے۔ڈاکٹر حامد اشرف نے ’نظارہ درمیاں ہے‘ کو جانچا ہے اور بقول ان کے یہ افسانہ دولتمند طبقے کی مکاری ،خود غرضی اور موقع پرستی کو پیش کرتا ہے۔ صبا اکبر آبادی کی غزل کے حوالے سے ڈاکٹر خلیق انجم کا مضمون اچھا لیکن مختصر ہے اور اس میں جلدی سے نپٹا دینے کی کیفیت نمایاں ہے۔جوگندر پا ل پر عبداللہ جاوید کے تنقیدی مضمون میں توصیفی جادو بیانی کے ساتھ کاش کہ تنقیدی رس تھوڑا زیادہ ہوتا تو یقینا یہ ایک اچھا محاکمہ ثابت ہوتا۔انتظار حسین کے افسانے ’زرد کتا‘ پر پہلے بھی کئی تجزیے سامنے آ چکے ہیں عبد الرب استاد صاحب نے اپنے زاویہء نگاہ سے اسے پرکھنے کی کوشش ہے۔
گوپی چند نارنگ صاحب کے حوالے سے شامل تحریریں گرما گرم ہیں ۔جوئیہ صاحب کا رد عمل اور بھنڈر صاحب کی جوابی تحریر میں نے بڑے شوق سے پڑھی۔ہر دو طرف بھنویں تن رہی ہیں، کیا ہی اچھا ہو اگر نارنگ صاحب خو د میدان میں آئیں اور صورتحال واضح کر دیں ۔ایک بات ضرور کہنا چاہوں گا کہ حقائق کی تلاش و ترویج بہت اچھی لیکن اس میں ایک ضبط اور وقار کو ملحوظ رکھا جانا از حد ضروری ہے تا کہ مثبت نتائج سامنے آسکیں۔
ڈاکٹرشفیق انجم(اسلام آباد)
۲۹دسمبر کی سب سے بڑی خبر تو یہی تھی کہ ـ’’جدید ادب‘‘ نہ صرف شائع ہو گیا ہے بلکہ ہماری آنکھوں کے سامنے بھی ہے ۔ ا س کو دیکھ کر نہ صرف دل کی دھڑکن تیز ہوئی بلکہ اس کا ٹائیٹل دیکھ کر آنکھیں بھی خیرہ ہوئیں۔اس کا ٹائیٹل اگر dull ہوتاتو شاید اور بھی زیادہ جازبِ نظر ہو تا۔ ٹائیٹل پر درج ماہیہ خوبصورت ہے اور حسبِ حال بھی۔ سب سے پہلے’گفتگو ‘پڑھا جو یقینا فکر انگیز ہے۔ پھر آنند جی کا ’’ عینی آپا کچھ یادیں، کچھ باتیں‘‘ واہ واہ بہت اچھا۔مزہ آگیا۔آنند جی کی باتیں، خوبصورت باتیں۔ مجھے ایسا لگا کہ جیسے آنند جی اور عینی آپا میرے پاس بیٹھے ہیں اور باتیں کر رہے ہیں۔ اس حوالے سے میں مکان و زمان کا قائل نہیں ہوں۔ شاید میں ۷۲سال کا ہو گیا ہوں یا آنند جی ۴۳سال کے! شاید ہم سب ہی کسی اور وقت میں زندہ رہتے ہیں۔اگر میں پچیس سو سال پیچھے جا کر کنفیوشس اور دوسرے بہت سے لوگوں سے بات کر سکتا ہوں یا یہ لوگ اگر میرے پاس آ کر بات کر سکتے ہیں تو آنند جی یا عینی آپا کیوں نہیں؟ عینی آپا نے ٹھیک ہی تو کہا تھا کہ
You can stand still in Time and move back and forth in Space,or stand still in Space and move back and forth in Time.
اگر ایک صدی گزرنے کے باوجود آئن سٹائن کا نظریہ عام فہم نہیں ہے تو عام فہم ’’آگ کا دریا ‘‘بھی نہیں ہے۔یہ مستقبل کا ناول ہے ،جسے وقت سے پہلے لکھ دیا گیا ۔ جہاں تک ہماری تاریخ کے آغاز کا سوال ہے تو میں کہہ سکتا ہوں کہ کسی نے کیا خوب کہا تھا کہ
"Culture can not be replaced but displaced", but we are continuously trying to replace it.
جس طرح ہم کلچر کو تبدیل کر رہے ہیں اسی طرح ہم اپنی تاریخ بھی تبدیل کر رہے ہیں اور ہم اپنی تاریخ کا آغاز میر قاسم سے کرتے ہیں، یہ فرض کرتے ہوئے کہ اس سے پہلے یہاں کچھ نہیں تھا ،صرف خلا تھا۔ در اصل اصلی ’ہندو‘ ہم ہیں کیونکہ اصل لفظ ’سندھو‘ ہے یعنی سندھو ( سندھ دریا) کی دھرتی کا رہنے والا، جہاں ’سندھ (indus)کی تہذیب ‘پروان چڑھی, جسے’ سرسوتی کی تہذیب ‘ کے نام سے حکومتِ ہند نے اپنی درسی کتابوں میں تبدیل کر دیا ہے۔ ہمیں ’ہندو‘ ہونے سے نفرت ہے اور اہلِ ہند کو لفظ ’سندھو‘ سے۔ شاید اس لئے ہم نے اپنی تاریخ میر قاسم سے شروع کی اور اب اہل ہند نے ’سندھ کی تہذیب‘کے نام کو پہلے’ سندھ ۔سرسوتی تہذیب ‘ اوربعد ازاں’ سرسوتی کی تہذیب ‘ کے نام سے تبدیل کر دیاہے ۔ اس حوالے سے تو ہم ،پاکستانی اور ہندوستانی،ایک جیسے ہی ہیں۔
شہزاد احمد کا مقالہ ’’خطبہء صدارت‘‘ فکر انگیز ہے۔
عبداللہ جاوید نے جوگندر پال کو یہ کہہ کر کہ’ پڑھنے والا افسانے کے اندر سے اور افسانہ پڑھنے والے کے اندر سے گزرتا ہے‘ جوگندر پال صاحب کو خوبصورت خراج پیش کیا ہے اور ایسا ہی خراج منشا یاد نے اکبر حمیدی کو یہ کہہ کر دیا ہے کہ ان کی سوانح پڑھ کر مجھے لگا جسے انہوں نے اپنی نہیں میری سوانح لکھی ہے۔حیدر قریشی نے اکبر حمیدی کے لیئے اپنے حصے کا خراج کچھ یوں دیا ہے کہ زندگی سے بھری ہوئی یہ کتاب موت کے بارے میں کچھ نہیں کہتی صرف زندگی کے بات کرتی ہے، مثبت طور پر زندہ رہنے کی بات کرتی ہے۔اکبر حمیدی صاحب کے کوائف میں جائے سکونت اور ان سے رابطے کاذریعہ حذف ہو گئے ہیں جب کہ یہ کوائف سلیم آغا قزلباش کے مضمون ’ اشتہاروں بھری دیواریں‘ میں ملتے ہیں۔ سلیم آغا نے یہ کہہ کر کہ ان کے انشائیوں کا مطالعہ کرتے ہوئے لخت لخت ہونے کا احساس پیدا نہیں ہوتا، اکبر حمیدی کو صاحب کو اپنے حصے کا خراج پیش کیا ہے۔ ڈاکٹر نذر خلیق نے اکبر حمیدی کی سونح عمری کا موازنہ اردو میں لکھی گئی دیگر خود نوشتوں سے بڑی خوب صورتی سے موازنہ کیا ہے اور بجا طور پر لکھا ہے کہ زندگی کا مشاہدہ ہر شخص اپنی تخلیقی اورتنقیدی صلاحیت سے ہی کرتا ہے جو یقینا بڑا تخلیق کار اور نقاد ہوتا ہے وہ زندگی کا اتنا ہی گہرا مشاہدہ کرتا ہے۔خاور اعجاز نے ’’ اشتہاروں بھری دیواریں‘‘ میں شامل انشائیوں کا بڑی خوبصورتی سے تجزیہ پیش کیا ہے۔محمود احمد قاضی نے یہ کہہ کر کہ میں یہ برملا کہہ سکتا ہوں کہ خصوصاً میرے انشائیے سے لگاؤ،اسے پسند کرنے کی وجہ محض اور محض اکبر حمیدی کا انشائیہ ہے اکبر حمیدی کا سلام پیش کیا ہے اور بجا کہا ہی کہ یہ ایک زندہ آدمی کا زندہ آدمیوں سے مکالمہ ہے۔خلیق الراحمن نے ان کی زات کی خفتہ گوشوں کو بیان کرتے ہوئے کیا خوب کہا ہے کہ ان کی تخلیقات میں معنویت کی تہہ دراریاں پوشیدہ ہوتی ہیں۔ قریب کی بات دور اوردور کی بات قریب آ کر سرگوشیاں کرنے لگتی ہے۔
اکبر حمیدی اور صبا اکبر آبادی کی غزلیں ساتھ ساتھ چھپی ہیں انہیں پڑھ کر ایسا لگتا ہی کہ صبا اکبر آبادی اکبر حمیدی کی کوئی عزیزہ ہیں! مظفر حنفی کی غزلیں خوبصورت ہیں۔تاجدار عادل،حسن عباس، کاوش پرتاپ گڑھی، اقبال نوید، شبانہ یوسف، صائمہ کنول،غزل رضوی،حیدر قریشی، شاہد ماہلی، شہناز نبی، نذیر فتح پوری اور دیگر تمام خواتیں اور حضرات کی شاعری شاندار ہے۔
سلطان جمیل نسیم کا افسانہ ’’ تیز ہوا کے بعد‘‘ بہت خوبصورت ہے۔ ایسی ہی صورتحال کا میں بھی شکار رہا ہوں۔میں یہاں سرگودھا میں ایک خاص سڑک پر دن کے اوقات میں بھی نامعلوم وجوہات کی بنا پر ایک خاص مقام سے گزرنے سے کتراتا تھا۔ مجھے وہاں گاڑیوں کی آمدورفت اور عمارتوں کی موجودگی میں بھی ایک خاص قسم کا سناٹا محسوس ہوتا تھا۔ اچانک ایک دن انکشاف ہوا کہ سڑک کی عمارتوں کے پیچھے ایک قبرستان ہے اور سناٹے کی وجہ یقنا یہی نظر نہ آنے والاقبرستان ہو گا!اقبال حسن آزاد کا کا افسانہ’’کاٹنے والے جوڑنے والے‘‘ شاندار ہے۔جتندر بلو کا ’’ شب کے ساتھی‘‘ زبردست ہے۔ شفیق انجم کا’’ اُکڑوں بیٹھا وقت‘‘ بہت اچھا ہے۔جس شفیع بلوچ کو میں جانتا ہوں وہ تو ایک صوفی ہے افسانہ نگار نہیں ہیں۔’’ شاید۔۔۔!‘‘ بہت ہی اچھا اظہاریہ ہے۔افسانے کا اسلوب بہت خوبصورت ہے۔ جس میں کرداروں کے احساسات کو بہت خوبصورتی سے پیش کیا گیاہے۔ افسانہ گو مختصر ہے لیکن جاندار ہے۔ افسانے میں بیان کی گئی صورت حال ہمارے معاشرے کا ایک بہت بڑا taboo ہے۔کتھارسس کی تمام راہیں مسدود ہونے کی وجہ سے لوگ اس طرح کے ناجائز زرائع اپنانے پر مجبورہو جاتے ہیں۔جان عالم کا ’’ ڈر‘‘ اچھا ہے۔ڈاکٹر بلند اقبال کا افسانہ ’’ پر اسرار مسکراہٹ‘‘ شاندار ہے اور’’ یہ کیسی بے وفائی‘‘ کا اختتامی اقتباس اُس سے بھی زیادہ شاندار ہے۔ سمیرہ نقوی کا ’’گرداب‘‘ بہت خوبصورت ہے
بھگوان داس صاحب’’ جدید ادب‘‘ میں چھپے ہیں اس طرح ہمارے بھائی بن گئے ہیں۔ میں ’جدید ادب ‘کی اس محفل میں ان کا خیر مقدم کرتا ہوں اور امید کرتا ہوں بھگوان داس صاحب اس محفل کو اب کبھی نہیں چھوڑیں گے۔ یونس خان(سرگودھا)
received *jadeed adab*.very sorry to say that I had though heard of it ,read about it.but never got an opportunity to See it earlier.it is very handy, carrying lot of weight in its creative writings and sensitive production. A very good work indeed. *I WILL LOVE TO CARRY YOUR REVIEW OF * KAI CHAND THE SARE AASMAN* please send me inpage file of this piece.*
جدید ادب کو آج شام سے اب تک تقریباََ پڑھ چکا ہوں۔’’مترجم مصنف‘‘ والا معاملہ بھی،تینوں مضامین۔
جدید ادب ۔زندہ باد! اشہر ہاشمی(دہلی)
جدید ادب شمارہ :۱۰سابقہ شماروں سے بھی فزوں تر نظر آتا ہے۔افسانوں کا حصہ میں ،تیز ہوا کے بعد(سلطان جمیل نسیم)،کاٹنے والے جوڑنے والے(اقبال حسن آزاد)،شب کے ساتھی(جتندر بلو)اکڑوں بیٹھا وقت(شفیق انجم)،شاید(شفیع بلوچ)،ڈر(جان عالم)،پراسرار مسکراہٹ(بلند اقبال)،گرداب(سمیرا نقوی)
دیرپا اثر چھوڑتے ہیں۔اس شمارہ کی جان اکبر حمیدی پر خصوصی گوشہ ہے۔مضامین نگار حضرات نے اکبر حمیدی کے فن اور شخصیت کے بیشتر پہلوؤں کو اجاگر کر دیا ہے۔اکبر حمیدی کی تخلیقات بھی دل پر اثر انداز ہوتی ہیں۔امین خیال،اور فراز حامدی کے ماہیے،رفیق شاہین کی ماہیا نظم دل کو چھولیتے ہیں۔کتابوں پر تبصرے تجزیاتی رنگ میں ضرور ہیں لیکن بعض اس قدر مختصر ہیں کہ وہ تبصرے نہ ہو کر صرف اعلان ہی نظر آتے ہیں۔حیدر قریشی نے فاروقی صاحب کے ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں ‘‘کی تفہیم و تشریح میں اپنی عالمانہ اور فنکارانہ سوجھ بوجھ کا بھرپور مظاہرہ کیا ہے۔ رئیس احمدرئیس(علی گڑھ)
جدید ادب جرمنی کا شمارہ نمبر ۱۰شائع ہو گیا
حیدر قریشی اور ڈاکٹر نذر خلیق کی ادارت میں نکلنے والے ادبی جریدہ جدید ادب جرمنی کا شمارہ نمبر ۱۰ (جنوری تا جون ۲۰۰۸ء) شائع ہو گیا ہے۔تازہ ادبی موضوعات پریا ادیبوں کے فن پر مضامین لکھنے والوں میں شہزاد احمد،ستیہ پال آنند،ڈاکٹر حامد اشرف،ڈاکٹر خلیق انجم،عبداللہ جاوید، عبدالرب استاد اور یونس خان شامل ہیں۔اس بار اکبر حمیدی کا گوشہ دیا گیا ہے۔اس گوشہ میں اکبر حمیدی کے فن کی مختلف جہات پر ڈاکٹر رشید امجد،شہزاد احمد، حیدر قریشی،سید ضمیر جعفری،سید معین الرحمن،جاوید حیدر جوئیہ،منشا یاد،ڈاکٹر نذر خلیق،سلیم آغا قزلباش،خاور اعجاز،محمود احمد قاضی ،خلیق الرحمن کے مضامین اور محمد زبیر ٹیپوکے مرتب کردہ کوائف دئیے گئے ہیں۔اکبر حمیدی کی نگارشات کے ضمن میں اکبر حمیدی کا انشائیہ ’’دہشت گرد‘‘،منشا یاد کے بارے میں لکھا ہوا خاکہ’’مت سہل ہمیں جانو‘‘ اور اکبر حمیدی کی دس غزلیں دی گئی ہیں۔مختلف نگارشات کے آخر میں بچ رہنے والی جگہوں پر اکبر حمیدی سے متعلق اہم اقتباسات دئیے گئے ہیں۔اس طرح مجموعی طور پر یہ اکبر حمیدی کے فن کی مختلف جہات کا احاطہ کرتا ہوا ایک عمدہ اور بھرپورگوشہ بن گیا ہے۔حمد و نعت کے حصہ میں جسٹس رانا بھگوان داس کی نعت قارئین کو چونکاتی ہے۔
غزلوں کے حصہ میں صبا اکبر آبادی،مظفر حنفی،عبداللہ جاوید،تاجدار عادل،خورشید اقبال،حسن عباس رضا،کاوش پرتاپگڈھی،قاضی اعجاز محور،عظیم انصاری،اقبال نوید،شبانہ یوسف،سہیل احمد صدیقی،غزل رضوی،حیدر قریشی،شاہد ماہلی،شہپر رسول،شہناز نبی،خاور اعجاز،نذیر فتح پوری و دیگر کی غزلیں شامل ہیں۔افسانوں کے سیکشن میں سلطان جمیل نسیم،اقبال حسن آزاد،جیتندر بلو،شفیق انجم،شفیع بلوچ،جان عالم،ڈاکٹر بلند اقبال اور سمیرا نقوی کے افسانے شائع ہوئے ہیں۔نظموں میں ن۔م۔راشد کی نظم ابو لہب کی شادی کے ساتھ موجودہ عہد کے ستیہ پال آنند،شاہد ماہلی،فرحت نواز،عبداللہ جاوید،خلیق الرحمن،خورشید اقبال،پروین شیر،فیصل عظیم،کاوش عباسی،فراز حامدی،پرویز مظفر،تحسین گیلانی،ارشد خالد،شبانہ یوسف کی نظمیں شامل ہیں جبکہ جمیل الرحمن کی پانچ اوراقبال نوید کی چار نظمیں بھی اسی حصہ میں دی گئی ہیں۔
خصوصی مطالعہ سیکشن میں عمران شاہد کے شمارہ نمبر ۹میں چھپنے والے ایک مضمون کے حوالے سے گرما گرم بحث شامل ہے۔گزشتہ مضمون میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات،پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘ کے بارے میں متعدد حوالوں کے ساتھ یہ بتایا گیا تھا کہ موصوف نے مغربی مصنفین کی کتابوں سے بے دریغ پورے پورے صفحات کسی قسم کا حوالہ دئیے بغیر اپنے افکارِ عالیہ کے طور پر لکھ دئیے ہیں۔اس بار ان اقتباسات میں مزید اضافہ کے ساتھ یہ بھی انکشاف کیا گیا ہے کہ نارنگ صاحب نے ٹیرنس ہاکس کی کتابStructuralism and Semioticsکو مکمل طور پر سرقہ کر لیا ہے۔اور اس باب میں صرف اتنی مہارت دکھائی ہے کہ بعض پیراگراف کو کچھ آگے پیچھے کر دیا ہے۔اس حصہ میں کلیدی مقالہ تو عمران شاہد بھنڈر کا ہے تاہم حیدر قریشی اور جاوید حیدر جوئیہ نے بھی بحث میں شرکت کی ہے۔ڈاکٹر رشید امجد اور سکندر احمد کے اقتباسات بھی بحث کے مجموعی تناظر میں اہمیت کے حامل ہیں۔
امین خیال کے ۹۰ماہیے اس بار اہتمام کے ساتھ شامل کیے گئے ہیں۔دیگر ماہیا نگاروں میں فراز حامدی،رفیق شاہین،محمد علی اثر،فاروق شکیل،اظہار وارثی،اکمل شاکر،انجم اعظمی اور رانا اختر کے ماہیے شائع کیے گئے ہیں۔کتاب گھر سیکشن میں ڈاکٹر وسیم انجم،ڈاکٹر لدمیلا،ابرار احمد،طاہر مجید،رئیس الدین رئیس کی کتابوں پر تبصرے شامل ہیں جبکہ تفصیلی مطالعہ میں ناصر عباس نیر کی کتاب ’’مابعد جدیدیت اور نظری مباحث‘‘کا ابتدائیہ اور شمس الرحمن فاروقی کے ناول’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘پر حیدر قریشی کا تفصیلی جائزہ شامل ہیں۔خطوط کا حصہ اس بار سہواََ شامل ہونے سے رہ گیا ہے۔انتظامیہ کے مطابق یہ حصہ انٹر نیٹ پر ابھی آن لائن کر دیا جائے گا اور شمارہ نمبر ۱۱میں انہیں الگ سے شامل کیا جائے گا۔ سعید شباب(خانپور)
(اس خبر کو انٹرنیٹ پر اردو کے فورم urdu_writers@yahoogroups.com سے ۱۵دسمبر ۲۰۰۷ء کو ریلیز کیا گیا)
جدید ادب کا تازہ شمارہ اپنی علمی و ادبی اور مفیدِ مطلب مشمولات سے مصدرِ فیوض کی حیثیت کا حامل ہو گیا ہے۔الگ الگ مضامینِ نظم و نثر کے بارے میں اظہارِ خیال کا حق تو ادا ہی نہیں کیا جا سکتا،کیونکہ
زِ فرق تابہ قدم، ہر کجا کہ می نگرم کرشمہ دامنِ دل می کشد کہ حسن ایں جاست
گوشۂ اکبر حمیدی بھی بھر پور ہے اور صاحبِ گوشہ کے فن اور تشخص کی سرتاسر تکشیف۔معتبر قلمکاروں نے موصوف کو بڑی دیانتداری سے سراہا ہے اور ان کی بے لوث اور قابلِ لحاظ خدمات کی کما حقہ داد بھی دی ہے،جس سے جی خوش ہوا۔ع ابھی حق گوئی باقی ہے ادب میں۔عتیق احمد عتیق۔مدیر سہ ماہی توازن۔مالے گاؤں
جدیدادب کا شمارہ ،دس( ۱۰ ) موصول ہوا۔حسبِ معمول یہ شمارہ بھی اپنے مشمولات کے اعتبار سے قابلِ مطالعہ اور اہم ہے۔ اداریہ میں آپ نے پاکستان میں بڑھتی ہوئی ڈاک کی شرح کا مسئلہ اُٹھایا ہے جو بر وقت ہے ۔ہمارے اربابِ اقتدار جب کبھی بھی بڑھتی ہوئی مہنگی اشیاء کا ذکر فرماتے تھے اور ہیں مثال میں یہ ضرور کہتے رہے ہیں کہ ہمارے یہاں ہندوستان کے مقابلے میں یہ چیز بہت کم قیمت کی ہے ۔ اب ہر معاملے میں اُلٹی بات ہو گئی ہے ۔پاکستان کے مقابلے میں ہندوستان میں جمہوریت تک ارزاں ہے ۔اداریہ سے بھی پہلے سرورق پر آپ کا ماہیہ․․․․ماہیے کے بارے میں یہ میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ آپ نے اِس’’ توانا صنف‘‘ سے اردو ادب کو مالا مال کیا ہے۔ماہیے میں غزل کی سی خوبیاں سمٹی ہوئی ہیں۔جس طرح غزل کا ایک شعر کسی نظم کے مکمل خیال کو سموئے ہوئے ہوتا ہے اسی طرح ماہیے کے تین مصرعے بھی ایک بھر پور نظم کا نعم البدل ہیں۔
تازہ شمارے میں تمام ہی مضامین فکر انگیز ہیں، شاعری کی وسعت و صداقت کی تعبیر وتشریح شہزاد احمد صاحب کے’’ خطبہء صدارت ‘‘ سے ہوتی ہے۔ جب میں نے اُن کا یہ جملہ پڑھا کہ․․․’’ہمیں سب سے بڑا خطرہ خود انسان سے ہے‘‘ تو بے اختیار میرے ذہن میں یہ شعرابھر آیا۔
لوگ کرتے رہے آشوبِ جہاں کی تاویل وجہ آشوب خود انساں ہے یہ معلوم نہ تھا (صبا اکبرآبادی)
شہزاد صاحب کو وجہِ آشوب کا علم ہے۔قرۃالعین حیدر بلا شبہ ہماری زبان اور عہد کی سب سے بڑی اور اہم افسانہ نگار تھیں۔اُن کے ایک افسانے کا مطالعہ ڈاکٹر حامد اشرف نے پیش کیا ہے جبکہ ڈاکٹر خلیق انجم نے صبا اکبر آبادی کے فکر و فن کو سمجھنے کے لئے ایک در‘ واکیا ہے۔ عبد اللہ جاوید صاحب آج کل بہت تسلسل و تواتر اور دل جمعی کے ساتھ سے مختلف اصناف پر طبع آزمائی فرما رہے ہیں۔ ’’سیپ ‘‘ کے تازہ شمارہ میں ڈاکٹر الیاس عشقی کی دوہا نگاری پر بسیط مضمون کے ساتھ غزلیں ،نظمیں اور افسانہ بھی شائع ہوا ہے ۔ جدید ادب ‘ کے موجودہ شمارے میں بھی انہوں نے ایک اور بزرگ،منفرد طرزِ تحریر کے موجد افسانہ نویس جوگندر پال کے فن کو سمجھ کر تجزیہ نگاری کا فریضہ انجام دیا ہے۔اور یہ معنی خیز جملہ بھی لکھا ہے کہ’’جوگندرپال چھوٹا موٹا فلسفی ہے‘‘یہاں میں صرف اتنا کہنا چاہوں گا کہ لفظ کے باطن میں اتر کرمعنیٰ کے موتی نکال لانے والا بھی فلسفی ہوتا ہے۔ چھوٹا موٹا سہی․․․․
افسانے ابھی پڑھے نہیں۔ البتہ خصوصی مطالعہ میں گوپی چند نارنگ کے سرقہ والا حصہ پڑھ لیا۔۔۔ کیا ہمارے ڈاکٹر نذر خلیق نے اپنےPhdکے تحقیقی مقالہ میں اس طرف بھی توجہ دی ہے۔؟ آپنے ’’جدید ادب‘‘ کے ذریعہ مانگے کا اجالا لے کر اپنا نام روشن کرنے والوں کے بہت سے چراغ بجھائے ہیں۔اب بھی ادب میں اِن کی تعداد کم نہیں ایک نیا اضافہ۔ تازہ شمارے میں موجود ہے۔ ۔ مجھے تو یہ کہنے والے بھی ملے ہیں کہ آنجہانی گیان چند جین کے نام سے شائع ہونے والی کتاب ’’ایک بھاشا‘دو لکھاوٹ‘دو ادب‘‘ در اصل موصوف ہی کی’’ تصنیف ‘‘ ہے۔اس لئے کہ آنجہانی تو عرصہء دراز سے ایسے مرض میں مبتلا تھے کہ لکھنے اور بولنے سے بھی معذور ہو گئے تھے۔
سلطان جمیل نسیم( کناڈا۔حال مقیم کراچی)
جدید ادب ،جرمنی سے حیدر قریشی اور نذر خلیق کی ادارت میں شائع ہونے والاایک ممتاز رسالہ ہے۔اس کی دسویں اشاعت حال ہی میں دفتر انقلاب پہنچی ہے،جس میں مشہور شاعروادیب اکبر حمیدی کا گوشہ خصوصی مطالعے کی دعوت بنا ہوا ہے۔اس کے لکھنے والوں میں رشید امجد،منشا یاد،حیدر قریشی،شہزاد احمدسید ضمیر جعفری اور سلیم آغا قزلباش وغیرہ شامل ہیں۔جبکہ صاحبِ گوشہ کی غزلیں،انشائیہ اور ایک خاکہ بھی اس کی رونق بنا ہوا ہے۔عام مشمولات میں افسانے، غزلیں،نظمیں ،ماہیے،اور گوپی چند نارنگ کے حوالے سے بعض چیزیں نیز تبصرے جدید ادب کو دلچسپ بنانے میں اپنا کردار ادا کر رہے ہیں۔۔۔۔یہاں یہ بتا دینا ضروری ہے کہ جو اردو والے انٹر نیٹ سے جڑے ہوئے ہیں وہ جدید ادب کو (www.jadeedadab.com) آن لائن بھی پڑھ سکتے ہیں۔
(مطبوعہ روزنامہ انقلاب ممبئی۔ادب و ثقافت سیکشن۔مورخہ ۱۶دسمبر ۲۰۰۷ء)
’’جدید اداب‘‘ شمارہ نمبر ۱۰موصول ہوا ۔شکریہ۔
افسانہ’’کاٹنے والے ،جوڑنے والے‘‘ کی اشاعت کے لئے مزید شکریہ۔
سرورق نہایت دیدہ زیب اور معنی خیز ہے۔ تین سطری نظم(ماہیا) مزہ دے گئی مگر یہ پتہ نہیں چل سکا کہ یہ کس کی فکر کا نتیجہ ہے۔یقین اغلب ہے کہ یہ آپ ہی کے قلم سے نکلی ہو گی۔ ایک اچھی بات یہ لگی کہ آپ نے رسالے کی ابتداء ’’حمد و نعت‘‘ سے کی ہے۔کچھ نقادوں نے یہ بیکار کی بحث چھیڑ رکھی ہے کہ ’’حمد و نعت‘‘ کو ادب میں جگہ ملنی چاہیے یا نہیں۔میں سمجھتا ہوں کہ یہ اصناف اردو ادب کا اٹوٹ حصہ ہیں۔
قرۃالعین حیدر پر دونوں مضامین عمدہ ہیں۔بہتر ہوتا کہ آپ مرحومہ پر ایک گوشہ ترتیب دیتے۔بقیہ مضامین بھی لائق مطالعہ ہیں۔
گوشہ ء اکبر حمیدی پڑھ کر میں ایک رنگا رنگ شخصیت سے متعارف اور متاثر ہوا۔اس شمارے کی غزلیں دیکھ کر غالب کی بات یاد آ گئی کہ آم کی خوبی یہ ہے کہ میٹھے ہوں اور بہت ہوں۔سو پیش نظر شمارے میں بھی غزلیں سب کی سب اچھی ہیں اور بہت ہیں۔ کس کس کا نام لیا جائے،ہر شاعر خوب سے خوب تر ہے۔چند اشعار خاص طور پر پسند آئے۔مثلاً
بغیر اس کے نہیں آئے گا اس میں لطف کوئی حقیقت کو بھی کچھ رنگ فسانہ چاہئے ہی
کس طرح مایوس ہو کر لوٹ جاؤں سامنے جو عالم امکان ہو (اکبر حمیدی)
صبح تک ختم ہو ہی جائے گا زندگی رات بھر کا قصہ ہے(صبا اکبر آبادی)
پڑاؤ کرتے چلے راہ میں تو چلنا کیا سفر ہی کیا ہے اگر ہفت خوان پڑتا نہیں(مظفر حنفی)
ابھی ہے رات باقی وحشتوں کی ابھی جاؤگے گھر تو ڈر لگے گا(عبداللہ جاوید)
راس آتی نہیں کسی کو بھی آجکل دوستی عجیب سی ہے(تاجدار عادل)
نقطہء علم کے سمجھنے کو دل سا لائے کوئی دماغ کہیں
عمر کی نا پائیداری کا بھی کچھ تو سوچتے وصل کی تاریخ کو اگلے برس کرتے ہوئے(حیدر قریشی)
مسکنے لگی ہے یہاں اور وہاں سئے چادر یاد کوئی کہاں
عیاریاں بنا کسی کوشش کے آ گئیں آخر کو شہرزادوں کی صحبت میں ہم بھی تھے(شہناز نبی)
کم و بیش یہی حال نظموں کا ہے۔ن۔م۔راشد کی نظم تبرک کے طور پر پڑھی اور لطف اندوز ہوا۔
افسانے بھی عمدہ ہیں۔سلطان جمیل نسیم ،جیتندر بلواور سمیرا نقوی کے افسانے خاص طور پر پسند آئے۔
خصوصی مطالعہ کے تحت گوپی چند نارنگ کے سلسلے میں دو مضامین اور آپ کا ادارتی نوٹ دیکھا۔اسے دیکھ کر ایک ناول کا عنوان یاد آگیا․․․․․’’جنگ جاری ہے۔‘‘ویسے یہ چیز کسی ادب کے صحت مند ہونے کی علامت ہے۔اس سے جمہوریت کا احساس ہوتا ہے جہاں ہر شخص کو اپنی بات کہنے کی آزادی ہوتی ہے۔مطلق العنانی کسی بھی زبان کے ادب کے لئے پیام موت ہے۔خوشی ہوئی کہ آپ کا رسالہ صحت مند ادب کو پیش کر رہا ہے۔ایک چیز اور پسند آئی اور وہ یہ کہ بیچ بیچ میں باکس بنا کر اہم اقتباسات دئیے گئے ہیں۔
اقبال حسن آزاد(مونگیر،بہار)
تازہ شمارہ ابھی موصول نہیں ہوا۔ لیکن انٹر نیٹ پر مکمل تو نہیں کچھ حصہ پڑھ چکا ہوں۔ آپ نے ادارئیے میں ڈاک خرچ کے حوالے سے اہم مسئلہ اٹھا یا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ پاکستان اور ہندوستان سے شائع ہونے والے ادبی میگزین یہا ں پر بہت کم دستیاب ہیں۔ خاص طورپر پاکستان میں شائع ہونے والے پرچوں سے رابطہ نہ ہونے کے برابر ہے۔ اس کا نقصان یہ ہوا ہے کہ پاکستان کا دانشور طبقہ’’ اردو کی نئی بستیوں ‘‘کے مکینوں سے صحیح طور پر آگاہی سے محروم ہے۔ اس بات کی گواہی میں عمران شاہد بھنڈر صاحب کا مضمو ن ’’گوپی چند نارنگ مترجم ہیں مصنف نہیں‘‘ جدید ادب کے گزشتہ شمارے میں شائع ہوکر پڑھنے والوں کے لئے حیرت کا سبب بن چکا ہے۔ شمارہ دس میں ان کے تازہ مضمون ’’اردو ادب میں سرقہ اور اس کا دفاع کب تک‘‘ سے یہ احساس اور بھی گہرا ہوتا جارہا ہے کہ’ نئی بستیوں‘ کو حقارت سے دیکھنے والے خود کن سرگرمیوں میں ملوث ہیں۔(آپ نے نئی بستیوں کے حوالے سے جن بے تکے شاعروں کا ذکر کیاہے۔میں انہیں بے تکے بھی نہیں کہتا۔ میرے نزدیک شاعر اور غیر شاعر میں فرق ہے۔ غیر شاعر جو شاعر بننے کی کوشش کرتے ہیں، میں انہیں شمار ہی نہیں کرتا۔ میں نے نئی بستیوں کے جن شعراء کا ذکر کیا ہے۔ ان میں اچھے لکھنے والوں کی وہ تعداد ہے۔ جو ہجرت کے عمل سے گزرنے کے بعد یہاں پر کافی دیر سے مقیم ہے۔ لیکن پاکستان اور ہندوستان کے ادبی رسالوں میں شائع نہ ہونے کی وجہ سے ان کے نام انڈو پاکستان کے لکھنے والوں سے اوجھل ہیں۔ اور جب کبھی ان کا نام اردو کے حلقوں میں سنا جاتا ہے۔ تو کچھ احباب انہیں بھی شک کی نگاہ سے دیکھتے ہیں۔ یہ بالکل ایسا ہی ہے ۔ جیسے پاکستان اور ہندوستان سے آنے والے بہت سے نمبر دو قسم کے شاعر اور کالمسٹ یہاں پر آ کر ادبی تنظیموں کو بیوقوف بنانے میں کامیاب ہوجاتے ہیں۔ اور اپنی مہمان نوازی کا لطف لیتے ہیں۔ )
موجودہ شمارے میں اسی حوالے سے خصوصی مطالعہ کے حصے میں جاوید حیدر جوئیہ صا حب کاردعمل شائع ہوا ہے،جس میں صرف سوالات اٹھائے گئے ہیں اور اپنے خط کے آخر میں انہوں نے خود ہی تسلیم بھی کر لیا ہے کہ ’’ گوپی چند نارنگ صاحب پر بھی رہ رہ کر غصہ آتا رہا کہ وہ جلدی میں کچھ ’’اصل‘‘ ماخذات کا حوالہ کیوں نہیں دیتے رہے۔‘‘ آپ نے اپنے ’ادارتی نوٹ‘ میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کی’ شان استغناء‘ والی بات بھی خوب کہی۔ اس سے کہیں ایسا نہ ہو کہ وہ ’شان استغناء‘ کی اوٹ میں اپنی کمزوری کو ساری عمر چھپاتے رہیں۔اور ان اہم حقائق کے انکشاف کے بعد بھی کہیں خود کو اسی سراب نما ’شانِ استغناء‘ کے احساس سے تحفظ نہ فراہم کرتے رہیں۔
مضامین کے حصے میں شہزاد احمد کے خطبہء صدارت کی بہت سی باتیں دلچسپ ہیں۔ انہوں نے اردو کے شعراء کو دنیا کے تمام علوم سے استفادہ کرنے کا مشورہ دیا ہے۔ علوم سے استفادے کی حیثیت مسلم ہے۔انہوں نے ساتھ ہی یہ بھی کہا ہے کہ شاعری سائنس سے قربت کی وجہ سے فلسفے سے دور ہوتی جارہی ہے۔ تاہم یہ واضح نہیں ہوا کہ اس وقت شہزاد صاحب کے مخا طب طبقہء اردو کے شعراء تھے یا وہ مغرب سے مخاطب ہیں ۔اگر ان کا مخاطب اردو دنیا کے شعراء ہیں تو اس کا مطلب یہ ہے کہ اردو شعراء سائنسی علوم پر دسترس رکھتے ہیں۔ دسترس رکھنے کا مطلب یہ ہواکہ استفادے کا آغاز شہزاد صاحب کے مشورے سے قبل ہی ہوچکا ہے۔ جہاں تک مغربی شاعری کا تعلق ہے تو اس میں شاعری کے حوالے سے فلسفہ اور سائنس سے قربت یا دوری کی نوعیت شاید مختلف ہو ۔بیسویں صدی میں ہی دیکھیں کہ مغربی شعراء(ایلیٹ، پاؤنڈ اور ڈبلیو بی یٹس وغیرہ) کی شاعری علوم پر دسترس کے علاوہ سماجی تشکیل بھی تھی۔اردو میں بھی اگر صرف اقبال کی مثال دے کر بات ختم کردی جائے تو اس سے اردو شاعری کا احاطہ نہیں ہوتا ۔ البتہ ان کے خطبہء صدارت کو اس حوالے سے دیکھا جا سکتا ہے کہ’’ کہے ہوئے اشعار تھوڑے بہت رد عمل کے ساتھ کہتے چلے جانا آخر کب تک؟ اس وقت دنیا میں نئے موضوعات اس قدر زیادہ ہیں کہ ذرا سی جستجو سے آپ کو اندازہ ہوجائے گا کہ آپ حیران ہونے کے علاوہ اور کچھ نہیں کر سکتے مگر یہی حیرانی تو شاعری اور شاید یہی زندگی ہے۔‘‘تو کیا یہ حیرانی علوم کا نتیجہ ہے یا علم بذاتِ خود حیرانی کی پیداوار ہے؟
اس کے علاوہ ’جدید ادب‘ میں غزلوں اور نظموں کا معیار اچھا ہے۔ شاعری میں بقول شہزاد معلوم سے نا معلوم کا سفر تو نہیں ہوا۔معلوم سے نا معلوم کا سفر ’مادی ‘اور ’مثالی ‘دونوں حوالوں سے اہم کہا جاسکتا ہے۔ہم نے فیصلہ کرنا ہے کہ سماج کو اس کی لازمیت میں دیکھنا ہے، یا ماورائیت میں۔ اس وقت اس بحث میں نہ الجھتے ہوئے میں یہ کہنا چاہوں گاکہ ’جدید ادب‘ میں چند اشعار پسند آئے ہیں۔
مظفر حنفی: ہم احتجاج کسی رنگ میں نہیں کرتے ہمارے خون سے کوئی نشان پڑتا نہیں
مظفرؔاب یہی دنیا ہمیں نا بود کردے گی یہ پیمانہ لبا لب تھا کبھی،معمور تھا ہم سے
خورشید اقبال: خورشیدؔآگ آپ ہی لگتی نہیں کبھی تم نے ہی احتیاط نہ کی،آگ لگ گئی
حسن عباس رضا : نہ ہم سے حوصلہء خود کشی کہ مر جائیں نہ ہم سے قفل در پاسبان ٹوٹتا ہی
میں وجہء ترک تعلق بتا تو دوں لیکن اس انکشاف سے اک خاندان ٹوٹتا ہے
حید ر قریشی: فون سے بھی اس کے ہونٹوں کا اثر آیا سدا گھولتا ہے کان میں لفظوں کو رس کرتے ہوئی
شبانہ یوسف کی دونوں غزلیں عمدہ ہیں اور غزلوں میں نمایا ں ہیں۔حصہء نظم میں ن۔م۔راشد تو ایک بہت اہم نام ہے۔ ان کے علاوہ ستیہ پال آنند، خلیق الرحمان، پرویز مظفر، سید تحسین گیلانی اور شبانہ یوسف کی نظمیں متاثر کرتی ہیں۔جمیل الرحمن کی پانچوں نظمیں اچھی ہیں۔انٹر نیٹ ایڈیشن پر ابھی افسانوی حصہ نہیں پڑھ سکا ، ورنہ اس پر بھی اپنی رائے سے آگاہ کرتا۔ اس جاں کنی کے دور میں آپ جس طرح ادب کی خدمت کر رہے ہیں،وہ قابل ستا ئش ہے۔ اور اردو کی ’نئی بستیوں ‘میں جدیدادب کا حصہ قابلِ قدر ہے۔اگر ’جدید ادب‘ میں آزادی اظہار کی قدر افزائی کا سلسلہ جاری رہا تو یقیناََ ان مباحث سے ہونے والے علوم کے ارتقاء میں ’جدید ادب ‘ ’نئی بستیوں ‘کا حقیقی ترجمان بن کر ابھرے گا۔ اقبال نوید (برطانیہ)
کمال پاشا صاحب کو فون کرکے دہلی سے جدید ادب کا شمارہ نمبر ۹اور ۱۰حاصل کر چکا ہوں۔رسالے کا اعلیٰ معیار آپ کی سلجھی ہوئی صحافت و ادب دوستی کا مظہر ہے۔سات سمندر پار سے اردو کا اتنا خوبصورت نکالنے پر میری جانب سے مبارکباد قبول فرمائیں۔ منظور ندیم(ماجلگاؤں)
مرنجاں مرنج اور دھان پان سی شخصیت کے حامل اکبر حمیدی حقیقتاََ ایک بلند پایہ اور معتبر فنکار ہیں جنہیں نظم و نثر دونوں پر یکساں قدرت حاصل ہے۔ان پر گوشہ کافی وسیع ہے۔چودہ اربابِ علم و دانش اور مشاہیر اہل قلم نے ان کی شخصیت اور فن کو بڑی دلجمعی اور خوش اسلوبی سے اجاگر کیا ہے جس سے ان کے فن کو باریک بینی کے ساتھ سمجھنے کے امکانات روشن ہو گئے ہیں۔مضامین کے حصہ میں شامل شہزاد احمد،ڈاکٹر ستیہ پال آنند،ڈاکٹر خلیق انجم، عبدالرب استاداور ڈاکٹر حامد اشرف نے اپنے اپنے موضوعات کے ساتھ انصاف کیا ہے۔خصوصی مطالعہ میں حیدر قریشی کا ادارت نوٹ اور عمران شاہد بھنڈر کی تحریر بھی اپنی سچائی کے سبب دعوتِ فکر دیتی ہے۔افسانے کے گوشے میں ویسے تو آٹھوں افسانے اپنی اپنی جگہ خوب ہیں لیکن انفرادی طور پر سلطان جمیل نسیم،جیتندر بلو،اقبال حسن آزاد،جان عالم اور شفیق انجم کے افسانوں نے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا۔ستیہ پال آنند،شاہد ماہلی،خورشید اقبال،پروین شیر،پرویز مظفر،جمیل الرحمن اور شبانہ یوسف کی نظمیں معنوی اور فنی طور پر قابلِ داد ہیں۔جہاں تک غزلوں کا تعلق ہے ،ایک سے بڑھ کر ایک غزل ہے۔پھر بھی جن شعراء نے مجھے کچھ زیادہ ہی متاثر کیا ان کے نام اس طرح ہیں:صبا اکبر آبادی،اکبر حمیدی،مظفر حنفی،خورشید اقبال،عبداللہ جاوید،تاجدار عادل،حسن عباس رضا،مقبول احمد مقبول،سہیل احمد صدیقی،ناصر نظامی،حیدر قریشی،شہپر رسول،شاہد ماہلی،شہناز نبی،شبانہ یوسف،نذیر فتح پوری اور خاور اعجاز۔۔۔امین خیال،فراز حامدی،اظہار وارثی،اور فاروق شکیل کے ماہیے بھی دلپذیر اور معتبر ہیں۔ رفیق شاہین(علی گڑھ)
رسالہ ’’جدیدادب‘‘ کبھی جنوبی پنجاب کے مردم خیز اور ادب ریزشہر خان پور سے چھپتا تھا ۔ اس وقت بھی اس کے مدیر حیدر قریشی ہی تھے، جو شاعری، افسانہ ، انشائیہ ، ادبی ادارت کسی شعبے میں کراچی، لاہور، اسلام آباد اور پشاور و ملتان کے کسی ادیب سے کم نہ تھے۔ انہوں نے اس چھوٹے سے شہر سے ادب کا ایک نمائندہ رسالہ اس طرح شائع کیا کہ خان پور کو ادبی مرکز کی حیثیت حاصل ہو گئی، ادب کی پیشکش کے متعدد تجربے نوع بہ نوع انداز میں ’’جدید ادب‘‘ نے کیے اور اردو دنیا کے بے شمار بڑے ادیبوں کا تعاون حاصل کر لیا۔ میرا خیال ہے کہ حیدر قریشی نے خان پور کو یونہی نہیں چھوڑا اور یہ پاؤں میں چکر والی بات بھی شاید نہیں تھی۔ ان کے سرمیں تو فروغِ اردو کا سودا سمایا ہوا تھا۔ اچانک ان پر پنجابی کی صنف سخن ’’ماہیا‘‘ کے اسرار کھلنے شروع ہوئے۔ اور پھر انہوں نے پنجاب کی سر زمین عشق کے دو متوالوں کی شاعری کی زبان میں ہونے والے اس بامعنی اور بالواسطہ مکالمے کو زندگی کے تمام موضوعات پر پھیلانے اور اس کی مقامیت کو لا مقامیت میں بدلنے کے لیے ’’ماہیا‘‘ کو اردو ادب میں وسیع پیمانے پر متعارف کرانے کا بیڑہ اٹھا لیا۔’’ماہیا‘‘ کی پھوار کو پوری دنیا پر برسانے کے لیے بھی حیدر قریشی نے ’خان پور ‘‘ کو محدود پایاا ور جرمنی کو اپنا نیا مرکز بنایا جہاں اردو کی ایک ویب سائٹ قائم کی ،’’جدید ادب‘‘جاری کیا، گویا اردو ادب کی آواز پوری دنیا میں پھیلا دی۔ پاکستان سے ان کے معاون ڈاکٹر نذر خلیق صاحب ہیں۔ مجلس مشاورت میں ہندوستان کی راج دھانی میں اردو کا سکہ چلانے والے چوگندر پال اور شاہد ماہلی اور پاکستان سے ڈاکٹر خواجہ محمد زکریا اور ڈاکٹر شفیق احمد ہیں۔ اب ’’جدید ادب‘‘ رسالہ کی صورت میں چھپا ہوا بھی دستیاب ہے۔ اور www.jadeedadab.comپر بھی آپ پڑھ سکتے ہیں۔ یہاں ذکر اس بات کا بھی ضروری ہے کہ ’’جدید ادب‘‘ کا دسواں شمارہ جو جنوری تا جون 2008 ء کی اشاعت ان کے معینہ وقت سے بھی پہلے منظر عام پر آگیا ہے۔ اب ہندوستان اور پاکستان کے ادبی حلقوں میں اس کے مندرجات پر گفتگو ہو رہی ہے اور بحث و مباحثہ کا صحت مند سلسلہ جاری ہے۔ اس کے متعدد مضامین بالخصوص عمران شاہد بھنڈر کا مقالہ چونکا دیتا ہے؟ لیکن یہ انقاض کا باعث بھی بن سکتا ہے؟۔۔۔
زیاں ہے عشق میں ہم خود بھی جانتے ہیں مگر
معاملہ ہی کیا ہوا گر زیاں کے لیے؟
بات کو مختصر کر تے ہوئے یہ کہنا مناسب ہے کہ ادبی رسالے کی اشاعت تمام تر مالی زیاں ہے لیکن یہ عشق کا معاملہ بھی ہے جس کی مسرتیں حساب کتاب میں نہیں لائی جا سکتیں ۔ ادب کی اشاعت ایک مشن ہے جو قوم کی تہذیبی ترقی میں معاونت کرتا ہے اور اس میں مبتلا لوگ خان پور میں ہوں یا ہاٹرس ہائم (جرمنی) میں اپنے قومی ادب کی آبیاری سے اور ادب کی اشاعت سے گریز نہیں کرتے ، مالی نقصان کی پرواہ نہیں کرتے۔اس زاویے سے حیدر قریشی مبارک باد کے مستحق ہیں کہ وہ جرمنی سے ’’جدید ادب‘‘ شائع کر رہے ہیں جو اردو کی پرنی اور نئی بستیوں میں پرانے چراغوں کی لویں بلند کر رہا ہے اور نئے چراغوں کو روشن کرنے کے لیے اپنا خون جگر پیش کر رہا ہے۔
’’جدید ادب‘‘ کے دسویں شمارے میں سب سے اہم پاکستان کے دانشور جناب شہزاد احمد کا حلقہ ارباب ذوق لاہور کے سالانہ اجلاس میں پڑھا گیا خطبہ ہے جس میں فوری طور پر سمجھ میں آجانے والی شاعری کو نیوٹن کی سائنسی دریافت (کشش ثقل) کی مثال سے دی گئی ہے جس پر نیوٹن کے مداحوں نے کہا تھا کہ ’’نیوٹن ظاہر ہوا ور روشنی ہو گئی‘‘۔۔یہ روشنی ہمارے لیے بہت کار آمد ہے لیکن سائنس اس سے آگے ڈاکٹر عبدالسلام کے دور میں داخل ہو گئی ہے جو پیچیدہ ہے اور آئن سٹائن سے بھی آگے لے جاتی ہے۔ شہزاد احمد نے شاعری کی اس بحث میں زمان و مکان کا مسئلہ بھی اٹھایا ہے اور نئے لکھنے والوں کو یہ قیمتی مشورہ دیا ہے کہ:۔
’’اپنی شاعری کو صرف معلوم تک محدود نہ رکھیں بلکہ کچھ نہ کچھ سفر غیر معلوم کی طرف بھی کریں کیونکہ انسانی متخیلہ اس سے جلا پاتی ہے۔‘‘
شہزاد احمد کا یہ مقالہ کثیر المعانی ہے اور اس پر بحث آگے چلنی چاہیے۔ حیدر قریشی صاحب نے پاکستان سے اٹھے ہوئے شہزاد احمد کے سوال کو عالمی سطح پر ابھارا ہے۔ میں یہاں ’’جدیدادب‘‘ میں گوشۂ اکبر حمیدی کا حوالہ دینابھی ضروری سمجھتا ہوں۔اکبر حمیدی پاکستان کے کثیر الجہت ادیب ہیں۔ انہوں نے ادب کا آغاز غزل کی شاعری سے کیا۔پھر نثر نگاری کی طرف آ گئے اور انشائیے لکھنے لگے، خاکہ نگاری میں نام پیدا کیا۔ اپنی خود ساختہ زندگی کی داستان خود نوشت سوانح عمری ’’جست بھری زندگی‘‘میں رقم کی۔ ان کے فن کی تحسین کرنے والوں میں سیّد ضمیر جعفری، شہزاد احمد، ڈاکٹر رشید امجد، منشا یاد، ڈاکٹر سلیم آغا قزلباش ، ڈاکٹر نذر خلیق، حیدر قریشی ، جاوید حیدر جوئیہ، محمود احمد قاضی اور محمد زبیر ٹیپو شامل ہیں۔حیدر قریشی نے ان کے فن کی خوشبو اردو کی تمام بستیوں میں پھیلا دی ہے اور یہ بات بھی واضح رہے کہ حیدر قریشی نے اکبر حمیدی پر یہ گوشہ ان کی تدریسی ملازمت سے ریٹائرمنٹ کے بعد اس وقت شائع کیا ہے جب ان کی عمر کے متعدد ادبائے کرام تحسین سخن شناس سے محرومی کا شکار ہیں۔ چونکا دینے اور حیرت زدہ کر دینے والا گوشہ نارنگ صاحب پر ہے۔ عمران بھنڈر صاحب اس گوشے کے اہم ترین قلم کار ہیں۔
لیجئے میرے کالم کا ورق تمام ہواور ’’ادب جدید‘‘ کا ذکر باقی ہے۔ میں آپ سے یہ رسالہ پڑھنے کی درخواست کرتا ہوں لیکن اس پر قیمت درج نہیں شاید گلزار جاوید کے رسالہ ’’چہار سو‘ کی طرح ’’جدید ادب‘‘ بھی سرمۂ مفت نظر ہے۔ ڈاکٹر انور سدید (لاہور)
’جدید ادب‘‘ کا تازہ شمارہ موصول ہا ۔ تازہ شمارہ صوری ار معنوی اعتبار سے پُرکشش ہے۔ مجھے امید ہے ’’جدید ادب‘‘اب باقاعدگی سے شائع ہوتا رہے گا۔ تازہ شمارہ میں شامل تخلیقات قابلِ مطالعہ ہیں۔اکبر حمیدی صاحب پر گوشہ شائع کر کے آپ نے ایک قبل قدر کام کیا ہے۔ سینئر قلم کاروں کے فکر وفن کے بارے میں نوجوان نسل کو آگاہ کرنے کے لیے اس سے بہتر اور کوئی دوسرا موثر ذریعہ نہیں ہو سکتا۔ مجھے امید ہے کہ آپ اس سلسلہ کے ذریعے سینئر قلم کاروں کے فکر وفن کو اجاگر کرتے رہیں گے۔
حیدر قریشی صاحب کو میرا سلام پہنچا دیجیے گا۔ امیدہے آپ بخیرو عافیت ہوں گے۔
سلیم آغا قزلباش(سرگودھا)
آپ نے اداریہ میں ملک سے باہر ڈاک بھیجنے کی مہنگی قیمتوں پر بہت مضبوط معاملہ پیش کیا ہے۔لیکن ان الفاظ کو طاقت تب ملے گی جب ہم پاکستان میں موجود متاثر لوگ ایک انگیخت و تحریک کے ساتھ عملی قدم اُٹھائیں گے۔۔۔۔شہزاد احمد کا مضمون خطبۂ صدارت اچھا ہے لیکن ادب میں سائنسی مضامین میں عمومیائے جملوں،اشاروں کے ساتھ پُر تفصیل اور واضح معنی تشریحی اظہار ہونا چاہیے۔خلیق انجم کے مضمون ’’صبا اکبر آبادی کی غزل‘‘میں میں نے ایک خاص بات نوٹ کی ہے۔وہ یہ کہ خلیق انجم صاحب کو اُن تمام نتیجوں،دعووں اور تاثروں کے لیے جو انہوں نے صبا صاحب کے کلام کے بارے میں لکھے ہیں،ویسے ہی ہم پلہ اور زیادہ وزن دار(وقیع تر)اشعار صبا صاحب کے دواوین میں سے لینے چاہئیں تھے۔
غزلوں میں مجھے تاجدار عادل،عظیم انصاری،شبانہ یوسف،غزل رضوی،ناصر نظامی،اور حیدر قریشی کی غزلیں پسند آئیں۔مٹھی بھر غزلوں میں شہناز نبی کی غزل (جلدی میں کچھ۔۔۔)پسند آئی۔نظموں میں سب سے اچھی تو اقبال نوید کی دو نظمیں’تاریخ کا چہرہ نہیں بدلا‘اور’شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں‘لگیں۔واہ! کیا نظمیں ہیں۔اس کے علاوہ ستیہ پال آنند،شاہد ماہلی،فرحت نواز،عبداللہ جاوید،خورشید اقبال اور ارشد خالد کی نظمیں اچھی لگیں۔پروین شیر کی نظمDisposeableکا موضوع زندگی پر گہرا Reflection نہیں بنتا۔ماہیوں میں امین خیال کے دو ماہیے(آواز وہ سنتا ہوں کیا درد کا لہرا ہے)بہت اچھے لگے۔فراز حامدی کا ماہیا گیت اور رفیق شاہین کی ماہیا نظم(پھر ٹوٹ گئے سپنے)،اظہار وارثی کے ماہیے،اور کچھ انجم اعظمی اور اکمل شاکر کے ماہیے بھی اچھے لگے۔
خصوصی مطالعہ میں عمران شاہد بھنڈرنے جو نقاب کشائی کی ہے ،وہ اگر ایسے ہی سچ ہے (میں نے صرف یہی شمارہ پڑھا ہے)تواُردو ادب والوں کو رنج منانا چاہیے اور پورا ایکشن لینا چاہیے۔ورنہ ہم عصر اردو ادب عالمی تناظر میں ایک جھوٹی اور چھوٹی چیز بن کر رہ جائے گا۔یہ بہت افسوس اور شرم کی بات ہے۔
کاوش عباسی(کراچی)
نوٹ از ادارہ: عباسی صاحب! ہماری اردو کی ادبی دنیا مفادات کی اسیر اور مصلحتوں کا شکار ہے۔آپ حق گوئی کے باوجود اپنے خط میں عمران شاہد بھنڈر کے مقالہ کا ذکر تو کر رہے ہیں،لیکن سرقہ کا کھلا ارتکاب کرنے والے گوپی چند نارنگ صاحب کا نام لکھنے سے احتیاط کر رہے ہیں۔جب نارنگ صاحب سے کسی نوعیت کا مفاد وابستہ نہ ہونے کے باوجود آپ کی احتیاط کا یہ عالم ہے تو جن لوگوں کے مفادات نارنگ صاحب سے وابستہ رہے ہیں،ان سے آپ کیسے حق گوئی کی توقع کر سکتے ہیں۔کوئی بین الاقوامی ادیب بننے کے لیے کسی کانفرنس یا سیمینارکی دعوتوں کا بندھا ہوا ہے(بعض تو دعوت نامہ ملنے کی آس سے بھی بندھے ہوئے ہیں)تو کسی کو ایوارڈز کا لالچ ہے۔کسی کی کتاب چھپوائی جارہی ہے توکوئی اشتہارات کا ضرورت مند ہے،ہر کوئی کسی نہ کسی غرض ، لالچ اور مفاد کا شکار ہے،مصلحت کا اسیر ہے۔صاحب! کہاں کی اردو ادب کی بین الاقوامیت اور کہاں کا اردو کا عالمی تناظر!گوپی چند نارنگ کے عبرتناک سرقے ہی ہماری علمی و ادبی شناخت ہیں۔ہم یہی کچھ ہیں۔(ح۔ق)