فراز حامدی(جے پور)
ماہیا گیت
جب یادِ وطن آئی
یاد بہت آئے
ہمسائے،بہن،بھائی
جب یادِ وطن آئی
جب چھیڑ کے شہنائی
کوئی غزل گائی
کیوں لَے مِری بھر آئی
جب یادِ وطن آئی
لی درد نے انگڑائی
کر گئی تنہائی
لذت کا شناسائی
جب یادِ وطن آئی
احساس کی پہنائی
اور بھی گہرائی
یوں دل نے سزا پائی
جب یادِ وطن آئی
بے کار نظر آئی
دل کو نہیں بھائی
پردیس کی دارائی
جب یادِ وطن آئی
ماہیا نظم :
پھر ٹوٹ
کیا خوب نظارا تھا
کوئی تھا پہلو میں
اور بہتا شکارا تھا
خوشبو تھی فضاؤں میں
چھیڑے ہوئے دل کے
نغمے تھے فضاؤں میں
لہرا کے حسیں آنچل
خوشبو کے لہجے میں
کہتا تھا کہیں لے چل
ترسی ہوئی تنہائی
گلمرگ میں آخر
دو پیاسوں کو راس آئی
طوفان بنے دھارے
لَو دیتے تن میں
جلتے ہوئے انگارے