امین خیال
کوئی بھی کام کروں
رب رحمن ہے جو
نام اس کا ہی پہلے لوں
تو الف ہے،میم ہے تو
لا میں ا الّا میں
پوشیدہ تری خوشبو
کر اللہ ہو سائیں
بن کر دیکھ اس کا
ہے تو ہی تو سائیں
مندری میں ہو نگ جیسے
خود سے مجھ کوتم
کر لو گے الگ کیسے
پانی کی گاگر ہے
میں اک قطرہ ہوں
تو پیار کا ساگر ہے
کیا خوب وہ ہستی ہے
حسن پرستی بھی
توحید پرستی ہے
کشف المحجوب ہے تو
مجھ پر ظاہر ہو
میر ا محبوب ہے تو
ہے سب کچھ توں ماہیا
تو جو مجھ میں ہے
میں تجھ میں ہوں ماہیا
حیراں ہر بندہ ہے
رب اور یہ دنیا
اک گورکھ دھندہ ہے
جیسے بند مٹھی ہے
سلجھ سکے نہ جو
تو ایسی گتھی ہے
بے چین یہ پل پل ہے
کُل سے جدا ہوکے
جز اب تک بے کل ہے
ہر جا تیری ہو ہے
جگ کی ہر شے میں
بس اک تو ہی تو ہے
تانبے کا پیسا ہے
ازل سے ابد تلک
ویسے کا ویسا ہے
دل میں تو سماتا ہے
دیکھوں جس جا بھی
تو ہی نظر آتا ہے
کثرت کو، وحدت کو
پا نہ سکا کوئی
اک تیری حقیقت کو
میں آنکھ تو نور مِرا
ہر جا تو ہی تو
مجھ سے ہے ظہور ترا
کیوں قسمت سو گئی ہے
رب جی معاف کرو
جو غلطی ہو گئی ہے
فرضوں کی ادا کا ہے
مانگ لے جب چاہے
ہر وقت دعا کا ہے
بے کار یہ بلوے ہیں
مسجد ،مندر کیا
ہر جا ترے جلوے ہیں
اقراری کُن کے ہیں
مہرو ماہ و نجم
سب نوکر اُن کے ہیں
دے ٹال بلا سائیں
سب کی خیر رہے
ہو سب کا بھلا سائیں
نگری نگری ، ہُو ہُو
کون جگہ ہے وہ
جس جا پہ نہیں ہے تو
میری جند جان ہے وہ
عین الحق ہے وہ
میر ا ایمان ہے وہ
مٹی تو نمانی ہے
آپ ہی آگ ،ہوا
اور آپ ہی پانی ہے
لولاک لما وہ ہیں
علت غائی ہیں
جگ کا مبدا وہ ہیں
نہ کون و مکاں ہوتا
آپؐ نہ ہوتے تو
سنسار کہاں ہوتا
یہ جگت جو دھارن ہے
کملی والےؐ یہ
سب تیرے کارن ہے
زمنوں کی ، زمانوں کی
علت غائی ہیں
وہ دونوں جہانوں کی
جن کا نہ سایہ ہے
سب جگ ان کے ہی
سائے میں آیا ہے
سن میری صدا شاہا
کون سنے دل کی
بن تیرے سوا شاہا
حق اللہ ہُو ماہیا
بڑھ کر دنیا سے
ہے مجھ کو تو ماہیا
کر فرض ادا ماہیا
’میں‘ کو مُنج کر دے
لَو رب سے لگا ماہیا
دیوار میں باری ہے
کیسا پردہ ہے
کیا ظاہر داری ہے
مسجد کہ دَیر رہے
سب کا بھلا ہووے
اور سب کی خیر رہے
کیوں ڈور یہ اڑ گئی ہے
تیرے وظیفے کی
بس عادت پڑ گئی ہے
بچپن سے یہ عادت ہے
اُس کی نماز پڑھوں
جس کی یہ عبادت ہے
اک دل کش سین دِکھے
زندگی اپنی جگہ
موت اس سے حسین دِکھے
اک راہی بھٹکا ہوں
عرش نشیں ہو کر
آ خاک پہ اٹکا ہوں
اک فیض تو جاری ہے
غم یا خوشی بخشو
یہ مرضی تمہاری ہے
مطلب سمجھانا تھا
میں نے کہا کچھ تھا
اُس نے کچھ جانا تھا
کیا تو نے کہا پیارے
سسکیاں لیتے ہوئے
گزری ہے صبا پیارے
کوئی بھی آس نہیں
یار کی ڈھارس تھی
اب وہ بھی پاس نہیں
آواز وہ سنتا ہوں
اپنی ہی چوٹی سے
آواز جو دیتا ہوں
کب روشنی پھوٹے گی
دیس کی چوروں سے
کب جان یہ چھوٹے گی
بھر لے کوئی جام ایسا
نام ہو دنیا میں
کرلے کوئی کام ایسا
قندیل جلاتے ہیں
ہمت جو کر لیں
وہ مقصد پاتے ہیں
مت دیکھ ضرورت کو
مہر کی بارش سے
دھو ڈال کدورت کو
کالک ہے منڈیروں پر
مہر نہیں نکلا
کیا بیتی سویروں پر
مہکے ہوئے سہرے سے
پھوٹ پڑیں کرنیں
اس روشن چہرے سے
تو ایک ہے لاکھوں میں
دیکھ کے تجھ کو دئیے
جل اُٹھتے ہیں آنکھوں میں
در دل کے کھولے ہیں
برسوں کے روٹھے
کچھ ہنس کر بولے ہیں
کیا درد کا لہرا ہے
سات سمندر سے
بڑھ کر دل گہرا ہے
تجھ سے ہے عجب ناتا
تجھ بِن دل میرا
اب چین نہیں پاتا
ٹیس اب تک جاری ہے
ایڑیوں پہ چلتے
اک عمر گزاری ہے
اک بار تو مل ماہیا
جان وجگر تیرے
ہے تیرا یہ دل ماہیا
کیا جان کی قیمت ہے
پل بھر مل بیٹھیں
اتنا بھی غنیمت ہے
بس کچھ بھی نہ کہتا ہوں
چشمِ تصور سے
تجھے دیکھتا رہتا ہوں
دیدار رہیں تیرے
ہر پَل، ہر لمحے
تو پاس رہے میرے
دل بحر کو چھل* دی ہے
یار نے تو دل کی
دنیا ہی بدل دی ہے
دَم پیار کا بھرتے ہیں
پیار ہی کرتے تھے
ہم پیار ہی کرتے تھے
* پنجابی میں لہر کو چھل کہتے ہیں
عیبوں سے بچاتا ہے
مسلک کوئی ہو
کب بَیر سکھاتا ہے
پربت میں جھرنا ہے
جتنا بھی جی لیں
اک دن تو مرنا ہے
رُشنائے ہوئے رکھنا
سچ کی چاندی کو
چمکائے ہوئے رکھنا
اسٹال ہے ٹائیوں کا
دل سے نکال دے ڈر
یوسف سے بھائیوں کا
افکار پہ ہوتا ہے
اچھا ،برا ہونا
کردار پہ ہوتا ہے
آئی ٹی کا زمانہ ہے
ساری دنیا کو
دکھ ا پنا سنانا ہے
اعزاز نہیں ہوتا
چلنا سمندر پر
اعجاز نہیں ہوتا
کچھ خبر نہیں سائیں
اڑنا ہواؤں میں
یہ فقر نہیں سائیں
رستمؔ ہے، داراؔ ہے
نفسِ امارہ کو
جس نے بھی مارا ہے
ٹیس اٹھی ہے چھاتی میں
عیب کمائے ہیں
دو دن کی حیاتی میں
گھاٹے ہیں خسارے ہیں
جگ میں پنپنے کے
جو ڈھنگ ہمارے ہیں
سن گندے! کر توبہ
وقت بہت کم ہے
اے بندے! کر توبہ
اے یار نہیں ہوتا
ہر کوئی عظمت کا
مینار نہیں ہوتا
تقدیر نہیں بدلی
ڈھور ہی بدلا ہے
زنجیر نہیں بدلی
یہ زہر نہیں چکھتے
بغض کی بات کوئی
ہم دل میں نہیں رکھتے
اجلی پرچھائیوں کا
اہلِ محبت کو
ڈر کیا رُسوائیوں کا
تعبیروں جیسا ہو
خواب جو دیکھا ہے
سچ مچ میں ایسا ہو
سچ میرا بیاں ہو گا
مجھ سے کئی ہوں گے
تجھ جیسا کہاں ہوگا
آرام نہیں ملتا
قصۂ غم کا کہیں
انجام نہیں ملتا
جاں جائے کہ دل جائے
چاہتا ہوں جس کو
بس وہ مجھے مل جائے
ہیں فلک پہ دو تارے
بیٹھ کے پاس مرے
دکھ اپنے بتا سارے
جب سامنے آتے ہیں
جذبے آنکھوں میں
کئی رنگ بھر جاتے ہیں
ہے آج بھی وہ رغبت
پہلے ہی جیسی
ہے تجھ سے مری چاہت
منتی ہی نہیں آنکھیں
یار کے چہرے سے
ہٹتی ہی نہیں آنکھیں
مرجاتا ہوں جانے سے
پھر جی اُٹھتا ہوں
ساجن ترے آنے سے
سچائی یہ دائم ہے
کہتے ہیں ، دنیا
امید پہ قائم ہے
ہر اک کو سجھاتا ہے
دل میں کوئی بیٹھا
گھڑیال بجاتا ہے
جاؤں نہ بہک پیارے
رچ بس گئی مجھ میں
ہے تیری مہک پیارے
یہ پانی کھاری ہیں
اب توسب رشتے
احساس سے عاری ہیں
رٹّا ہوا کہتے ہیں
طوطے آخر کو
طوطے ہی رہتے ہیں