اقبال نوید (برطانیہ)
ایک بے کار آنسو کی
ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا
اوربارود کی دھڑکنوں کے سہارے جئے
خود کو نفرت کے چشموں سے سیراب کرتے رہے
ایک شعلہ بنے
تاکہ آرامگاہوں میں پلتے ہوئے
بے حسوں کی حفاظت رہے
خواب گاہوں میں پردے لٹکتے رہیں
رقص جاری رہے
تاکہ محلوں کے آقا کے دربار میں
ایک تالی سے سب کچھ بدلتا رہے
جتنے ایوان ہیں
دوسروں کے اشاروں کی تعظیم میں
سر ہلاتے رہیں
صورت گرے
ہم نے دل سے محبت کو رخصت کیا
ایک شعلہ بنے
تاکہ بیٹوں کے لاشے تڑپتے رہیں
بین کرتی ہوئی بیٹیوں سے پرے
اپنے کشکول ہاتھوں سے لکھے ہوئے
عہد ناموں کی تحریر پڑھتے رہیں
ہم سے بہتر تھے وہ
جن کے ٹکڑے ہوئے
جو جنازوں کی صورت اٹھائے گئے
ایک بیکار آنسو کی صورت گرے
ہم وہ تلوار تھے
جو عجائب گھروں کے لئے رہ گئی
ایسی بندوق تھے
جس کو مفلوج ہاتھوں میں سونپا گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
رُت بدلنے لگے
کتنی عمریں ترے راستے میں کٹیں
تیرے آنے کی امید دل میں لئے
جس نے جو بھی کہا
اس کو سچ جان کر
ہر صدا کے تعاقب میں چلتے رہے
ہر کسی عکس کو ہم مسیحا سمجھتے رہے
روشنی کی کرن ڈھونڈھتے ڈھونڈھتے
پاؤں چھالے ہوئے
تیرے رستوں میں ہاتھوں کے بینر لئے
تیری چاہت کے ہم گیت گاتے رہے
جو بھی آیا۔۔۔۔۔۔۔
اسے دیوتا جان کر
خشک ہونٹوں سے نعرے لگاتے رہے
آنکھ مایوس تھی
پر دل منتظر کو یہ امید تھی
ایک دن وہ زمیں پر اتر آئے گا
وہ مسیحا۔۔۔۔۔۔
کہ جس کے لئے لوگ ہر مرتبہ
اپنے خوابوں کی تعبیر لکھتے رہے
اپنے حالات کے کوہساروں سے لڑتے رہے
تیرے آنے سے پہلے یہاں کچھ نہ تھا
صرف امید کا ایک چشمہ۔۔۔۔۔
جسے دیکھ کر پیاس بڑھتی رہی
۔۔۔۔۔۔۔
لہلہاتے ہوئے کھیت بنجر ہوئے
آنگنوں سے چمکتی ہوئی دھوپ ڈھلنے لگی
لوگ بیمار آنکھوں سے تیرے لئے
راستوں میں محبت بچھاتے رہے
اب بھی امید ہے
تو کبھی خاک زادوں کی صف سے نکل آئے گا
تو جو آجائے
نغمے بکھرنے لگیں
رت بدلنے لگے۔۔۔۔۔۔پھول کھلنے لگیں
زخم مرہم بنیں
اب امید ہے
لوگ خوش ہیں مگر چوٹ ہی چوٹ ہیں
وہ بھلا کیا کہیں
وہ تو بس ووٹ ہیں!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
تاریخ کا چہرہ نہیں
زمیں قدموں کے نیچے رینگتے کیڑے مکو ڑوں کی
سسکتی زندگی کو موت میں تبدیل ہوتے دیکھتی ہے
اور خا مو شی سے اپنی گردش پیہم میں رہتی ہے
نگا ہیں راستوں میں نصب بارودی سرنگوں،
کٹ چکے جسموں، پھٹی آنکھوں،
ڈھلکتی گردنوں میں جھولتے پھندوں کی شاہد ہیں
فضا نوحہ کناں گیتوں سے افسردہ
عزاداروں کی چیخیں آسمانوں سے الجھ کر لوٹ آتی ہیں
محافظ اور لٹیروں کی ابھی پہچان مشکل ہے
زمانہ امن کا پیغام لے کر تیل کے چشموں پہ بیٹھا ہے
کہ جب تک اونگھتی مخلوق غفلت کی مسلسل نیند سے بیدار ہو جائے
یہ استحصال ان کی آنکھ کو جھنجھوڑ کر رکھ دے
گلوبل جتنے منصوبے ابھی تکمیل کی سیڑھی پہ رکھے ہیں
وہ سب انجام دینے ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
بدلا
ابھی تاریخ کا چہرہ نہیں بدلا
کبھی تاجر مہذب بھیس میں آتا ہے ،
صدیوں تک نہیں جاتا
کہیں خوش حالیاں وحشی درندے کھینچ لاتی ہیں
کبھی قرضوں کی زنجیروں سے فصلیں سوکھ جاتی ہیں
ضرورت جب تلک باقی ہے ۔۔۔۔
محتاجی بھی باقی ہے
وسائل کا خزا نہ ، ناتواں قوموں کا ایساجرم ہے
جس کی سزا طاقت کی مستی میں فقط لشکر کشی ہے
اور دنیا کے بڑوں کی گود میں بیچارگی ہے
جو اگر چاہیں کسی کو بھی ہلاکت خیزیوں کی نذر کر ڈالیں
جو اپنے فیصلوں سے پستیاں تقسیم کرتے ہیں
کہ جن کی روشنی قوموں کو تاریکی میں رکھتی ہے
جو اپنی بالا دستی کے لئے چالیں بدلتے ہیں
جنہیں خدشہ ہے ان کی دسترس کمزور پڑنے سے
مقید رینگتی دہشت زدہ نسلیں
معیشت کی غلامی توڑ سکتی ہیں
یہ اپنے کھیت کی مٹی سے رشتہ جوڑ سکتی ہیں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
شجراپنی زمیں جب
سبھی کچھ تھا
جسے ہم چھوڑ کر گھر سے نکلنے کے لئے بیتاب رہتے تھے
سبھی کچھ تھا
مگر ہم یہ سمجھتے تھے
کہ اپنے واسطے اس سر زمیں پر کچھ نہیں رکھا
درودیوار اندر سے قفس معلوم ہوتے تھے
محبت اور نفرت تھی ۔۔۔۔۔۔جو اپنی تھی
ہوائیں ، بارشیں ، خوشبو ، سنہری دھوپ کا موسم
سبھی وہ کچھ جو افسانوں میں ہوتا ہے
وہ ہنگامے جنہیں دیکھے ہوئے اک عمر گزری ہے
وہ اپنے لوگ۔۔۔۔۔۔
جو اب آنسوؤں کے گھر کا مسکن ہیں
مگر اس وقت جب ہم سانس بھی لیتے
گھٹن ایسی کہ جیسے دم نکلتا ہو
یہی لگتا تھا
جیسے اجنبی لوگوں میں زندہ ہیں
چھوڑتے ہیں
ہمیشہ خواب کی دہلیز پر بیٹھے ہوئے یہ سوچتے رہتے
کہ اپنی آنکھ جب کھولیں
تو منظر ہی بدل جائے
کسے معلوم تھا
منظر بدلنے سے وہی کردار رہتے ہیں
وہی دیوار بینائی کوکچھ کرنے نہیں دے گی
وہی زنجیر پاؤں میں
وہی تصویر آنکھوں میں
نگاہوں میں وہ سب کچھ ہے
کہ جب سر سبز شاخوں پر ہمیشہ پھول کھلتے تھے
خزاں کی رت میں بھی اک تازگی محسوس ہوتی تھی
۔۔۔۔۔۔۔
مگراب زندگی آرائشی پھولوں میں،
خوشبو کانچ کی بوتل کے اندر قید ہم پر مسکراتی ہے
ہمارے ہاتھ خالی ہیں
مگر ذہنوں میں گزرے روزوشب کی ایک البم ہے
خبر کیا تھی
شجر اپنی زمیں جب چھوڑتے ہیں
سوکھ جاتے ہیں