کاوش عباسی
تمنا‘
تمناکی طاقت
تو اندھی تڑپ ہے
مگر
یاد
چشمِ تخیل کے
صَد تار پردوں سے
سب دیکھتی ہے
وہ جو فاصلوں کے
اندھیروں میں کھویا ہے
اُس کے لیے
سازِ دل کودُکھاتی ہے
دل کیا کرے
یاد بھی دل تمنا بھی دل
آگے بھی آپ پیچھے بھی آپ
تیر کے مُونہہ دو
دونوں کے ہم ہدف
دونو ں سے چھلنی ہوتے رہے
ہم تڑپتے رہے ہم سسکتے رہے
ہم بکھرتے رہے