کاوش عباسی(کراچی)
محبت تھی مجھ کو نہ جانے ضرورت تھی
میں نے بہت کچھ چھپا کے
بہت کچھ کو ’’اس‘‘کے مطابق بناکے
زمانے کے معیارو انداز سے
جھوٹ سچ سچ سجا کے
اپنا آپ ،اپنا دل پیش اس کو کیا
وہ مسکرایا
شاید مرا کوئی انگ اس کو بھایا
مری پیش کش کو سراہا
اسے اپنے خوابوں میں پرکھا
کوئی دیر خوابوں میں سمٹا
پھر آخر مجھے اپنے دل سے لگایا
مگر جب جو کچھ میں نے اس سے چھپایا
جس ان بن کو ،اس کے مطابق بنایا
اب وجد کے تہذیب ودرجہ کے
جس فرق کو جھوٹ سچ سے مٹایا
وہ سب جب کھلا،سامنے اُس کے آیا
تو وہ زہر سا مسکرایا
بہ حسرت کہا
’’مجھے چوری سے ہیراپھیری سے تم نے اُٹھایا ہے ،جیتا نہیں ہے،کوئی اس طرح مردہ خوری تو کرتا ،لہو زندگی کا تو پیتا نہیں ہے‘‘
یہ الفاظ تھے
یا نہ جانے کوئی بم پھٹا تھا
کہ جس کے دھماکوں میں
میں ٹکڑے ٹکڑے ہوامیں بکھرتا گیا تھا