فیصل عظیم
ایک اونچے پہاڑ کے نیچے
ایک مجمع تھاٗ جس میں اپنے بھیٗ
اور بیگانےٗ سب ہی شامل تھے
سب کے سب
اس پہاڑ کے تنگ راستوں پر رواں دواں دیکھے
کوئی جلدیٗ کوئی ذرا دھیرے
اور میں بھاگتا ہوا گویا
ان درختوں کے اور چٹانوں کے درمیاں سے
گیا بہت آگے
سانس پھولیٗ تھکا بدنٗ لیکن
مجھ کو اُونچائی بھی تو چھونا تھی
سب کو آخر وہیں تو جانا تھا
سارے اپنوں کا وہ ٹھکانہ تھا
پر اچانک کہیں بلندی پر
میں جو پلٹاٗ تو میں نے کیا دیکھا
دُور تک کوئی بھی نہیں اپنا