ن۔م۔راشد
شبِ زفافِ ابولہب تھی،مگر خدایا وہ کیسی شب تھی
ابو لہب کی دلہن جب آئی، تو سر پہ ایندھن، گلے میں
سانپوں کے ہار لائی،نہ اُس کو مشاطگی سے مطلب
نہ مانگ غازہ ، نہ رنگ روغن،گلے میں سانپوں
کے ہار اس کے،تو سر پہ ایندھن!
خدایا کیسی شبِ زفافِ ابولہب تھی!
یہ دیکھتے ہی ہجوم بپھرا،بھڑک اُٹھے یوں غضب
کے شعلے،کہ جیسے ننگے بدن پہ جابر کے تازیانے!
جوان لڑکوں کی تالیاں تھیں، نہ صحن میں شوخ
لڑکیوں کے تھرکتے پاؤں تھرک رہے تھے،
ابو لہب نے یہ رنگ دیکھا، لگام تھامی،لگائی
مہمیز،ابو لہب کی خبر نہ آئی!
ابو لہب کی خبر جو آئی،تو سا لہا سال کا زمانہ
غبار بن کے بکھر چکا تھا!
ابو لہب اجنبی سر زمینوں کے لعل و گہر سمیٹ کر
پھر وطن کو لوٹا ،ہزار طرار و تیز آنکھیں ،پرانے
غرفوں سے جھانک اٹھیں،ہجوم،پیر و جواں کا
گہرا ہجوم،اپنے گھروں سے نکلا،ابولہب کے جلوس
کو دیکھنے کولپکا!
’’ ابولہب! ‘‘ اک شبِ زفافِ ابو لہب کا جلا
پھپھولا، خیال کی ریت کا بگولا، وہ عشقِ برباد
کا ہیولا، ہجوم میں سے پکار اُٹھی! ’’ ابو لہب!
تُو وہی ہے جس کی دلہن جب آئی ،تو سر پہ ایندھن
گلے میں سانپوں کے ہار لائی ؟ ‘‘
ابو لہب ایک لمحہ ٹھٹکا،لگام تھامی، لگائی
مہمیز،ابو لہب کی خبر نہ آئی !