ڈاکٹر بلند اقبال (امریکہ)
بس آنکھیں بند ہونے کی بات تو تھی کچھ ہی دیر میں گھپ تاریکی چھٹنے لگی ۔رقیہ کو یوں لگا جیسے اُس کی سیڈ ول بانہوں پر سرکتے ہوئے ہاتھوں کا لمس اچانک ایک انجانے مرد کی شکل میں ڈھلنے لگا ۔پہلے پہل توآنکھیں بنی ، نیم دراز گھنی پلکوں کے پیچھے چُھپی ہو ئی کنچی سی آنکھیں، جن کی شربتی رنگوں کی جھیل میں رقیہ کے سُلگتے ہوئے ارمانوں کی ناؤ ہچکولے کھاتے ہوئے ڈوبنے لگی ،پھر جلد ہی ستواں سی ناک ، ٹھوڑی پر چراغ،ہونٹوں پر دبیز مسکراہٹ اور گالوں پر چھوٹا گُم سم سا گڑھا ،جو رقیہ کے سلگتے ہوئے ارمانوں کو خود میں سمیٹ کر اُس کی اُدھوری خواہشوں سے بھرنے لگا ۔گرم ہونٹوں کی تمازت سے جب رقیہ کے ہونٹ جلنے لگے تو اُس کا خوابوں کا شہزادہ ایک نئے روپ میں اُس کے سامنے اُبھرنے لگا،وہ کبھی کسی یونانی دیوتا کی مردانہ حُسن کی خیالی شکل میں ڈھل کر اُس کے پیاسے ہونٹوں کو بے تحاشہ چومنے لگتا تو کبھی کسی دیومالائی کہانی کا لافانی کرداربن کر اُس کے چہرے کو اپنے گرم بوسوں سے گُل گُلنار کرنے لگتا۔ گھنی زلفوں میں جو انگلیاں سرکنے لگتیں تو رقیہ کا خیال رنگوں کی دھنک بن کر اُس کو ایک اَن دیکھی دنیا میں لے آتا جہاں اُس کے خوابوں کا حسین شہزادہ اپنی دونوں بانہیں دراز کیے اُس کی بکھری ہوئی زلفوں کو اُس کے سارے بدن کے ساتھ خود میں سمیٹ لیتا۔حسن و عشق کی یہ مدہوش کیفیت رقیہ کے بدن میں کبھی آگ بن کر جلنے لگتی تو کبھی ٹھنڈک بن کر اُس کی روح میں اُ تر نے لگتی۔۔۔اور پھر اک نشہ سا رقیہ کے سارے بدن میں اُترنے لگتا ا اور وہ دھیمے دھیمے اپنے اَن دیکھے محبوب کے بازوؤں میں کانپنے لگتی۔
رقیہ تو کبھی بھی نہیں چاہتی تھی کہ وہ رنگ و بُو کی ا س مدہوش کیفیت سے باہر آئے مگر قیوم میاں کی رات بھر کی منہ کی بِسانداور جلے ہوئے تمباکو کے بھبکوں سے اُسکے خوابیدہ احساس متلانے لگے اور وہ شدید کرب سے اپنے پاس پڑے ہوئے اُس بے ہنگم شخص کو نیم بند آنکھوں سے بیزاری کے ساتھ تکنے لگی جس کے ساتھ وہ ساری رات حُسن و عشق کی ہولی کھلیتی رہی تھی ۔۔ قیوم میاں ۔۔اُس کے شوہر ۔۔۔ اُس کے یونانی دیوتا۔۔ جن کا قد ساڑھے پانچ فٹ اور پیٹ سوا تین فٹ تھا۔ جن کا رنگ اُس کی دیومالائی کہانی کے کسی بھیانک جِن کی طرح تھا جو اندھیرے میں نظر نہیں آتا تھا۔جن کی زُلفیں اس کے خوابوں کے حسین شہزادے کی طرح نہیں بلکہ کسی اُجڑے ہوئے کھلیان کی طرح تھیں جہاں برسوں سے سوکھا پڑا تھا۔جن کے رومانی چہرے کو چیچک کے داغوں نے اور بھی بدشکل بنا دیا تھا۔۔۔قیوم میاں ۔۔۔اُس کے سر تاج ۔۔ جن کے ساتھ وہ اپنی بھری جوانی کی مہکتی ہوئی روشن راتیں کالی کر رہی تھی۔ اونہہ ۔۔رقیہ نے کوفت سے آنکھیں بند کر لی اور پھرسے اپنے کھوئے ہوئے خوابوں کے شہزادے کو اند ھیرے میں ٹٹولنے کی کوشش کی مگر قیوم میاں کا غلیظ سراپا اُس کے سامنے بے ہنگم انداز میں ناچنے لگا ۔ رقیہ نے تھک ہار کر آنکھیں کھول دیں اور پھر لحاف چھوڑ کر کچھ دیر توبستر پر بیٹھے بیٹھے بیڈ روم کی دیواروں کو تکتی رہی مگر پھر بیز ارگی کے ساتھ بیڈروم سے نکل گئی اور دالان میں چلی آئی ۔
چڑیوں کی چہچہاہٹ سے فضا میں خوشگوار سی موسیقیت رچی ہوئی تھی۔سورج کی پہلی کرن صحن سے چوری چوری اندھیرا چُرا رہی تھی۔رات کی رانی کی خوشبو ابھی تک صحن سے دالان تک بسی ہوئی تھی۔رقیہ نے دونوں ہاتھ پھیلا کر ایک لمبی سی جمائی لی اور پھر قریب ہی تپائی پر پڑے ہوئے بے تر تیب اخبار سمیٹنے لگی ۔۔اچانک رقیہ کی نظر ایک باسی خبر پرلمحے بھر کے لیے اٹکی ۔۔تھانہ شہزاد پو رکے علاقہ میں اکیس سالہ تاج بی بی کو اُس کے خاوند خدا بخش نے اُس وقت موت کے گھاٹ اُتاردیاجب وہ اپنے آشنا معشوق علی کے ساتھ رنگے ہاتھوں پکڑی گئی ۔۔ رقیہ نے ایک پُر سرار مسکراہٹ کے ساتھ پرانے اخبار تپائی کے نیچے کھسکا دیے اور پھر آنکھیں بند کرکے رات کی رانی کی خوشبو کواپنی گہری سانسوں میں اُتارنے لگی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اُس رات بجلی کڑاکے سے گرج رہی تھی ، منان دفتر سے آئے ، عفت کے ساتھ چائے پی اور پھر شرافت بھائی کے گھر کیرم کی بازی جمانے چلے گئے۔عفت کو نہ جانے کیوں صبح ہی سے عجیب عجیب سے ہول سے اُٹھ رہے تھے، کئی بار سوچا آج منان کو گھر پہ ہی روک لیں ، بچپن ہی سے اُس کا بجلی کے کڑاکوں سے دل دہلنے لگتا تھا۔ دو سے جب تین گھنٹے ہوگئے تو چھاتا لیا اور شرافت بھائی کے گھر کے لیے نکل کھڑی ہوئی ، گیٹ بجانے سے پہلے ہی کیا دیکھتی ہے کہ محلے کے دو چار بچے ایک دوسرے کے کندھوں پہ چڑھے ، شرافت بھائی کے کمرے کی کھڑکی سے کمرے کے اندر جمی کیرم کی بازی دیکھنے میں مگن تھے، اُس کو اچانک دیکھا تو ایک دوسرے کے پیچھے کودتے پھلانگتے ہوئے بھاگ گئے ۔ اُس نے جو پیروں کے بل کھڑے ہوکر کمرے میں جھانکا تو آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں ۔
شرافت بھائی اور منان کچھ اس طرح سے ایک دوسرے میں مشغول تھے کہ کیا کوئی نو بہاتا شادی شدہ جوڑا آپس میں مصروف ہو ۔۔۔ اُسے ایسا لگا کہ جیسے آسمان کی ساری ہی گرجتی ہوئی بجلیاں اُس پہ ایک ساتھ گر رہی ہوں اور ہر کڑکڑاہٹ میں اماں جی کی آواز گونج رہی ہو ۔۔ ’یہ مرد ذا ت بڑی بے وفا ہوئے ہے ‘۔۔
ہائے اماں جی۔۔ مگر یہ کیا ۔۔اچانک عفت کے منہ سے نکلا۔۔ یہ کیسی بے وفائی ہے ؟
(ڈاکٹر بلند اقبال کے افسانہ یہ کیسی بے وفائی کا اختتامی اقتباس)