جیتندر بلّو(برطانیہ)
دن سرد تھے ۔ ویک اینڈ کا آغاز تھا او رمیں مرکزی لندن کی ایک پب(PUB) میں بیٹھا ہفتے بھر کی تھکن ہی دور نہیں کر رہا تھا بلکہ ’’وقت‘‘ کو بھی قتل کرنے کی کوشش میں تھا جس نے میرے ساتھ کئی انوکھے کھیل کھیلے تھے اور چاہتے ہوئے بھی میرا ساتھ کبھی نہ دیا تھا۔ مجھے زندگی کے ہر موڑ ، ہر قدم پر اتنا پریشان کیا تھا کہ میرے پورے سنسار میں اس کا واحد دشمن تھا اور ہوں۔ میرے سینے میں اس کے لیے اس قدر نفرت بھری ہوئی تھی کہ اگر وہ نور کو کسی پیکر میں سمو کر میرے روبرو آ جاتا تو میں دنیا بھر کا بارود اس پر لٹا کرتا لیاں پیٹتا اور بہ آوازِ بلند کہتا کہ تمہارے نظام میں تو ازن نہ ہونے کے کارن تمہارا یہ انجام ہوا ہے لیکن ’’وقت‘‘ لارڈ کرشنا ؔکی طرح ہر سو پھیلا ہوا مجھ سے کہہ رہا تھا کہ تم ،تمہاری آنے والی نسلیں اورتمہارے آباؤ اجداد یکجا ہو کر بھی میرا کچھ نہیں بگاڑ سکتے ۔تم میرے نزدیک ایک بے معنی سا ذرہ ہو، جس کی کوئی وقعت ، کوئی اوقات نہیں ہوتی اوروہ تا حیات گرد میں رُلتا رہتا ہے۔ مایوس ہو کر میں نے گہرا سانس بھرا اور بیئر کا مگ اٹھا کر اردگرد نگاہ دوڑائی، ماحول گرم ہو چکا تھا۔ ہر شخص کسی نہ کسی کے ساتھ دکھائی دے رہا تھا ۔کوئی اپنی بیوی کے ساتھ سر جوڑے بیٹھا تھا تو کوئی اپنی گرل فرینڈ کی کمر میں ہاتھ ڈالے ہوئے تھے، کوئی یار دوستوں کی موجودگی میں بے فکری سے قہقہے لگا رہاتھا۔لیکن میں واحد شخص تھا جو سارے پب میں تن تنہا تھا، بالکل اس شخص کی طرح جس کے چاہنے والے تو بے شمار ہوں مگر پھر بھی بھری دنیا میں وہ تنہا ہو۔معاََدوست احباب کا دائرہ گلاس کی سطح پر پھیل گیا۔ان میں بعض تو ایسے تھے جو میرے بچپن کے سنگی ساتھی تھے اور بعض نے جوانی کی رنگینیاں میرے ساتھ دیکھی تھیں مگر ان سبھوں نے دیارِ غیر میں آبادہو کر دولت کو اتنی تیزی سے سمیٹا تھا کہ ان کی کایاہی پلٹ کر رہ گئی تھی۔وہ اس دوڑ میں دیوانہ وار بھاگ رہے تھے جب کہ میری ٹانگیں اس دوڑ کے قابل نہ تھیں۔میں تو ایک ریستوراں میں ادنیٰ سا ویٹر تھا۔ دوستوں کے قریب رہ کر میں نے یہی محسوس کیا کہ ان کی جون ہی بدل چکی ہے۔وہ ،وہ نہیں رہے جو کبھی ہوا کرتے تھے۔ان کی ہر ادا سے پیسے کی بو آیا کرتی ۔ ان کی ہر بات، ہر خیال مایا جال میں الجھ کر رہ جاتا۔وہ ضرورت پڑنے پر ہی مجھ سے ملنا پسند کرتے ،ورنہ میں ان کے سامنے کھڑے کھڑے د م توڑدیتا، انہیں ذرا بھی ملال نہ ہوتا۔ میں اکثر سوچا کرتا کہ یہ تبدیلی ان میں کیونکر در آئی ہے؟مادہ پرستی اور نو دو لتیئے بننے کے کارن یا کلاس بدل جانے پر مغربی اقدار اور طرزِ زندگی اپنانے پر، لیکن مجھے کوئی تسلی بخش جواب نہ ملا کرتا۔ ایک روز میں نے جلالی کیفیت کے تحت عالمِ تصور میں تمام دوستوں کو موت کے گھاٹ اتار ڈالا ور خود سے وعدہ کیا کہ ان کی صوت دور سے دیکھنا بھی پسند نہیں کروں گا۔وہ سب کے سب خود غرض ، مطلب پرست اور موقع شناس ثابت ہوئے تھے لیکن ’’وقت‘‘ تو میری گھات میں لگا بیٹھا تھا۔ وہ تنہائی کا چولا پہن کر میرے تن من سے ہوتا ہوا میرے اندرون تک اتر گیا۔میری حالت اس پرندے کی طرح ہوتی چلی گئی جو اپنی ڈار سے بچھڑ کر خلاؤں میں بھٹکتا پھرتا ہو۔ میں نوے(90)لاکھ باسیوں کے شہر میں بالکل اکیلا ہو گیا تھا۔
پب کھچا کھچ بھر گیاتھا۔کاؤنٹر تک پہونچنا مشکل ہو رہا تھا۔ لوگ باگ ایک کونے سے دوسرے کونے تک پینے پلانے اور باتوں میں کھوئے ہوئے تھے۔لال،پیلے، ہرے لباس بڑھ چڑھ کر اپنی اہمیت کا احساس دلا رہے تھے۔ کچھ جوان پنچھی اِدھر اُدھر بکھرے ہوئے لمبی اڑان کے واسطے پر تول رہے تھے مگر وہ بھی اکیلے نہیں تھے۔ہر کوئی اپنے شب کے ساتھی کے ساتھ تھا۔ انہیں دیکھ کر یہی خیال آتا کہ آدمی اگر یورپ میں ہو، جوان ہو اور اس کے پاس پنجھی بھی ہو تو یورپ ہر لحاظ سے اس کے واسطے جنت ہے۔ ورنہ یہی جنت اس کے لیے جہنم ثابت ہوتا ہے۔ حالانکہ دونوں لفظ ‘’ج‘ سے شروع ہوتے ہیں لیکن دونوں کے درمیاں فاصلہ اتنا زیادہ ہے کہ آدمی کا وجود گرد بن کر رہ جاتا ہے۔سگریٹ سلگا کر میں نے کش لیا ہی تھا کہ لگا کوئی میری دائیں طرف کچھ فاصلے پر بیٹھا مجھے گھور رہا ہے۔ واقعی ایک سفید فام عورت ٹکٹکی باندھے مجھے تک رہی تھی۔نظریں ٹکراتے ہی اس کے لبوں کے کونے پھیل گئے اوروہ اپنی عمر سے بڑی دکھائی دینے لگی۔وہ اٹھائیس تیس کے لگ بھگ تھی۔ بے ترتیب گھنے بال اس کی گردن اور کانوں کے گرد پھیلے ہوئے تھے۔دودھیا رنگ کے چہرے پر بڑی بڑی آنکھیں اور ہلکی سی اٹھی ہوئی ناک جس نے اس کی صورت میں کمی پیدا کردی تھی لیکن بدقسمتی سے وہ بھی اکیلی نہیں تھی۔اس کی نشست کے ایک طرف تین جوان لڑکے یورپین یونین(E.U) کے متعلق بات چیت کر رہے تھے کہ آیاملک ترکی کو اس میں شامل ہونے کی اجازت دی جائے یا نہیں؟ وہ خود میں اتنے کھوئے ہوئے تھے کہ کوئی بھی اس عورت کی طرف توجہ نہیں دے رہا تھا۔وہ بھی ان سے بے نیاز مگر سگریٹ کا دھواں اِدھر ُادھر بکھیر رہی تھی لیکن جانے کیوں میرے اندر کسی نے سرگوشی کی کہ وہ بھی میری طرح اکیلی ہے اور اسے بھی میری طرح کسی کی تلاش ہے۔میں نے گلاس اٹھا کر اسے اشارتاً CHEERSکیا لیکن اس نے فوراً ہی منہ پھیر کرپب کا داخلی دروازہ دیکھنا شروع کردیا۔مجھے سخت شرمندگی ہوئی کہ میں نے نا حق کسی اجنبی کو WISHکیا ہے لیکن چند پل بھی نہ بیتے تھے کہ اس عورت نے اپنا گلاس اٹھا کر ہوا میں لہرایا اور میری CHEERSکو قبول کر لیا۔ پھر مجھے اپنی جگہ سے اٹھتا ہوا دیکھ کر وہ ایک طرف کو سرک گئی ۔ اس کے قریب ہی بیٹھے ہوئے عمر رسیدہ آئرش نے جب مجھے اس عورت کے قریب کھڑے پایا تو وہ بھی اپنی جگہ سے قدرے سرک گیا۔میز پر گلاس رکھ کر میں دونوں کے درمیان پھنس کر بیٹھ گیا اور پشت دیوار سے لگا لی۔ پھر آئرش کا شکریہ ادا کر کے عورت کی طرف زیرِلب متوجہ ہوا۔ ’’کیا تم اکیلی ہو؟‘‘
’’فی الحال تو اکیلی ہوں اور تم؟‘‘
’’میں بھی اکیلا ہوں۔‘‘
اس مرتبہ اس کے ہونٹ ہی نہیں دانت بھی پھیل گئے تھے جو بیشتر انگریزی عورتوں کی طرح زیادہ اچھے نہ تھے مگر وہ مجھے ذرا بھی بھدے نہ لگے کہ پی پلا کر میں ان ہی سے کچھ چرانے کی کوشش میں رہا کرتا تھا۔میں نے اسے سگریٹ پیش کرتے ہوئے کہا:’’کیا تم کسی کا انتظار کر رہی تھیں؟‘‘
’’میں کبھی کسی کا انتظار نہیں کرتی۔‘‘
اس کی بے باکی نے مجھے پر گہرا اثر کیا۔سنجیدگی سے اس کا جائزہ لیتے ہوئے وہاں مجھے ایک جزیرہ دکھائی دیا جہاں ایک انوکھی دنیا آباد تھی۔جس کی وہ خود ہی حاکم تھی اور خود ہی محکوم۔
’’مگر کبھی نہ کبھی تو انتظار کرنا ہی پڑتا ہے؟‘‘
’’یہ تم کیسے کہہ سکتے ہو؟‘‘
میں نے پہلو بدل کر دونوں کے درمیان مزید جگہ بنائی اور بولا:
’’’فرض کروتم نے کسی سے ملنے کا وعدہ کر رکھا ہے اور تم مقررہ وقت سے پانچ دس منٹ پہلے وہاں پہنچ جاتی ہو۔ ظاہر ہے کہ اس صورت میں تم انتظار کروگی؟‘‘
’’میں ایسا موقع کبھی آنے نہیں دیتی۔میں ہمیشہ پانچ دس منٹ دیر سے پہنچتی ہوں۔ملنے والا وہاں موجود ہو تو ٹھیک ،ورنہ سیدھی آگے بڑھ جاتی ہوں۔‘‘
خیال آیا کہ یہ تجربہ یہ سوچ حاکم کی تھی یا محکوم کی ؟مگر اتنا ضرور واضح ہو گیا تھا کہ حاکم سخت جان ہے او ر محکوم بے بس ۔ایک بڑا گھونٹ پی کر میں اس سے مخاطب ہوا:
’’مگر تم لوگ تو وقت کے بڑے پابند ہو۔۔۔وقت پر نہ پہنچنا یا دیر سے پہنچنے کو بہت بُرا سمجھتے ہو؟‘‘
’’ہاں یہ ہمار ا کلچر ہے ۔۔۔لیکن میں ہر چیز کو اپنے ڈھنگ سے دیکھتی ہوں۔‘‘میں نے اپنے ردِعمل سے اسے جتایاکہ اس کی بات مجھ تک پہنچنے کی بجائے اسی تک رہ گئی ہے۔ مگر وہ دانا عورت تھی۔اسے میری ذہنی کیفیت کا اندازہ جلد ہی ہو گیا تھا۔بولی:’’میرے نزدیک انتظار کا مطلب کچھ اور ہے؟‘‘
’’بُرا مت مانو تو وہ بھی بتا دو، کیا ہے؟‘‘
وہ میرے روئیے سے مطمئن نظر نہیں آ رہی تھی۔شاید وہ اس خیال میں تھی کہ جس ذہنی سطح پر وہ جی رہی ہے وہاں تک میری رسائی ہے یا نہیں؟ہچکچا کر بولی:’’جب کوئی شخص کسی کا انتظار کرتا ہے تو وہ دراصل اپنے پاؤں کاٹ رہاہوتا ہے۔وہ کہتے کہتے اچانک رُک گئی تھی۔ پھر دور دیکھ کر تلخی سے کہا: ’’میں نے ایک بار کسی کا انتظار کیا تھا لیکن اتنی بری طرح سے زخمی ہوئی تھی کہ بیان کرنا مشکل ہے۔‘‘
’’بیان کرنے سے فائدہ بھی کیا۔۔کوئی کسی کے دکھ درد میں شریک تو ہو نہیں سکتا۔صرف ہمدردی جتا سکتا ہے۔‘‘
ردِ عمل گہرا تھا۔اسے یقین سا ہو چلا تھا کہ ادراک کی جس سطح پر وہ سانس بھر رہی ہے وہیں کہیں میں بھی چہل قدمی کر رہا ہوں۔ وہ بدستور مجھ کو دیکھتی رہی لیکن میں نے فضا کو خوشگوار بنانا چاہا:
’’ہمارے ہاں کہا جاتا ہے کہ جو مزہ انتظار میں ہے وہ دنیا کی کسی شے میں نہیں۔‘‘
وہ کھل کھلا کر ہنس پڑی اور یکبارگی اپنی عمر میں بیس برسوں کا اضافہ کر کے پچاس کی بن گئی ۔پل بھر کو اُن لڑکوں نے ہمیں دیکھا پھر خود میں کھو گئے۔انجام کار وہ ہنسی پر قابو پا کر بولی:’’تم لوگ بڑے رومانی ہو اور جذباتی ہو۔۔۔۔۔ بلکہ کسی حد تک اذیت پسند بھی۔ میں ایک بار ایسٹ(EAST)ہو کر آئی ہوں۔ ہماری طرزِ ندگی اور ہماری اقدار تم سے بالکل الگ ہیں، جو ہمیں سوچنے پر مجبور کرتی ہیں۔‘‘
’’اسی لیے تم ہر چیز کو اپنے ڈھنگ سے دیکھا کرتی ہو؟‘‘
’’تم کہہ سکتے ہو کہ ہاں۔‘‘
ہم خاموش ہلکے ہلکے گھونٹ بھرتے رہے ۔اس نے جو بھی کہا تھا وہ میرے لیے نیا نہیں تھا۔مگر اتنا ضرور واضح ہو چکا تھا کہ وہ تیز فہم ہے۔ دنیا کو الگ نظر سے دیکھتی ہے۔عام روش سے ہٹ کر دوسروں کو پرکھتی ہے۔
گلاس خالی ہو چکے تھے۔ میں نے اس کے گلاس کی طرف ہاتھ بڑھا کر پوچھا:
’’تم کون سی وائن لے رہی ہو۔ ڈرائی یا سویٹ؟‘‘
اس نے میر اہاتھ پکڑ لیا۔’’نہیں۔مجھے اور نہیں چاہیے۔‘‘
’’کیوں؟ ابھی تو رات بھی جوان نہیں ہوئی۔‘‘
اس نے اپنی نرم نرم انگلیاں میرے ہاتھ کی پشت پر پھیریں۔
’’یہاں CROWDبہت زیادہ ہو گیا ہے۔۔۔اور مجھے گھٹن سی ہو رہی ہے۔۔‘‘
’’لیکن مجھے تو CROWDمیں رہ کر بڑا آنند ملتا ہے۔یقین کرو میں اس کا اٹوٹ حصہ بننا چاہتاہوں۔ ورنہ جب اکیلا ہوتا ہوں تو عجب سا محسوس کرتا ہوں۔‘‘
مگر اب تو تم اکیلے نہیں ہو‘‘
وہ پلکیں جھپکائے بنا مجھ کو تکتی رہی۔لگا کہ پوری کائنات ایک ہی مرکز پر اکھٹی ہو گئی ہے اور’’ وقت‘‘ بھی ٹھہر گیاہے۔ موجودہ لمحے کے بعد اگلا لمحہ شاید ہی جنم لے۔ میرارکتا بڑھتا بازو انجام کار اس کی کمر کے گرد پھیل گیا۔ اس نے ذرا بھی مزاحمت نہ کی بلکہ چاہت سے مجھ کو دیکھا ۔مجھے فوراً احساس ہوا کہ زندگی کی پر پیچ راہوں اور دشوار گزار راستوں میں اس کے ساتھ دور دور تک قدم اٹھایا جا سکتا ہے۔ میں نے جھک کر اس کے کان کی گرم لو کو محسوس کیا اور اپنائیت س کہا:’’آؤ کہیں اور چلتے ہیں۔‘‘
کچھ دیر میں ہم پب کے باہر کھڑے تھے۔ یخ بستہ ہوا نے ہمارا خیر مقدم اس طرح سے کیا کہ آن کی آن میں ہمار ا انگ انگ آندھی کی زد میں آئے ہوئے خزاں زدہ پتوں کی طرح لرز اٹھا۔ اگر ہم وہاں کچھ دیر اور کھڑے رہتے تو ہمارے چہرے سن ہو کر رہ جاتے ۔اس نے اگلا پل ضائع کیے بغیر چمڑے کے دستانے نکالے اور بھاری کوٹ کی دوسری جیب سے اونی ٹوپی نکلا کر پہن لی۔ سڑک کے اس پار شیشوں سے بنی ہوئی عمارت میں خوبصورت سا پب تھا جس کی گونا گوں روشنیاں ہر راہ گیر کو اپنی طرف کھینچ رہی تھیں۔ اس نے جھٹ سے میر ا بازو تھام کر وہاں چلنے کو قدم بڑھایا ۔جنکشن کی بتی سرخ میں تبدیل ہوتے ہی آتا جاتا ٹریفک رک گیا اور ہم تیزی سے سڑک کو پار کر کے پب میں داخل ہو گئے۔ لیکن بدقسمتی سے وہاں بھی کم و بیش وہی حالت تھی جس سے بھاگ کر ہم یہاں تک آئے تھے۔ چورس اور جدید پب کا ہر گوشہ جوان طبقے سے بھر ہوا تھا۔ان میں سے بعض تو قالین پر ہی پھیلے ہوئے تھے، موسیقی شور ،شرابہ، قہقہے ، سگریٹ کا گاڑھا کسیلا دھواں ، ان سب نے مل کر ہماری امیدوں پر پانی پھیر دیا تھا۔ اس کے چہرے پر آگ سی لگ گئی تھی لیکن میں نے کندھے اچک کر لاچارگی ظاہر کی۔وہ میری ادا سے محظوظ ضرور ہوئی مگر بھیڑ پر بھر پور نظر ڈال کر حقارت سے کہا:
"I am sick of such crowd , which has no character
وہ کونسل کی عمارت شیفرڈ کورٹ کی پندھرویں منزل پر مقیم تھی۔ لفٹ منزل بہ منزل ہوتی ہوئی آخری منزل کی طرف بڑھ رہی تھی۔ میرے ایک ہاتھ میں وائن کی نصف بوتل تھی تو دوسرے میں بیئر کے چند ڈبے۔ کرلؔ نے فِش اینڈ چپس کے پیکٹ پکڑ رکھے تھے اور وہ ٹٹولتی ہوئی نظروں سے مجھ کو جاننے کے عمل سے گزر رہی تھی کہ آیا میں اس کی توقعات پر پورا اتروں گا یا نہیں؟ جبکہ میں تواسے کب کا جان چکا تھا۔ ایک ہی ملاقات میں لاتعداد ملاقاتیں چھپی ہوئی تھیں۔ مختصر سے عرصے میں ہم نے کئی فاصلے طے کر لیے تھے اور کچھ دیر میں ہم آخری فاصلہ طے کر کے ایک دوسرے کی روح تک اترنے والے تھے ۔ اچانک میرے ذہن کے کسی گوشے سے ’’وقت ‘‘نے نمودار ہو کر کہا کہ مجھے جھک کر اس کا شکریہ ادا کرنا چاہیے کہ میں اس کے کرم سے ایک مشتاق پنچھی کی صحبت سے لطف اندوز ہو رہا ہوں لیکن میری گردن مزید تن کر رہ گئی کہ ذاتی کامیابی میں وقت کا دخل کہاں اور اگر ہے بھی تو وہ اپنے غیر متوازن نظام میں توازن پیدا کرنا چاہتا ہے۔ باقی سب بکواس ہے۔
لاؤنج میں داخل ہو کر اس نے فائر گیس جلایا ،کھڑکی پر پردے کھینچے اور گلاس لانے کو کچن کی طرف بڑھ گئی۔ سامان رکھ کر میں نے فلیٹ پر اچٹتی سی نگاہ ڈالی۔دو کمروں کا فلیٹ تھا۔ سامان ہر طرف بے ترتیبی سے بکھرا ہوا تھا۔فلیٹ کی آرائش،وال پیپر، فرنیچر کی ترتیب اور دیواروں پرآویزاں تصویروں سے نمایا ں تھا کہ فلیٹ کی اپنی کوئی شخصیت نہیں ہے۔ کارنس پر دھری ہوئی تصویر کو دیکھ کر میرے حواس اوپر نیچے ہونے لگے۔کیرلؔ بیاہتا عورت تھی۔ وہ شادی کا لباس پہنے اپنے شوہر کے دوش بدوش کھڑی فخریہ مسکرا رہی تھی۔ غیر مرئی اندیشے سر اٹھاکر مجھے خود میں گھیرنے لگے اور میں دم بخود کبھی تصویر کو دیکھتا اور کبھی صدر داخلے کو عین اسی وقت کیرلؔ گلاس تھامے گنگناتی ہوئی داخل ہوئی او رمجھے حیران سا پا کر بول اٹھی:
’’ڈرو مت مجھے اپنے شوہر سے علیحدہ ہوئے ایک سال سے اوپر ہو چکا ہے۔‘‘
’’پھر ؟۔۔۔۔ پھر تم نے یہ تصویر یہاں کیوں رکھی ہے؟‘‘
’’تاکہ ہر کسی کو پتہ چل جائے کہ میں ایک بار آگ میں جل چکی ہوں۔‘‘
’تم شادی کو آگ کہتی ہو؟‘‘
’’اور کیا کہوں اسے۔۔۔ میری شخصیت کو جلا کر رکھ دیا اس نے۔‘‘
میں نے بئیر کے ڈبے کھول کر مشروب گلاسوں میں انڈیلا اور کوٹ اتار کر اس کے شوہر پر بھر پور نظر ڈالی۔ وہ دراز قد ، پھریرے بدن کا خوبرو جوان تھا۔ اس کی شوخ شریر آنکھوں میں کئی سوال تھے۔
’’تمہیں یہ تصویر پریشان نہیں کرتی؟‘‘
’’مجھے یہ کیوں پریشان کرنے لگی۔۔۔میرا اَب اس سے رشتہ ہی کیا ہے؟‘‘
’’میرا مطلب ہے تمہیں شادی کے وہ حسین دن، راتیں ،باتیں ، ہنسی مذاق، واقعات اور بری بھلی یادیں رہ رہ کر یاد نہیں آتیں؟‘‘
’’وہ سب ختم ہو چکا ہے۔ میرے لئے ہر شے مر چکی ہے۔‘‘ اس کا لہجہ تیزتھا گلاس ٹکرا کر اس نے اپنی بات کو آگے بڑھایا۔’’میں بہت مشکل سے اس آگ سے نکل پائی ہوں‘‘
میں ایک کے بعد دوسرا گھونٹ بھرتا چلا گیا اور میں نے جزیرے کے ذریعے اس کے اندرون تک پہنچنا چاہا لیکن وہاں گہرے پردے حائل تھے۔ لہذا میں نے براہِ راست دریافت کیا:
’’لگتا ہے تم میرج کے بعد ذاتی آزادی کھو بیٹھی تھیں؟‘‘
’’تم آزادی کی بات کرتے ہو۔میری شخصیت ہی ختم ہو کر رہ گئی تھی۔‘‘ اس نے بے حد اکھڑ کر کہا۔پھر کچھ دیر بعد نہایت افسوس کے ساتھ گویا ہوئی:’’کسی کو اتنا پیار بھی نہیں کرنا چاہیے کہ عورت کی اپنی شخصیت دب کر رہ جائے اور مرداُس پر اتنا حاوی ہو جائے کہ وہ ہر قدم پر فائدہ اٹھانے لگے۔۔۔۔ یقین کرومیں وہ نہیں رہی تھی جو شادی سے پہلے تھی‘‘۔ میں سمجھ گیا کہ کیرلؔ بھی ہر یوپین عورت کی طرح خود مختار اور آزاد ہے۔ وہ بھی شہری حقوق ، شخصی آزادی اور زندگی کے ہر شعبے میں مساوات چاہتی ہے۔ وہ مرد کی برتری اور اس کا غلبہ کسی بھی طور برداشت نہیں کر پاتی، خواہ وہ معاشرتی زندگی میں ہویا ازدواجی زندگی میں ۔ا س نے گلاس میز پر رکھ کر پوچھا:’’تم تو اس آگ میں جل چکے ہونا؟‘‘
’’نہیں، ابھی تک تو بچا ہوا ہوں۔‘‘
’’کتنے خوش قسمت ہوتم ، میں تو کہوں گی بھول کر بھی آگ کے قریب مت جانا ورنہ راکھ ہو جاؤ گے۔‘‘مجھے بے اختیار ہنسی آگئی لیکن میں نے گفتگو کا ربط ٹوٹنے نہ دیا۔
’’مگر جانے کیوں لوگ کہتے ہیں کہ بیاہ شادی کے بعد ہی آدمی مکمل ہوتاہے۔‘‘
’’ممکن ہے مرد مکمل ہوجاتا ہو،پرعورت ادھوری رہ جاتی ہے۔ اس لیے کہ مرد اس پر حاوی ہو جاتاہے۔‘‘
اس کی باتوں سے زیادہ اس کی شراب مجھ پر اثر چھوڑ رہی تھی لیکن میں نے مناسب یہی سمجھا کہ موضوع کو زندہ رکھ کر اس سے وہ پہلو دریافت کیا جائے جو میرے نزدیک نہایت اہم تھا۔
’’شوہر سے علیحدہ ہو کر تم خود میں کمی محسوس نہیں کرتیں؟‘‘
’’تم ذہین ہو ، ہو سکے تو کھل کر بات کرو۔‘‘
’’میرا مطلب ہے ،تم ایسا محسوس نہیں کرتیں کہ تم اتنی بڑی دنیا میں پھر سے اکیلی ہو گئی ہو؟‘‘
’’اکیلی تو میں پہلے بھی تھی۔۔۔ پھر کیوں بھولتے ہو کہ آدمی اکیلا ہی پیدا ہوتاہے ، اکیلا ہی زندگی سے لڑتا ہے اور اکیلا ہی مر جاتا ہے۔‘‘
’’مگر زندگی کے سفر میں آدمی کہاں تک اکیلاچل سکتا ہے؟ کبھی نہ کبھی تو اسے ہم سفر کی ضرورت پڑتی ہی ہے۔ورنہ اکیلا پن اسے قدم قدم پر ڈسنے لگتا ہے۔‘‘
’’صرف ان لوگوں کو جو اکیلے پن سے ڈرتے ہیں۔مجھے تو اکیلے پن سے محبت ہے۔ میں اکیلا رہنا پسند کرتی ہوں۔‘‘
مجھے اس کے روئیے پر تعجب ہوتے ہوئے بھی تعجب نہیں ہو رہا تھا کہ عموماً انگریز عورت ماضی میں کم ، حال میں زیادہ زندہ رہتی ہے۔وہ زندگی کو جس طرح سے وہ ہے، قبول کرتی ہے لیکن اس کے خیالات کی گہرائی اور سوچ کے تسلسل سے واضح تھا کہ اس کی ہر بات،تجربہ اور مشاہدہ اس کی اپنی ذات کے تعلق سے ہے لیکن میں پھر بھی بال کی کھال نکالنے سے باز نہیں آ رہا تھا۔‘‘ مانا کہ تمہارا تعلق خود سے بہت گہرا ہے اور تم دن کا ہر پل اپنے ساتھ گزارنا چاہتی ہو۔۔۔مگر کبھی نہ کبھی تو تمہیں بھی خود سے اکتاہٹ ہوتی ہوگی؟‘‘
’’میں تمہارا مطلب سمجھ گئی ۔یقین کرو میں کئی ہفتوں تک اپنے دوستوں سے بھی نہیں ملتی۔ پھرملوں بھی کس لئے؟شخصیت کے ٹکراؤ کے لیے؟ انا کو ٹھیس پہنچانے کے لیے؟۔۔ خود میں نا آسودگی پیدا کرنے کے لیے؟‘‘
اس کے لہجے میں زمانے بھر کا طنز چھپا ہواتھا۔لگا کہ وہ سارا زہر جو اس کے سینے میں بھرا ہوا ہے، اگل ڈالے گی۔ مجھے خیال آیا کہ میں اور وہ ان کشتیوں کے مسافر ہیں جن کی منزل تو ایک ہے لیکن وہ دھند میں کھوئی ہوئی الگ الگ دھاروں پر بہہ رہی ہیں ۔کیرلؔ اکیلے ہوتے ہوئے بھی اکیلی نہیں ہے،جب کہ میں نہ ہوتے ہوئے بھی اکیلا ہوں۔
’’شاید توم اس سوچ میں ہو کہ میں نٹ کیس(NUTCASE) ہوں؟‘‘
’’ نہیں میں سوچ رہا تھا کہ ہمارے سوچنے کا ڈھنگ کتنا الگ الگ ہے۔ پھر بھی میں سمجھتا ہوں ہم اچھے دوست ثابت ہو سکتے ہیں؟‘‘
’’یہ کہنا تو کافی مشکل ہے لیکن تمہاری پرابلم کچھ اور ہے جس نے تم کو تنگ کر رکھا ہے؟‘‘
یوں لگا کہ اس نے میرے اندر جھانک جان لیا ہو کہ میں زندگی کے دوراہے پر بے یارو مدد گار کھڑا ہر راہ گیرکے ساتھ قدم اُٹھانے کو تیا رہوں۔یکبارگی میرے بدن سے کپڑے غائب ہو گئے اور میں اس کے سامنے برہنہ بیٹھا رحم کی بھیک طلب کر رہا ہوں۔ایک مرتبہ پھر مجھے گلاس کی ضرورت محسوس ہوئی اور میں ایک ہی گھونٹ میں تین چوتھائی گلاس صاف کر گیا۔کیرلؔ کاچہرہ ہمدردی سے بھر گیا لیکن لبوں پر پھیلی ہوئی پیچیدہ مسکراہٹ پھانس بن کر میرے اندر اتر گئی۔فاصلے ہمارے درمیان از سرِ نو پیدا ہو گئے اور ہم پھر سے اجنبی بن گئے ۔کیرلؔ کو احساس ہو ا تو برجستہ بول اٹھی:
’’اس دنیا میں کوئی بھی شخص ایسا نہیں جس کے ہاں پرابلم نہ ہو۔میرے ہاں بھی وقت بے وقت ایک برابلم پیدا ہوتی ہے۔ وہ مجھے سخت پریشان کرتی ہے۔۔۔ مگر دنیا میں ہر پرابلم کا حل بھی تو موجود ہے نا؟‘‘اس کی پرابلم کو سمجھنے کی خاطر مجھے زیادہ مغز پچی نہ کرنی پڑی تھی۔وہ اس خشک ندی کی طرح تھی جو اپنی خشکی سے تنگ آ کرہر سمت سے رواں پانی کو خود میں سمو کر اپنی پیاس بجھانا چاہتی ہے اور یوں وہ خود کو سیراب کر لیتی ہے۔میں اسے ذہن نشین کرانا چاہتاتھا کہ آدمی کتنا بھی تنہا پسند کیوں نہ ہو،اس نے کتنی بھی دیواریں اپنے ارد گرد کیوں نہ کھڑی کرر کھی ہوں اسے دوسروں کاسہارا لینا ہی پڑتا ہے لیکن اس نے مجھے لب کشائی کا موقع ہی نہ دیا۔صوفے سے اٹھ کر اس نے کمرے کی بڑی بتی بجھا دی صرف سپاٹ لائٹ جلتی رہ گئی کمرے کی شخصیت بدلتے ہی مدھم روشنی میں ہر شے کا رنگ روپ بدل گیا لیکن ماحول نکھر آیا اور وہ دھیرے دھیرے جذبات کو ابھارنے لگا ۔اس نے ہائی فائی یونٹ کا بٹن دبایا تو الگ الگ جگہ پر دھرے ہوئے اسپیکروں سے موسیقی کی آواز ابھرنے لگی ۔گانے کے بول فضا میں جادو جگانے لگے۔"ALL YOU NEED IS LOVE.... LOVE."
موسیقی کی تھرتھراہٹ پر اس کے شریر کا انگ انگ جھوم اٹھا ۔پھروہ ہولے ہولے جھومتی ہوئی ادائے خاص سے تن سے ایک کے بعد دوسرا کپڑا الگ کر کے اسے ہوا میں لہراتی چلی گئی۔ہلکی روشنی میں بھی اس کا گورا بے داغ بدن مقناطیس بنا مجھے اپنی طرف کھنچتارہا۔ وہ مستی میں ڈوبی ، آنکھیں موندے بدن کے الگ الگ حصے پر ہاتھ پھیرتی رہی۔ میں تیزی سے اٹھا اور قمیض کے بٹن کھولتا ہوا اسے اپنی بانہوں میں بھر لیا۔ پھر ہمارے ہونٹ، ہاتھ اور بدن پیار کی زبان میں بات کرنے لگے۔ہم ایک دوسرے کے واسطے لاکھ اجنبی سہی؟ ہمارے سوچنے کا ڈھنگ بھی الگ الگ سہی؟ مگر پیار کرنے کا ڈھنگ ایک جیسا تھے۔ مجھے ذرا بھی احساس نہ ہوا کہ وہ دنیا کے کسی الگ خطے ، الگ نسل اور الگ قوم سے تعلق رکھتی ہے۔وہ دیوانہ وار میرے چہرے پر ہونٹوں کے نشان چھوڑرہی تھی،جب کہ میرے ہاتھ اس کے بدن کی پیمائش میں مصروف تھے۔ پھر میں نے ایک ہی جھٹکے سے اسے بازوؤں میں اٹھالیا اور اس کے ہونٹ اپنے ہونٹوں میں مقید کر کے اس کی خواب گاہ کی طرف بڑھ گیا۔
صبح آنکھ کھلی تو کافی دیر ہو چکی تھی ۔کھڑکی پر پھیلے ہوئے پردے کے پیچھے دن کا اجالااپنی عظمت کا اعلان کر رہاتھا۔پردے کی رنگت بھی اس کی شدت سے بدلی بدلی سی تھی۔ کیرلؔ ابھی تک بے خبر سو رہی تھی۔اس نے مجھے اپنی بانہوں میں اتنی مضبوطی سے جکڑ رکھا تھا کہ جیسے اسے ڈر ہو کہ میں کچھ ہی دیر میں اس سے جدا ہونے والا ہوں اور کبھی لوٹ کر نہیں آؤں گا؟ لیکن اس کے چہرے پر ڈھیروں سکون تھا،طمانیت تھی، قرار تھا، میں بھی خود کوہلکا محسوس کر رہا تھا اور میری آتما بھی خوش تھی۔میں نے خود کو کیرلؔ سے الگ کر کے اٹھنا چاہا تو اس کی گرفت اور بھی مضبوط ہو گئی۔ پھر اس نے میری پیٹھ پر ناخن کھرونچنے شروع کر دیئے۔ میرے بدن میں جھر جھری ہوئی تو چیونٹیوں نے مونہہ کھول ڈالا اور سوئیاں سینے میں چبھنے لگیں۔ ۔ بس پھر کیاتھا ۔ہم ہمارے بدن اور ہمارے دماغ بھرے اجالے میں ایک دوسرے کو مزید جاننے میں جُت گئے۔
چائے کا پیالہ ختم کر کے جب میں اس کے فلیٹ سے چلنے کو تیار تھا تو کیرل ؔ شب خوابی کا گاؤن پہنے میرے قریب چلی آئی۔ گہری نظروں سے دیکھا جیسے میں اس کے نزدیک نہایت ہی اہم شخص ہوں اور ہمارے درمیان رات اور دن میں جو بھی ہوا وہ بھی اپنی جگہ نہایت اہم تھا۔اس نے دھیمے سے کہا:
’’کل رات تم نے کہا تھا ،ہم اچھے دوست ثابت ہو سکتے ہیں؟‘‘
’’ہاں، کہا تو تھا۔‘‘
’’میں بھی اب ویسا ہی محسوس کر رہی ہوں۔‘‘
میری آنکھوں کی روشنی تیز ہو گئی اور میں نے اس کے ہاتھ اپنے ہاتھوں میں لے لیے۔اکیلا پن دور ہوتا دکھائی دیا۔سارا جگت مسکرا اٹھا اور میں نے خود کو ہمالیہ کی چوٹی پر کھڑا پایا۔
’’لیکن میری ایک شرط ہے؟‘‘
’’کیا؟‘‘
’’میں تم سے تب ہی ملنا پسند کروں گی، جب میں چاہوں گی؟‘‘
’’ورنہ؟‘‘
’’ورنہ نہیں۔‘‘اس نے قطعیت کے ساتھ کہا۔
میں چکرا گیا۔میرے ہاتھ خود بخود اس کے ہاتھوں سے الگ ہو گئے لیکن کئی سوال میرے وجود پر پھیل گئے۔ان میں طنز بھی تھا اور سمجھ بوجھ کا عنصر بھی ۔فوراً صوفے سے کوٹ اٹھایا اور بولا:
کیرلؔ تمہاری ٹریجڈی بڑی عجیب ہے جس نے تم کو سخت تنگ کر رکھا ہے۔؟‘‘
وہ محتاط ہو گئی۔
’’تمہیں مرد ذات سے سخت نفرت ہے۔ تمہارے بس میں ہو تو تم اس سے بات بھی نہ کرو؟‘‘
وہ محتاط تو تھی، سنجیدہ بھی ہوگئی۔
’’لیکن تم کو مرد کی ضرورت بھی وقت بے وقت رہتی ہے۔اس کے بغیر تم رہ نہیں سکتیں۔‘‘
میرا انکشاف اس کے واسطے کڑوی گولی ثابت ہوا۔چہرے پر ہر آتے جاتے رنگ سے عیاں تھا کہ میں نے اس کی شخصیت کوپارہ پارہ کر ڈالا ہے۔
’’میں اکیلا ضرور ہوں لیکن اخلاق سے اتنا گرا ہوا نہیں کہ تم مجھ کو ایک سٹڈ(STUD) کی طرح استعمال کرتی رہو۔‘‘
کیرلؔ پتھرا کر رہ گئی۔
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سنا ہے کسی کے سر پر بھوت سوار ہو گیا تو بھوت نکالنے والوں نے مار مار کر بھوت کا بھرکس نکال دیااور پوچھا:
’’بتاؤ اب۔تم کون ہو؟‘‘
’’ٹھہرو، مجھے مارنا بند کرو، میں ابھی بتاتا ہوں‘‘
’’بتاؤ،جلدی بتاؤ!‘‘
’’میں ایک کہانی کار ہوں۔۔۔
ٹھہرو، مجھے مارو نہیں، میں سچ بول رہا ہوں۔۔۔
میں ایک کہانی کار ہوں اور یہ شخص میری ایک کہانی کاکردار ہے۔۔۔ٹھہرو،مارو نہیں۔
میں ابھی اس کے سر نکل جاتا ہوں۔‘‘
اور سنا ہے جب کہانی کار اپنے کردار کے سر میں سے نکل گیا اور کردار نے آنکھیں کھولیں تو پوچھنے لگا:
’میں کون ہوں؟‘‘
(جوگندر پال کے مضمون نئے افسانے کا تارو پود سے اقتباس)