اقبال حسن آزاد(مونگیر)
یہ قصہ سن انیس سو چھیالیس کا ہے۔
جمن میاں کی بیچ بازار میں ایک چلتی پھرتی ٹیلرنگ شاپ تھی۔ان کی دکان پر کئی کاریگر کام کرتے تھے۔خودجمن میاں گردن میں فیتہ لٹکائے رہتے۔شوکت میاں کاکام کپڑوں کو کاٹنا تھا۔رحمت میاں آنکھوں پر موٹا چشمہ لگائے سوئی دھاگے سے دستکاری میں مشغول رہتے۔شکور میاں مشین چلاتے تھے اور مشین کی موسیقی ریزآواز کے ساتھ ساتھ ان کا سر بھی ہلتا رہتا تھا۔وہ ثریا کے عاشقوں میں تھے اور اس کے گائے ہوئے گیت گنگناتے رہتے۔ جمن میاں کے صاحبزادے اسلم میاں دیکھتے کہ شوکت میاں چٹائی پر بیٹھے بیٹھے بڑی سرعت سے قینچی چلاتے اور پھر قینچی کو پیروں تلے داب کر کٹے ہوئے کپڑوں کو موڑتے اور جب سوئی دھاگے سے ٹانکے لگاتے لگاتے رحمت میاں کی انگلیاں درد کرنے لگتیں تو سوئی کو اپنی ٹوپی میں اُڑس کر اُنگلیاں چٹخاتے۔اس وقت اسلم میاں کی سمجھ میں یہ نہیں آتا کہ شوکت میاں قینچی کو پیروں کے نیچے کیوں رکھتے ہیں او ررحمت میاں سوئی کو سر کے اوپر کیوں ؟ایک روز انہوں نے اپنے والد صاحب سے یہ سوال کیا تو انہوں نہایت سنجیدگی کے ساتھ جواب دیا۔
’’وہ اس لئے کہ کاٹنے والے کی جگہ پیر کے نیچے ہوتی ہے اور جوڑنے والے کی سر کے اوپر۔‘‘
اسلم میاں کو بچپن سے پڑھنے لکھنے سے لگاؤ تھا۔پڑوس کے لالہ شنبھو ناتھ کا بیٹا پردیپ روز صبح بستہ اُٹھائے مدرسے کی جانب جاتا دکھائی دیتا۔ شمنبھو ناتھ ‘اسلم میاں کے والد جمن میاں کے بچپن کے دوست تھے۔اسلم میاں نے بھی اماں سے کہہ سن کر اپنا نام بھی مدرسے میں لکھوا لیا۔اب وہ اور پردیپ گلے میں بانہیں ڈالے مدرسے جاتے اور اسی طرح واپس آتے۔
وقت کسی سبک رودریا کی طرح بہتا رہا اور اس طرح کئی سال گزر گئے۔اب اسلم میاں بیس برس کے نوجوان تھے اور مقامی کالج میں ایف۔اے کے طالب علم تھے۔دیپک ابھی بھی ان کا کلاس فیلو تھا۔بھارت چھوڑ دو تحریک اپنے تکمیلی مرحلے میں تھی اور ہندوستان کا بٹوارا ہونا طے پا چکا تھا۔پرجوش نعرے سن سن کر نوجوان اسلم میاں کے جوان خون کی روانی بھی تیز ہو گئی۔مسلمانوں میں خاندان کے خاندان ترک وطن کر رہے تھے۔کئی مسلم لیگی آزادی سے قبل ہی کراچی منتقل ہو گئے تھے کیونکہ وہ قائد اعظم کو پاکستانی فوجوں کی سلامی لیتے ہوئے دیکھنا چاہتے تھے۔اسلم میاں نے بھی اپنے والد سے کہنا شروع کیا۔
’’ابا میاں!ہمارے سب دینی بھائی جا رہے ہیں۔کیوں نہ ہم لوگ بھی․․․․․‘‘جمن میاں بھڑک اُٹھے۔
’’کہاں کا دین اور کیسے بھائی۔یہ سب سگ زمانہ ہیں۔اپنی جان بچانے اور ایک بہتر مستقبل کی تلاش میں یہ اپنا ملک چھوڑے جا رہے ہیں۔‘‘
’’لیکن ابا میاں!ہجرت تو سنت ہے۔‘‘
’’ہاں وہ ہجرت جو دین و ایمان کی سرفرازی کے لئے کی جائے۔اپنی نفسانی خواہشوں سے مجبور ہو کر نہیں اور یاد رکھو!ترک وطن کرنے والوں کو وطن کی مٹی بد دعا دیتی ہے۔‘‘
اسلم میاں اماں کو ٹٹولتے۔مگر وہ تو اپنے شوہر کا سایہ تھیں۔کہنے لگیں۔
’’کیا تم اپنا شہر چھوڑ سکتے ہو‘اپنا ملک چھوڑ سکتے ہو۔ اپنے بچپن کے دوستوں کو چھوڑ سکتے ہو۔ہمیں چھوڑ سکتے ہو؟اگر ہاں!تو پھر جہاں جی چاہے جا سکتے ہو۔‘‘۔۔۔۔۔۔۔اسلم میاں خاموش رہ گئے۔
ملی جلی آبادی والا یہ علاقہ فرقہ وارانہ ہم آہنگی اور گنگا جمنی تہذیب کی جیتی جاگتی مثال تھا اس لئے جمن میاں کے دل میں کبھی بھی ترک وطن کی خواہش پیدا نہیں ہوئی۔مگر جیسے جیسے آزادی کی صبح قریب آتی جا رہی تھی ویسے ویسے فرقہ وارانہ فسادات کی سیاہی پھیلتی جاتی تھی ۔پنجاب کے شہروں سے لے کر بمبئی اور نواکھالی کے ساتھ ساتھ جب جموئی اور بہار شریف آگئے تو جمن میاں کے پائے استقامت میں بھی لغزش آگئی۔انہیں لگا کہ ان کا بیٹا سچ ہی کہتا ہے۔اس ملک میں مسلمان محفوظ نہیں رہے۔ ایک روز انہوں نے دکان کھولی تو معلوم ہوا کہ شوکت میاں مع اہل و عیال جلد ظہور پذیر ہونے والی مملکت خداداد کوکوچ کر گئے۔بقیہ کاریگر بھی پر تول رہے تھے۔صرف رحمت میاں کا اب بھی یہ خیال تھا کہ وطن کی محبت جزو ایمان ہے۔
کئی روز سے شہر کی فضا اکھڑی ہوئی تھی۔اکا دکا نا خوشگوارواقعات رو نما ہونے لگے۔ایک مسلمان رکشے والے کو ہندوؤں کے محلے میں پیٹ دیا گیا جبکہ ایک ہندو حلوائی کی دکان پر کچھ شر پسندوں نے ہنگامہ آرائی کی۔گورے افسروں کی ٹکڑیاں شہر میں گشت کرنے لگیں۔مگر جس جس علاقے میں گورے پہنچتے وہاں ماحول کشیدہ ہو جاتا۔جمن میاں نے چپکے چپکے روانگی کی تیاری شروع کر دی ۔وہ لوگ اب تک نکل گئے ہوتے لیکن دکان کا کوئی مناسب انتظام نہیں ہو پارہا تھا۔حالانکہ اس کا سیدھا اثر سکینہ کی زندگی پر پڑتا کیونکہ اس کی نسبت اس کے خالہ زاد بھائی سے طے ہو چکی تھی اور جہیز کا سارا سامان بھی مہیا کیا جا چکا تھا۔مگر اس کے ہونے والے سسر نے کہیں جانے کے خیال کو یکسر مسترد کر دیا تھا۔
’’خیر!جو ہوگا دیکھا جائے گا۔اگر خدا نے چاہا تو وہاں اس کے لئے اور بہتر رشتہ مل جائے گا۔‘‘جمن میاں نے اپنی بیگم کو ڈھارس بندھائی۔
وہ لوگ اب تک نکل گئے ہوتے لیکن جمن میاں کے لئے بڑی مشکل یہ تھی کہ دکا ن اور مکان کا کوئی معتبر اور مستقل انتظام نہیں ہو پارہا تھا۔ان کی گلی میں ان کے مکان کو چھوڑ کر صرف ایک گھر اور مسلمان کا تھا۔ان کے گھر کے بالکل سامنے نواب سید حشمت ا لدولہ کی عظیم الشان حویلی تھی جس کا بلند و بالا دروازہ عموماً بند رہتا تھا۔حویلی میں نواب صاحب اپنے چند خادموں کے ساتھ سکونت پذیر تھے۔کوئی اولاد ان کے پاس نہ تھی۔جمعہ کے روز یا عیدین کی نماز ادا کرنے نواب صاحب دو گھوڑوں کی بگھی پر سوار ململ کا کرتہ اور تنگ مہری کا پاجامہ زیب تن کئے جامع مسجد جاتے ۔سر پر دو پلی ٹوپی اور پیروں میں سلیم شاہی جوتی ہوتی۔ سردیوں میں گرم شیروانی کا اضافہ ہو جاتا۔محلے والوں سے ان کا کوئی ربط ضبط نہ تھا۔البتہ ان کے دولت کدے پر شہر کے رؤسا اور انگریز افسران کی آمد و رفت رہا کرتی۔ فٹن اورموٹر گاڑیاں ان کے دروازے کی رونق میں اضافہ کرتیں۔نواب صاحب کے کپڑے جمن میاں ہی کی دکان میں سلتے ۔جب حویلی سے بلاوا آتا تو وہ فیتہ لے کر حاضر ہو جاتے۔نواب صاحب مشین کی سلائی پسند نہیں فرماتے تھے‘ہمیشہ ہاتھ کا سیا کپڑا پہنتے تھے گو اس کی مزدوری مشین کے مقابلے میں دوگنی تھی۔
ایک دن صبح صبح شمبھو ناتھ نے جمن میاں کا دروازہ کھٹکھٹایا۔’’جمن میاں!‘‘انہوں نے سرگوشی کی۔
’’ سنا ہے آج حملہ ہونے والا ہے۔باہر سے دنگائی بلائے گئے ہیں۔کل رات کئی ٹکڑیاں پہنچی ہیں اور وہ سبھی شہر کے بڑے لوگوں کے مہمان بنے ہوئے ہیں۔بہتر ہو گا کہ آپ لوگ کسی محفوظ مقام پر چلے جائیں۔ہم لوگ تو آپ کے ساتھ ہیں مگر ان پاگل فسادیوں کے آگے بھلا کس کا بس چلے گا۔‘‘
جمن میاں کو جیسے سانپ سونگھ گیا۔خوامخواہ مکان دکان کے چکر میں رکے رہے۔جان بچے تو سب کچھ ہے۔انہیں اپنے حلق میں کانٹے چبھتے ہوئے محسوس ہوئے۔ابھی یہ باتیں ہو ہی رہی تھیں کے نواب صاحب کا ایک ملازم تیز تیز قدموں سے آتا دکھائی دیا۔اسے دیکھ کر شمبھو ناتھ اپنے گھر کے اندر چلے گئے۔ملازم نے قریب آکر کہا۔
’’جمن میاں!آپ کو نواب صاحب بلا رہے ہیں۔‘‘جمن میاں نے بیٹے کو آواز دی کہ وہ آکر دروازہ اندر سے بند کر لے اور خود نواب صاحب کے ملازم کے ساتھ ہو لئے۔نواب صاحب آرام کرسی پر ‘دونوں ہاتھوں کو گود میں رکھے نیم دراز تھے۔انہوں نے وقت برباد کئے بغیر کہنا شروع کیا۔
’’جمن میاں!آپ کو تو خبر لگ ہی چکی ہو گی۔حالات خراب ہو گئے ہیں۔‘‘
’’جی حضور!‘‘جمن میاں نے سر جھکا کر جواب دیا۔نواب صاحب نے کہا۔
’’میرے خیال میں محلے کے سارے مسلمان یہاں آجائیں۔عورتیں اور بچے زنان خانے اور مرد لوگ اوپری منزل پر۔اللہ ہماری حفاظت کرے گا۔آپ سب کو خبر کر دیں۔‘‘
جمن میاں الٹے قدموں لوٹے۔اور پھر دیکھتے ہی دیکھتے اہل ایمان نواب صاحب کی حویلی میں جمع ہو گئے۔جمن میاں کی بیوی نے زیور اور نقدی تو اپنے پاس رکھ لی اور سکینہ کے جہیز کی حفاظت اوپر والے پر سونپ دی۔جمن میاں نے دروازے میں تالا لگایا اور پھر اپنے گھر کو یوں دیکھا جیسے آخری بار دیکھ رہے ہوں۔انہیں خیال آیا کہ کنجی لالہ کو سونپ دیں مگر دل نہ مانا۔
سارا دن بے چینی کے عالم میں گزرا۔نواب صاحب نے سبھوں کے کھانے پینے کانظم کر رکھا تھا ۔ شیر خوار بچوں کے لئے دودھ بھی مہیا تھا۔اس قدر بھیڑ بھاڑ کے باوجود چہار جانب خاموشی چھائی ہوئی تھی۔اگر کبھی کسی چھوٹے بچے کے رونے کی آوازاٹھتی تواسے فوراً ہی چپ کرانے کی کوشش کی جاتی ۔
دن تو جیسے تیسے گزر گیا مگر رات اپنے ساتھ بھیانک اندیشے لے کر آئی۔پوری حویلی کو اندھیرے کے حوالے کر دیا گیا تھا۔ یوں رات بھی بالکل تاریک تھی۔ ایسا لگتا تھا جیسے روشنی کا وجود ختم ہو چکا ہے۔ہر طرف اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔اندر ‘باہر ‘اوپر‘نیچے‘دل و دماغ میں ․․․․․بس اندھیرا ہی اندھیرا تھا۔سبھی لوگ حویلی کی چھت پر دم سادھے پڑے تھے۔کبھی کبھی کوئی شخص جذبہء تجسس سے مجبور ہو کر منڈیر سے جھانکنے کی کوشش کرتا تو فوراً کوئی دوسرا شخص اس کا دامن کھینچتا اور پھر سر گوشیاں گشت کرنے لگتیں۔محلے کے ایک بزرگ نے دھیمی آواز میں نواب صاحب سے کہا۔’’حضور!اگر آپ اپنی بندوق بھی․․․․․‘‘نواب صاحب نے خشمگیں نگاہوں سے ان کی جانب دیکھا اور وہ بزرگ خاموش رہ گئے۔
اچانک سامنے گلی سے کچھ آوازیں اُبھریں‘دبی دبی سی ‘اور ہلکی سی روشنی بھی آئی۔جمن میاں سے نہ رہا گیا۔انہوں نے جھانک کر دیکھا اور جی دھک سے ہو کر رہ گیا۔ان کے گھر کے سامنے کچھ سائے حرکت کرتے دکھائی دیئے۔ پھر کچھ ایسی آوازیں آئیں جیسے ہتھوڑے سے ان کے گھر کا تالا توڑا جا رہاہو۔جمن میاں دم بخود رہ گئے۔کسی نے ان کا دامن کھینچا مگر وہ ٹس سے مس نہ ہوئے۔پھر دامن کھینچنے والے نے بھی جھانک کر دیکھا․․․․․اور دیکھتا رہ گیا۔اس کے بعد کئی گردنیں منڈیر پر ٹک گئیں۔۔ادھر تالا ٹوٹ چکا تھا اور وہ سائے اندر داخل ہو چکے تھے۔پھر تھوڑی دیر بعد ان سبھوں نے حیرت بھری نگاہوں سے دیکھا کہ جمن میاں کے گھر کا سارا سامان لوٹا جا رہا ہے۔جمن میاں کی آنکھوں سے آنسو نکل پڑے۔وہ بے بسی کے ساتھ یہ سارا تماشا دیکھتے رہے۔
کالی اندھیری رات کسی بے کس بیمار کی طرح جاگ رہی تھی۔جب بارہ کا گجر بجا تو دور سے بہت تیز روشنی آتی دکھائی دی اور ساتھ ہی ساتھ ہر ہر مہادیو کی دل دہلانے والی آوازیں بھی سنائی دینے لگیں۔چھت پر موجود سبھی لوگوں کے دل بیٹھ گئے اور وہ چھت پر سینے کے بل لیٹ کر دعائیں پڑھنے لگے۔روشنی قریب آتی گئی‘آوازیں بلند ہوتی گئیں مگر کسی میں اتنی ہمت نہ تھی کہ نیچے جھانک کر دیکھے کہ کیا ہو رہا ہے۔گلی میں شعلوں کی لپٹ دکھائی دی تو سبھوں کی سمجھ میں آیا کہ گھروں میں آگ لگائی جا رہی ہے۔ستر برس کے نواب صاحب جو ان سبھوں کے درمیان موجود تھے ‘اچانک اُٹھ کھڑے ہوئے اور تیزی سے سیڑھیاں اُتر گئے۔تھوڑی دیر بعد جب وہ لوٹے تو ان کے ہاتھ میں بھری ہوئی بندوق تھی۔انہوں نے سیدھے کھڑے ہو کر زور سے نعرہء تکبیر بلند کیا اور بھیڑ کی جانب شست باندھ کر فائر کر دیا۔فسادی جن کے ہاتھوں میں بھالے‘گڑاسے اور ترشول تھے ‘گولی کی آواز سن کر گھبرا گئے اور ان کے درمیان بھگدڑ مچ گئی۔نواب صاحب نے پے در پے کئی گولیاں داغ دیں۔فسادیوں کے درمیان چیخیں اُبھریں اور ان کے پیر اُکھڑ گئے۔یہ دیکھ کر چھت پر موجود لوگوں کی ہمت بندھی اور وہ بھی زور زور سے نعرہء تکبیر بلند کرنے لگے۔
دیکھتے ہی دیکھتے پوری گلی خالی ہو گئی۔اس کے بعد پولس کی گاڑیاں دندنانے لگیں۔رات اسی طرح گزر گئی۔
دوسرے روز سرکاری لاریاں آئیں اور سبھی لوگ عارضی کیمپ میں منتقل ہو گئے۔ایک رات فسادیوں نے کیمپ پر بھی حملہ کیا مگر کامیاب نہ ہو سکے۔امید و بیم کے ساتھ جھولتے ہوئے ‘موت و حیات کی کشمکش میں ایک ہفتہ گزر گیا۔شہر میں دھیرے دھیرے امن و امان قائم ہونے لگا۔فساد کا چڑھا ہوا بخار اُترنے لگا۔لوگ اپنے اپنے گھروں کو لوٹنے لگے۔جمن میاں کے لبوں پر جیسے تالا لگ گیا تھا۔جب ان کی بیوی ان سے گھر چلنے کو کہتیں تو وہ ایک ٹھنڈی سانس بھر کر کہتے۔’’گھر!کون سا گھر؟وہ گھر جسے ہماری آنکھوں کے سامنے لوٹ لیا گیا اور بلوائیوں نے جس میں آگ لگا دی۔اب تو ہمیں ایک نئی جگہ نیا گھر بنانا ہے۔‘‘
’’پھر بھی۔جانے سے پہلے ایک نظر اپنے گھر کو دیکھ لیتی۔‘‘بیوی کے ا لتجا آمیز لہجے نے جمن میاں کو پگھلا دیا۔
’’ٹھیک ہے۔ تم کہتی ہو تو چلے چلتے ہیں۔مگر اب وہاں جا کر کرنا کیاہے۔ہو سکتا اس پر اب کسی اور کا قبضہ ہو۔‘‘
دن اچھی طرح نکل آیا تو جمن میاں بیوی بچوں کے ساتھ اپنے محلے میں داخل ہوئے۔ انہوں نے دیکھا کہ دیواریں جلنے کے باعث سیاہ ہو چکی تھیں۔صدر دروازے پر تالا لگا ہوا تھا۔مگر یہ وہ تالا نہ تھا جو وہ لگا کر گئے تھے۔انہیں یاد آیا۔اسے تو ․․․․․وہ زیادہ دیر تک وہاں نہیں رک سکے اور جانے کے لئے مڑے۔اچانک ان کے کانوں میں ایک جانی پہچانی آواز آئی۔’’جمن میاں !آپ لوگ آ گئے۔ شکر ہے بھگوان کا۔‘‘شمبھو ناتھ دونوں ہاتھ جوڑے کھڑا تھا۔ان کے جی میں آیا کہ اس ولدالحرام کو کھڑے کھڑے گولی مار دیں مگر خون کا گھونٹ پی کر رہ گئے۔اتنے میں پردیپ ہاتھوں میں کنجی لئے آتا دکھائی دیا۔
’’جمن میاں!آپ کے گھر کا تالا تو ٹوٹ گیا۔میں نے اپنا تالا لگا دیا تھا۔ لیجیے اپنا گھر سنبھالیے۔‘‘
جمن میاں کی سمجھ میں کچھ نہیں آرہا تھا کہ یہ سب کیا ہو رہا ہے۔انہوں نے کانپتے ہاتھوں سے کنجی سنبھالی ‘گھر کا دروازہ کھولا اور اندر داخل ہو گئے۔
ان کی آنکھیں پھٹی کی پھٹی رہ گئیں۔گھر کا سارا سامان بالکل اسی طرح رکھا ہوا تھا جیسا وہ چھوڑ کر گئے تھے۔
انہوں نے حیرت زدہ نگاہوں سے شمبھو ناتھ کی طرف دیکھا۔وہ شرمندہ سا کھڑا تھا۔
’’جمن میاں!ہم لوگوں نے تمہارا سامان تو بچا لیا مگر تمہارے گھر کو جلنے سے نہ بچا سکے۔معاف کر دینا۔‘‘جمن میاں کی آنکھیں آنسوؤں سے ڈبڈبا گئیں اور وہ بے اختیار ہو کرشمبھو ناتھ سے لپٹ گئے۔