نذیر فتح پوری(پونہ)
اپنے ہی پاس ہے جو جنسِ گراں باقی ہے
ہاٹ سب بند ہوئے دل کی دوکاں باقی ہے
حادثوں نے تو بہت شور مچایا لیکن
دل کی بستی میں محبت کا مکاں باقی ہے
شب کا ہر نقش تو سورج نے مٹا ہی ڈالا
شہر میں بس مِری آہوں کا دھواں باقی ہے
خواب تو آج بھی صف باندھے کھڑے ہیں لیکن
اپنی ہی آنکھ میں اب نیند کہاں باقی ہے
اس کے بجھنے کا ابھی کیسے کروگے اعلان
جس کی پلکوں پہ ابھی کاہ کشاں باقی ہے
اور اب کتنا مٹانا ہے مجھے خود کو یہاں
کتنا تقدیر میں اب کارِ زیاں باقی ہے
میں نے جو ماضی کے اوراق پہ لکھی تھی نذیرؔ
اس کہانی میں مِری عمرِ رواں باقی ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
ہے جب سے بند کوچۂ جاناں مرے لیے
وا ہو گئے ہیں کتنے بیاباں مرے لیے
آہیں تری ہیں میرے لیے آگ کی صلیب
آنسو ترے ہیں موجۂ طوفاں مرے لیے
میں ہر طرح تھا پیار کے مرہم کا مستحق
لائے ہیں یار لوگ نمکداں مرے لیے
جس نے حقیقتوں کو فسانہ بنا دیا
اب ڈھونڈتا پھرے ہے وہ عنواں مرے لیے
دل کی زمیں پہ سبزے کی چادر تنی رہی
جب جب کیا بہار نے احساں مرے لیے
میری رگوں میں کون جلا ہے لہو سمان
کس نے کیا ہے نظمِ چراغاں مرے لیے
میری طرح جو مجھ کو سنائے غزل نذیرؔ
اب ہوگا کون ایسا سخن داں مرے لیے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
کھول رہی ہے زخموں کی قندیل ہوا
کردے گی اب زخموں کو تبدیل ہوا
تیرے ہاتھ میں رنگوں کی تقسیم تمام
تیرے ذمے موسم کی ترسیل ہوا
قید ہیں سارے میری غزل کی سانسوں میں
پربت، جھرنا، وادی، جگنو، جھیل ہوا
لوٹے گی تو آگ لگا کر لوٹے گی
لے گئی بجھتے شعلوں کی قندیل ہوا
دھرتی کب تک بوجھ سہے گی یار نذیرؔ
کب تک دے گی بوڑھے پیڑ کو ڈھیل ہوا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
آگئے کارواں اس کی تحویل میں
رہزنی قید تھی جس کی زنبیل میں
ہر برس بس یہی سوچ کر رہ گئے
گاؤں جائیں گے ہم اب کے تعطیل میں
آخری سین تھا، وہ بھی رخصت ہوا
عکس باقی نہیں اب کوئی رِیل میں
دائرے قید اس کو نہیں کر سکے
ایک سایہ لرزتا رہا جھیل میں
روشنی بانٹنے وہ چلا ہے نذیرؔ
تیل باقی نہیں جس کی قندیل میں