شہناز نبیؔ(کولکتہ)
گم ہوئی کب کی زمیں، کب آسمان کھو گیا
ہم نے پسارے پر ذرا، سارا جہان کھو گیا
کس شہریت کی بات ہم کرتے وفا کے شہر میں
جس کی گواہی ا ہم تھی وہ مہر بان کھو گیا
کیا جانے کتنی بار ہم گذرے سفر کے جوش میں
منزل تمام مٹ گئی، اک اک نشان کھو گیا
لو اب کے پھر وہی ہوا جس کا تھا اندیشہ ہمیں
دیوار و در ملے ہی تھے کہ سائبا ن کھو گیا
پھر یوں ہوا کہ خود بخود لہریں پکڑ میں آگئیں
جس پر بھروسہ تھا بہت و ہ با دبان کھو گیا
اب دوپہر کی نیند کو آنکھیں ترس کے رہ گئیں
رخصت ہویئں وہ فرصتیں، وہ اطمینان کھو گیا
صحراؤں کے اصول بھی ہوتے ہیں مختلف ذرا
لیلائے زر کی کھوج میں اک اک جوان کھو گیا
اپنی خموشی خود کو بھی تڑپاتی ہے پہ کیا کریں
اس دل کو جس پہ ناز تھا وہ ہم زبان کھو گیا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
مسکنے لگی ہے یہاں اور وہاں
سئیے چادرِ یاد کوئی کہاں
میں اپنی نگاہوں میں گر جاؤں گی
اگر اشک بننے لگیں گے زباں
ہمیں تو بہاروں سے وحشت رہی
سیانوں کو ڈستا ہے خوفِ خزاں
و ہ تھا نکتہٌ انجما دِ و فا
جسے ہم سمجھتے تھے آبِ رواں
تھکن اب کے کھلنے نہیں دیتی پر
نگاہوں سے ناپیں زماں اور مکاں
بہی لکھتا جاتا ہے وہ عشق کی
ہمیں تو برابر ہے سود و زیاں
وصیت یہ کی قاضیٌ شہر نے
سلامت رہے نہ کو ئی فکر داں
مرا سر سجانے کی کوشش نہ کر
اسے تو بلاتی ہے نوکِ سناں
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
جلدی میں کچھ تو وہ بھی تھا ، عجلت میں ہم بھی تھے
اس کو بھی کچھ جنون سا، وحشت میں ہم بھی تھے
مدت کے بعد رونے کی آخر فضا بنی
کچھ دل شکستہ وہ بھی تھا، فرصت میں ہم بھی تھے
بے اعتباریاں ہی جدا ئی کا ہیں سبب
اس کو اگر تھا خوف تو دہشت میں ہم بھی تھے
عیاریاں بنا کسی کوشش کے آگئیں
آخر کو شہر زادوں کی صحبت میں ہم بھی تھے
اچھا ہوا کسی نے بھی رکھا نہ ہم کو یا د
لوگوں کو بھول جانے کی عادت میں ہم بھی تھے
کس دل جلے نے موڑدیا منزلوں کا ر خ
رستوں کے اختصار سے کلفت میں ہم بھی تھے
اب تو شریکِ بزم وہ روشن دماغ ہے
کل تک تو نا شناسی کی ظلمت میں ہم بھی تھے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
پھر یوں ہوا کہ طبقے بھی طبقوں میں بٹ گئے
وہ زعمِ اقتدار میں رعیت سے کٹ گئے
اب کیسا انقلاب ، کہاں سر فر و شیاں
جو جان دینے والے تھے گھر کو پلٹ گئے
پھر تو ر کا نہ کوئی جو آ یا بہاؤ میں
مدت سے تھے خموش جو لاوے وہ پھٹ گئے
کچھ ایسے ہیں کہ جن کو میسر نہیں فراز
کچھ تو بلندیوں پہ پہنچ کر بھی گھٹ گئے
آخر تماشہ گاہ سے لوٹا وہ خالی ہاتھ
بس تالیاں بجا کے تماشائی چھٹ گئے
اس بحرِ بیکراں میں کریں کس لہر کی بات
سارے بھنور سفینے سے آکر لپٹ گئے
ہم نے نمازِ عصر میں جوں ہی جھکا یا سر
جتنے غنیم تھے وہ مقابل میں ڈٹ گئے
منزل پکارتی ہے ادھر اور اِس طرف
گھر کو رواں ہوئے تھے کہ رستے سمٹ گئے
دن بھر پکارتی ہی نہیں کوئی شئے ہمیں
لے آئی گھر میں رات تو گھر سے چمٹ گئے
شاید کبھی ادھر سے گذر جائے ماہ تاب
تھے جتنے خوش خیال دریچے سے سٹ گئے
پوچھا نہ ایک پل کو بھی اس نے ہمارا حال
اور ہم ہیں کہ حدیثِ غمِ جاں تھے رٹ گئے