شہپر رسول(نئی دہلی)
پتھرائی ہوئی آنکھیں، لب خاک
بیکار ہے سب دنیا سب خاک
جو صرف فسانوں میں مشغول
اشعار کا سمجھے مطلب خاک
سیلاب ہے اشکوں کا پُرزور
آرام سے اب نیچے دب خاک
اک چاند کا، اک سورج کا کھیل
دن راکھ اڑاتے ہیں شب خاک
کب فوج اُکھڑتی ہے اے شاہ
میدان میں اُڑتی ہے کب خاک
ہر کام ہے جب شہپر اک جھوٹ
ہر نام بھی ہوجائے تب خاک
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
سلاسل اُلٹے گھمادے سبھی نیا کردے
کہ انتہاؤں کو ساری تو ابتدا کردے
وہ اپنے ساتھ لیے جارہا ہے شہر کا شہر
اُسے کہو، مرے حق میں بھی کچھ دعا کردے
ہر اک جواب کی سرحد سے وہ گزر جائے
بس اک سوال اُسے میرا آئینہ کردے
ہر ایک آہوئے صحرا سیہ نہ ہوجائے
جو کرسکے کوئی اِس دھوپ کو گھٹا کردے
ہ
ے ’’سچ میاں‘‘ سے بڑا ’’جبر خاں‘‘ تو پھر شہپر
وہ ہنستی کھیلتی بستی کو کربلا کردے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
زخم جلتے تو داغ کیا جلتے
روشنی میں چراغ کیا جلتے
بات چھڑتی نئے نشانوں کی
دل بھی جلتے، دماغ کیا جلتے
جرعۂ حرف تک نہیں روشن
یاں غزل کے ایاغ کیا جلتے
راگ، سر، بھید سب طلسماتی
لحنِ بلبل پہ زاغ کیا جلتے
شہر میں درد کی ہوا ہے بہت
یاں چراغِ فراغ کیا جلتے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
غضب تنہائی ہے سایہ نہیں ہے
ترے جیسا کوئی یکتا نہیں ہے
اتر کر پار ہم جائیں گے کیسے
ہماری راہ میں دریا نہیں ہے
دلوں پر جم گیا سکّہ سخن کا
مگر بازار میں چلتا نہیں ہے
تو آؤ! دور ہی سے دیکھتے ہیں
اگر اُس شہر کا رستہ نہیں ہے
بڑے، اچھے، نئے کو چھوڑو شہپر
کہ ان باتوں میں کچھ رکھّا نہیں ہے
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
’’ثمر چراغ‘‘ جو طاقِ شجر کو دیکھتے ہیں
ہوا کے ہاتھ بھی اپنے ہنر کو دیکھتے ہیں
یہ کس کا درد مرے دل میں آکے بیٹھ گیا
یہ کس کے اشک مری چشمِ تر کو دیکھتے ہیں
وہ اپنے وہم کی آہٹ سے چونکتے ہیں مگر
عجب نظر سے مرے ہم سفر کو دیکھتے ہیں
یہ تجربات خزانہ ہیں یا خسارہ ہیں
سنورنے ہی میں بکھرنے کے ڈر کو دیکھتے ہیں
عجب سکون سے پنجرے کی تیلیوں سے طیور
فضا میں اُڑتے ہوئے بال و پر کو دیکھتے ہیں
کئی عزیز مرے طرزِ شعر کے ہیں حریص
کئی غزال تری رہگزر کو دیکھتے ہیں