حیدر قریشی
وصل کی تفہیم،تفریقِ ہوس کرتے ہوئے
مان ہی جائے گا آخر پیش و پس کرتے ہوئے
آنکھ سے اوجھل کیا،اذنِ سفر دے کر ہمیں
اور دل میں رکھ لیا،دل کو قفس کرتے ہوئے
پختگی ایمان میں آئی ہے پہلے سے سوا
دشمنِ ایماں کو اپنا ہم نفس کرتے ہوئے
فون سے بھی اس کے ہونٹوں کا اثر آیا سدا
گھولتا ہے کان میں ،لفظوں کو، رَس کرتے ہوئے
پھیلتی جاتی ہے اس کے لمس کی دل میں دھنک
اُسنے دیکھااس طرح نظروں سے مَس کرتے ہوئے
عمر کی ناپائیداری کا بھی کچھ تو سوچتے
وصل کی تاریخ کو اگلے برس کرتے ہوئے
آخری منزل سمجھ کر ،جسم و جاں کا قافلہ
رُک رہا ہے، بند آوازِ جرس کرتے ہوئے
اب نہ وہ زورِ بیاں حیدرؔ ،نہ اب وہ رات دن
پھر شروع ہوجانا اک قصہ کو بس کرتے ہوئےـ