غزل رضوی(فلوریڈا)
گڑیوں سے کھیلنے کے زمانے گزر گئے
اب خود سے پوچھتی ہوں ، وہ لمحے کدھر گئے
سویا رہا بدن میں کسی آرزو کا دکھ
جتنے حسین خواب تھے آنکھوں میں مَر گئے
اب کے بھی اُس نے بھیجا تھا خط میں ہمیں پیام
اب کے بھی اُس کا خط نظر انداز کر گئے
شاید نئی رُتوں میں مِلیں رنج بھی نئے
مدت ہوئی جو زخم پرانے تھے ، بھر گئے
حیرت سے دیکھتا ہے ہمیں آئنہ غزلؔ
ہم خواہشِ وصال میں اتنے سنور گئے