سہیل احمد صدیقی(کراچی)
چلی ہوا بہار کی تو گُل وہ نار ہوگئے
خزاں کا ذکر کیا کریں کہ خود ہی خار ہوگئے
ہماری دُزنگاہی کا فسانہ پوچھتے ہو کیا
کبھی جو ذکر چھڑگیا ‘ وہ شعلہ بار ہو گئے
نگر نگر ‘ ڈگر ڈگر ‘ ہر اِک پہ ہے کڑی نظر
جو ننگِ شہر تھے کبھی ‘ سو شہر یار ہوگئے
عَلم بڑھا کے یک بہ یک جو میِر کاروا ں چلا
تو پیڑ سارے شہر کے بے برگ و بار ہوگئے
کبھی ہمارے نام پہ تھا اعتبارِ انں وجاں
بس ایک تم سے کیا ملے ‘ بے اعتبار ہوگئے
مہ و نجوم سے بھلا سہیلؔ کا مقابلہ ؟
نثار جس فروغ پر مہر ہزار ہوگئے
[ سہیلؔ ستارہ کائنات کا دوسرا روشن ترین ستارہ ہے جو سورج سے کئی ہزار گنا روشن تر ہے]