کاوش عباسی(کراچی)
بھول جا اُس کو بھول جا اے دل
وہ نہیں چاہتا وفا اے دل
دل نہیں اُس میں درد سا اے دل
وہ ہے بس دوست دور کا اے دل
حُسن ہے ،شوخیاں ہیں،چشمک ہے
چاہت اس کی نہیں ادااَے دل
میں ہوں یا اُس کے ملنے والے اور
وہ ہر اِک کو ہے ایک سااَے دل
مل لیے جب تو مل لیے اُس سے
ہجر اُس کا نہ پالنا اَے دل
ایسی گزری ہماری ،یار کے ساتھ
سفر اک جیسے دشت کا اَے دل
لاکھوں لمحوں میں ایک لمحہ بھی
وہ نہ تنہا ہمیں ملا اَے دل
وہ تھی بارش کہیں برستی اور
تُو تھا کھڑکی سے دیکھتا اَے دل
اُس کو بانہوں میں بھر نہ پانے کا
واقعہ جاں ہے پھونکتا اَے دل
اپنے دکھ سکھ بھی کچھ جیا ہوتا
تُو سب اُسی پر ہی مر مٹا اَے دل
وہ ہے پتھر ،تُو پاگلوں کی طرح
اُس کی جانب ہے بھاگتا اَے دل
وہ جو اب مُڑ کے دیکھتا بھی نہیں
تُو بھی کچھ اُس سے جی چرا اَے دل
تُو ہے کیوں اُس کے سلک میں لپٹا
قصہ تو ختم ہوچکا اَے دل