اقبال نوید
اگرچہ پار کاغذ کی کبھی کشتی نہیں جاتی
مگر اپنی یہ مجبوری کہ خوش فہمی نہیں جاتی
خدا جانے گریباں کس کے ہیں اور ہاتھ کس کے ہیں
اندھیرے میں کسی کی شکل پہچانی نہیں جاتی
مری خواہش ہے دُنیا کو بھی اپنے ساتھ لے آؤں
بلندی کی طرف لیکن کبھی پستی نہیں جاتی
خیالوں میں ہمیشہ اس غزل کو گنگناتا ہوں
کہ جو کاغذ کے چہرے پر کبھی لکھی نہیں جاتی
وہی رستے، وہی رونق، وہی ہیں عام سے چہرے
نویدؔ آنکھوں کی لیکن پھر بھی حیرانی نہیں جاتی