قاضی اعجاز محور(گوجرانوالہ)
کہانی مختصر لکھنی نہیں ہے
کہانی یہ مری اپنی نہیں ہے
جو گذرا ہے وہ سب کہہ ڈالنا ہے
کوئی اک بات بھی رکھنی نہیں ہے
حوالے چْپ کھڑے ہیں سامنے یوں
خموشی یہ سدا رہنی نہیں ہے
سبھی چہروں پہ اک عنواں لکھا ہے
ابھی وہ حرف بامعنی نہیں ہے
ہے پہرہ وحشتوں کا ہر گلی میں
کوئی کھڑکی نئی کھلنی نہیں ہے
محاذ آرائی دستک دے رہی ہے
یہ جنگ ہونی ہے اَب رکنی نہیں ہے
پرندہ امن کا پر تولتا ہے
کوئی زیتون کی ٹہنی نہیں ہے
زمیں کی پیاس بڑھتی جا رہی ہے
ندی اب سطح پر بہنی نہیں ہے
کوئی زندہ نہیں محورؔ یہاں پر
جو کہتا ہے ’میں ہوں ‘ یعنی نہیں ہے