کاوش پرتاپ گڈھی(دہلی)
اب کہاں ہیں وہ سایہ دار درخت
ہائے کیا کیا تھے مشکبار درخت
ایک بھی تو نہیں ہے بار آور
اور آنگن میں چار چار درخت
پھل ابھی سے لگیں گے اس میں اگر
حسن کھو دے گا آبدار درخت
باغ سے کھیلتی ہے جب آندھی
ہو ہی جاتے ہیں ہمکنار درخت
فیض اُٹھاتے جو وقت پر آتے
کس کا کرتے ہیں انتظار درخت
باغباں سے ہیں کس لیے نالاں
باغ کے فربہ و نزار درخت
وہ یقیناََ زمیں کو چومے گا
چاہے کتنا ہو پائدار درخت
باغباں قہقہے لگاتا ہے
گر پڑے سارے باردار درخت
کس کی فرقت میں رات دن کاوشؔ
روتے رہتے ہیں زار زار درخت