حسن عباس رضاؔ(نیویارک)
زمیں سرکتی ہے ، پھر سائبان ٹوٹتا ہے
اور اُس کے بعد سدا آسمان ٹوٹتا ہے
میں اپنے آپ میں تقسیم ہونے لگتا ہُوں
جو ایک پَل کو کبھی تیرا دھیان ٹوٹتا ہے
کوئی پرند سا پَر کھولتا ہے اُڑنے کو
پھر اک چھناکے سے یہ خاکدان ٹوٹتا ہے
جسے بھی اپنی صفائی میں پیش کرتا ہُوں
وہی گواہ ، وہی مہربان ٹوٹتا ہے
نہ ہم میں حوصلۂ خودکُشی ، کہ مر جائیں
نہ ہم سے قفلِ درِ پاسبان ٹوٹتا ہے
میں وجۂ ترکِ تعلق بتا تو دُوں ، لیکن
اِس انکشاف سے اک خاندان ٹوٹتا ہے
زکواۃِ عشق اگر بانٹنے پہ آ جاؤں
تو اک ہجومِ طلب مُجھ پہ آن ٹوٹتا ہے
کسی نے داغِ جدائی نہیں دیا ، لیکن
میں اتنا جانتا ہوں ، کیسے مان ٹوٹتا ہے
جو آندھیاں سرِ صحرائے ہجر اُٹھتی ہیں
اُنہی میں شیشۂ دل ، میری جان ٹوٹتا ہے