صبا اکبر آبادی
جو ہمارے سفر کا قصّہ ہے
وہ تری رہگزر کا قصّہ ہے
صبح تک ختم ہو ہی جائے گا
زندگی رات بھر کا قصّہ ہے
دل کی باتیں زباں پہ کیوں لاؤ
گھر میں رہنے دو گھر کا قصّہ ہے
کوئی تلوار کیا بتائے گی
دوش کا اور سر کا قصّہ ہے
چلتے رہنا تو کوئی بات نہ تھی
صرف سمتِ سفر کا قصّہ ہے
جیتے جی ختم ہو نہیں سکتا
زندگی عمر بھر کا قصّہ ہے
شام کو ہم سنائیں گے تم کو
شبِ غم کی سحر کا قصّہ ہے
میری بربادیوں کا حال نہ پوچھ
ایک نیچی نظر کا قصّہ ہے
اُسی بیداد گر سے کہہ دے صباؔ
اُسی بیداد گر کا قصّہ ہے