محمود احمد قاضی(گوجرانوالہ)
ابھی حال ہی میں انشائیہ کی تازہ بہ تازہ کتاب”اشتہاروں بھری دیواریں“سامنے آئی ہے۔بقول اکبر حمیدی یہ اُس کے انشائیوں کی پانچویں کتاب ہے اور یوں اُس نے انشائیوں کی سینچری بھی مکمل کر لی ہے لیکن ساتھ ہی اُس کا کہنا ہے کہ اُس نے ہمیشہ مقدار سے زیادہ معیار پر نظر رکھی ہے۔اور میں کہتا ہوں خوب رکھی ہے کہ یہی چیز اُسے دوسروں سے ممتاز بھی کرتی ہے۔میں اس کی اس بات سے بھی اتفاق کرتا ہوں کہ کوئی بھی صنف بجائے خود بُری یا اچھی نہیں ہوتی بلکہ اگر وہ بری ہے کم تر معیار کی ہے تو بھی لکھنے والے کا ہی عجز ہوگااور کچھ نہیں۔لیکن یہیں میں ساتھ ہی یہ کہنے کی جسارت بھی کروں گاکہ چند لوگ ایسے ضرور ہوتے ہیںجو کسی بھی صنفِ ادب کا وقاربن جاتے ہیںیا جن کی وجہ سے وہ صنفِ ادب جانی اور پہچانی جا سکتی ہے دوسری اصناف چونکہ یہاں زیرِبحث نہیں اس لیے میں یہ بر ملا کہہ سکتا ہوں کہ خصوصًا میرے انشائیے سے لگاؤ،اُسے پسند کرنے کی وجہ محض اور محض اکبر حمیدی کا انشائیہ ہے۔کیوں کہ یہ انشائیے سے دیگرکچھ چیز بن جاتی ہے۔میں یہاں کسی الجھن کے بغیر یہ بھی کہتا چلوں کہ اکبر حمیدی جہاں ایک منجھا ہوا،مشّاق غزل گو ہے (گو کہ نقاد نے اُس کی غزل سے بے اعتنائی بھی کی ہے)وہاں وہ ایک پختہ کاراور اپنی ہی طرز کا نثر نگار بھی ہے۔اُس کا اسلوب اتنا سادہ پُرکشش اور دل موہ لینے والا ہے کہ آپ اُس کے انشائیے کے مختلف ابعاد میں اپنے shadayکا لطف اُٹھاسکتے ہیں۔وہ اپنی غزل کے بارے میں کہتا ہے۔
الفاظ توسب میری غزل کے بھی وہی ہیں
لیکن ہیں میرے زیرو زبر اور طرح کے
اور یہی ”اور طرح“اُس کے ہر ہر انشائیے میں جاری وساری ہے۔یہ اُس کا زعم یا تعلّی نہیںبلکہ ایک حقیقت ہے ،عین سچ ہے۔
”یہ دنیا مجھے رنگارنگ کہانیوں سے بھری ہوئی خوبصورت کتاب نظر آتی ہے اس کتاب کا آغاز جس دیباچے سے ہواتھاوہ دیباچہ بذاتِ خود ایک کہانی ہے۔“
(انشائیہ :دنیا ایک کہانی)
میں جس بات سے اکبر حمیدی کے انشائیہ کے حمایت میں آغاز کرنا چاہتا تھاوہ اکبر حمیدی نے خود ہی کہہ دی اوپر کی سطروں کو پھر سے پڑھیے ۔آپ کو لگے گا کہ اکبر حمیدی نے ایک کلیدہمیں دے دی ہے کہ اُس کا انشائیہ دوسروں سے مختلف اور جدا اہمیت کا حامل کیوں ہے۔اُس کا انشائیہ ایک کہانی‘بھی تو ہے۔اُس کے اندر ایک کہانی کار اَزل سے چھپا بیٹھا ہے اور وہ انشائیے کے پردے کے پیچھے سے نمودار ہوتاہے۔ اسی لیے اُس کا رنگ اور ہے ڈھنگ مختلف ہے۔وہ ذہنوں پر کاری وار نہیں کرتابلکہ ملائمت سے وہ بات بھی کہہ ڈالتا ہے جس کو کہنے کے لیے دوسروں کو شاید بہت بھاری ہتھیاروںکی ضرورت پڑتی ہے۔
”بادشاہ تو پھر بادشاہ ہوتے ہیں۔میں اُن پاگلوں کی بات کر رہا ہوں جو جمہوریت کے نا م پر بادشاہت کرتے ہیں۔میرا خیا ل ہے کہ اس دنیا کے پاگل خانے میں صرف عام آدمی یا تخلیق کار ہی نارمل ذہن کے لوگ ہیںاور دنیا کا توازن انہی لوگوں کے باعث قائم ہے یہ وہ لوگ ہیںجو اس دنیا کے بڑے پاگل خانے میں اپنا ذہنی توازن قائم رکھے ہوئے ہیں۔“(انشائیہ :دنیا ایک کہانی)
کیا اُس کے الفاظ ایک طرح کی فلاسفی اور وزڈم سے بھرے ہوئے نہیں ہیں۔یقینا ہیں لیکن کتنے ہلکے پھلکے۔کتنے جامع اور بھلے لگنے والے ہیں‘یہاں شاعر اکبر حمیدی اور انشائیہ نگار اکبرحمیدی آپس میں معانقہ کرتے دکھائی دیتے ہیں۔اکبر حمیدی یقینا اپنی زندگی کی طرح ادب میں بھی رکھ رکھاؤاور شان والا دکھائی دیتاہے۔اُس کے پاس تمکنت تو ہے لیکن یہ محبت سے یوں لتھڑی رہتی ہے کہ بس کچھ نہ پوچھیے۔وہ تو سارا کا سارا بس رس گُلے کے شیرے جیساہے۔جو رس گُلے میں نہ ہو تو وہ بے کار ہوتا ہے۔
میں خود اکثر سوچاکر تا ہوں کہ اگر آپ کواپنی ذات کا صحیح جلوہ دکھانا مقصود ہو توذرا اپنے خول سے باہر نکل کر دیکھئے۔ہر وقت ادیب ،شاعر ،مفکّرہی نہ بنے رہا کریں۔آپ ایک عام آدمی بھی تو ہیں۔خوشی سے گلے ملنے کے لیے تو آپ کو اونچے آدرشوں کے چبوتروںسے نیچے اُترنا ہی پڑے گا۔تبھی تو آپ حکیم الامّت ہوتے ہوئے بھی ،ایک بڑے شاعر ہوتے ہوئے بھی اور یہ جانتے ہوئے بھی کہ فالودے کو فالودہ ہی کہا جاتا ہے ،آپ کہتے ہیں ۔۔۔’پھلودہ‘آپ ایسا کہہ کر بھی وہی رہیں گے جو کہ آپ ہیں لیکن ایسا کرنے سے بس ذرا خلقِ خدا کے زیادہ قریب آجائیں گے اور یُوں آپ آسودگی کے ساتھ سانس بھی لے سکیں گے۔
کسی نے جیسے چپکے سے مجھے کہا ہو
”حمیدی صاحب ‘آپ چیزیں ہمیشہ اپنی ہی قیمت پر خریدتے ہیں۔کبھی دوسرے کی قیمت پر بھی لے لیا کریںآپ کے پاس اگر اُسے دینے کے لیے پیسے ہیں تو اُس کے پاس آپ کو دینے کے لیے خوشیاں ہیںاور خوشیاں ہمیشہ پیسوں سے زیادہ قیمتی ہوتی ہیں۔“
(انشائیہ:خوشیوں کی تلاش میں)
دیکھا آپ نے اکبر حمیدی کا استادانہ فن لیکن جو کہ اُس نے بچوں جیسی سیرت کے ساتھ ہماری آنکھوں کی ٹھنڈک بنا کر پیش کیا ہے۔اُس کی نثر ہمیشہ مجھے ہمیشہ تھرکے صحراؤں کی تپش کے درمیان ٹھنڈے پانی کا پیالہ لگی ہے اور اس ایک پیا لے پر کئی بادشاہیاں قربان کی جاسکتی ہیں۔
”تاریخ گواہ ہے کہ جوقومیں ضرورت سے زیادہ مہذب اور کلچرڈہو جاتی ہیںوہ پھر اتنی کمزور ہوجاتی ہیں کہ جلد ہی کسی دوسری خونخوار قوم کے شوقِ فتوحات جسے’شوقِ فضول کہنا زیادہ موزوں ہے‘کی خونخواری کا شکارہو جاتی ہیں۔“
”یہ قیمتی باتیں اختلافی بھی ہو سکتی ہیںاور آپ ان سے اختلاف کر سکتے ہیںمگر میرے ’اندر کا آدمی ‘اکثر مجھے ایسی باتیں بتاتا رہتا ہے۔“
اب دیکھئے کہ تاریخ کا شعور اُس کے لہو میں کیسے لہراتا ہے وہ یہاں مبلّغ بن کر نہیں سوچتااور تبھی وہ اختلافی باتیں کرنے کی جرأت رکھتا ہے۔میں اُسے جانتا ہوں وہ تو ہے ہی اختلافی۔۔۔اچھائی اور برائی کے اُس کے اپنے معیارات ہیںجنہیں وہ کہنے سے ہچکچاتا نہیں۔۔۔لیکن اُس کا سچ کھردرا نہیں ۔کان پھاڑدینے والا نہیں ۔ ۔۔ایک ہلکی سی سرگوشی کی طرح ہے۔۔۔آپ سے کچھ کہہ کے اپنے راستے کا موڑمڑجا نے والا۔۔۔۔آپ پر دباؤڈالنے والا بالکل نہیں ۔۔۔وہ بُرے سے نفرت نہیں کرتا۔البتہ بہت زیادہ اچھائی بھی اُس کے نزدیک ایک
’کڑتن “جیسی ہے۔وہ جب لگے بندھے اُصولوں ،نصب العینوں اور جامع خیالات سے اختلاف کرتا ہے تو یُوں ہی نہیں کرتا بلکہ ایسا کرتے ہوئے ہمیں ”قیمتی باتیں “بتاتا چلا جاتا ہے جو کہ شاید دوسروں کے نصیب میں کم ہی ہوتی ہیں۔
”کانٹا ایک بگڑا ہوا ایک بچہ ہی سہی ۔مگر ہم نے اُس کی اصلاح کرنے اور اُسے معاشرے کے لیے مفید بنانے کے لیے اب تک کتنی کوشش کی ہے؟“
”آخر ہم کب تک ’جہاں پھول وہاں کانٹا ‘کی رٹ لگا تے رہیں گے کبھی ہمیں ’جہاں کانٹا وہاں پھول ‘کے الفاظ بھی کہہ کے دیکھ لینا چاہیئے“
(انشائیہ :پھولوں میں گھرا کانٹا)
دیکھا آپ نے یہ ہے اصل اکبر حمیدی ۔۔۔اپنی ہی فوک وزڈم کے ساتھ۔۔۔خوداعتمادی کی دولت سے مالامال ایک شخص۔۔جو اپنے الفاظ بھی برتتا ہے تو ایک سخی کی طرح ناں کہ ایک شُوم کی طرح۔ اُس کی انشائی نثر ایسی ہی خوبیوں ،فکر انگیزیوں سے بھری پڑی ہے وہ ایک سچا اور کھرا فنکار ہے جو وقت کی سُولی پر چڑھتے ہوئے بھی مسکراتا ہے لیکن ظلم کے چانٹے کے سامنے کبھی بھی اپنا دوسرا گال پیش نہیں کرتا بلکہ مزاحمت کرتا ہے۔
اس کتاب میں ویسے تو سبھی انشائیے ہمیں کچھ نہ کچھ کہنے پر اکساتے ہیں۔سوچنے پر مجبور کرتے ہیںلیکن انشائیہ”اشتہاروں بھری دیواریں “اس ضمن میں اپنا فریضہ کچھ زیادہ ہی اثر انگیزی سے ادا کرتا نظر آتا ہے۔
”سچ پوچھئے تویہ کائنات مجھے شہروں بھری دنیا نظر آتی ہے،جس کی دیواریں ،سب دیواریں اشتہاروں سے بھری ہیںبلکہ خود انسان جہا ں کہیں بھی ہے،دیوار بن گیا ہے اور اس دیوار پر نظر یوں ، اعتقادوں،ملکوں ،قوموں ،نسلوں ،جہتوں ،مشغلوںکے اشتہار چسپاں ہیںجو کئی طرح کے تضادات سے بھرے ہیںاصل انسان تو اِن اشتہاروں کے نیچے کہیں چھپ گیا ہے۔غائب ہوگیا ہے۔“
اُسے شاید اِسی ”غائب ہوجانے والے“انسان کی تلاش ہے تبھی وہ ایک فنکار کا فریضہ ادا کرتا ہوا ہم سے براہ راست مکالمہ کرتا ہے اور یہ ایک زندہ آدمی کا زندہ آدمیوں سے مکالمہ ہے۔مُردے اُس کا موضوع نہیں ہیں۔“
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبرحمیدی انشائیے کی فنی اور تکنیکی ضرورتوں اور اس کے مزاج سے بخوبی آگاہ ہیں۔ میرے خیال میں ایک عمدہ انشائیے کی اولین خوبی یا ضرورت اس کی عمدہ نثر ہے۔ انشائیہ نگار محض کسی خیال یا بات کا سادہ زبان میں اظہار و بیان نہیں کرتا اسے ادبی نفاست اور تخلیقی خوشبو بھی عطا کرتا ہے اور جس طرح سمندر قطروں سے مل کر سمندر بنتا ہے اسی طرح کوئی فن پارہ لفظوں اور جملوں سے وجود میں آتا ہے۔ اس لیے بنیادی طور پر انشائیہ نگار کو شاعر اور افسانہ نگار کی طرح لفظوں کے بہترین استعمال کا سلیقہ ہونا چاہیے اور انشائیہ تو ایک بھی ڈھیلے ڈھالے جملے بلکہ کسی ایک لفظ کے بے محل استعمال کا متحمل نہیں ہو سکتا۔ ذرا سی کوتاہی غفلت یا تن آسانی مخمل میں ٹاٹ کا پیوند ثابت ہو سکتی ہے۔ اکبرحمیدی لفظ آشنا ہے اور خوبصورت تخلیقی جملہ لکھنے پر قادر۔ چنانچہ اس کی نثر زندہ رواں دواں اور تکلف و تصنع سے پاک ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس کے انشائیے دل میں اترتے اور اس کے جملے قلب و نظر کو روشن کرتے چلے جاتے ہیں۔ کوئی سا بھی موضوع ہو اس کی نثر کہیں سپاٹ یا بے رنگ نہیں ہونے پاتی۔ اپنی ادبی اور تخلیقی شان برقرار رکھتی ہے۔ ضرورت اور موقع کے مطابق وہ بیانیہ، علامتی یا استعاراتی تمثیلی لہجہ اور اسلوب اختیار کر لیتے ہیں جیسے ”نئی اور پرانی گاڑیاں“ میں وہ جسم کو گاڑی قرار دے کر زندگی اور اس کے پیچ در پیچ سارے سفر کی کوتاگاڑی ہی کے حوالے یا استعارے میں بیان کرتے چلے جاتے ہیں جس سے تحریر میں دلکشی اور دوہری معنویت پیدا ہو جاتی ہے۔
(انشائیوں کے مجموعہ جھاڑیاں اور جگنو کے پیش لفظ از منشا یاد سے اقتباس)