خاور اعجاز(ملتان)
کسی بھی زبان میں در آنے والی نئی اصناف کے بارے میں ناقدین کے بہت سے تحفظات ہوتے ہیں جن میں سے بعض وقت کے ساتھ ختم ہو جاتے ہیں اور بعض اپنی شکل تبدیل کر لیتے ہیں۔ انشائیہ اگرچہ کوئی نئی صنف نہیں کہ اس کے مآ خذ سرسید احمد خان کی تحریروں تک میں موجود دکھائے گئے ہیں البتہ کچھ عرصہ پیشتر یہ صنف جس تحریک کے تحت ادبی منظر نامے پر اجاگر ہوئی ہے اس کی مثال اس سے پیشتر موجود نہیں۔کچھ معترضین نسبتاً کمزور انشائیوں کے حوالے سے اس صنف پر حرف زنی بھی کرتے رہے ہیں یہ دیکھے بغیر کہ ایسی ہی کمزوریاں دوسری اصناف میں بھی پائی جاتی ہیں اور خود اُن میں بھی ! شعرا اور ادبا محض اپنی تحریروں کی وکالت میں زمین آسمان ملاتے رہتے ہیں اور کھُلے دل سے دوسروں کی خوبیوں کا اعتراف کرنے سے گریزاں رہتے ہیں اور اکثر یہ چاہتے ہیں کہ دنیا ان جیسی ہو جائے ، انہی کی زبان بولے اور انہی کی وضع قطع اختیار کر لے۔ لہٰذا ہم دیکھتے ہیں کہ اپنی اپنی بولیوں پر اصرار کرنے والوں کا ایک جمگھٹا لگا رہتا ہے ، یہی وجہ ہے کہ ہم تعصب کا شکار ہو کر بہت سے ایسے رجحانات کا راستہ روکنے کی کوشش کرتے ہیں جن میں آگے چل کر کوئی بہتر رخ اختیار کر لینے کی صلاحیت ہوتی ہے۔ انشائیہ اور انشائیہ کی تحریک اس کی ایک مثال کہی جا سکتی ہے جسے کئی ایک نے اپنے اپنے اکھاڑے میں کھینچنے کی کوشش کی لیکن اس نے سب کو پچھاڑ کر میدان میں اپنا جھنڈا گاڑ دیا۔
اکبر حمیدی اس صنف کے ان فدائین میں شامل ہے جنہوں نے اس کو وسیع پیمانے پر متعارف کرایا، اس کی شناخت بنائی اور اس کو اپنا جھنڈا گاڑنے میں بھرپور مدد کی۔وہ دوسروں کی طرح بم باندھ کر معترضین کی صفوں میں دہشت پھیلانے کی بجائے اپنے لفظوں کی طاقت اور اپنے ذہن کی زرخیزی سے اس صنف کو خوبصورت بنانے میں مصروف رہا اور اب یہ صنف واقعی اتنی خوبصورت ہو گئی ہے کہ مخالفین بھی اسے للچائی ہوئی نظروں سے دیکھنے لگے ہیں۔ مَیں سمجھتا ہوں کہ اکبر حمیدی کی یہ چال اسے انشائیہ کی جنگ کا ایک اعلیٰ جرنیل بناتی ہے جو محض اسلحے پر ہی انحصار نہیں کرتا بلکہ دماغ سے بھی کام لیتا ہے۔وہ اپنے تجربے کی لو میں بات کرتا ہے۔ اس کے ہاںزبان کا مزہ ہے۔ وہ عام باتوں سے ہی اپنی بات بنا لیتا ہے اور یہی انشائیہ نگار کا بہترین ہتھیار ہے۔اپنے انشائیے ”رشتے ناطے “ میں وہ کہتا ہے کہ ”مَیں نے رشتے ناطے کا دفتر نہ کھولا ہے اور نہ ہی کھولنے کا ارادہ ہے البتہ جب سے مَیں سنِ بلوغت کو پہنچا ہوں، اس قسم کا ایک دفتر از خود میرے اندر کہیں کھل گیا ہے“ اکبر حمیدی کی اس بات سے یہ اندازہ کرنے میں ذرا بھی دقت نہیں ہوتی کہ اس کی ذات میں رشتے ناطے بنانے کی صلاحیت قدرتی اور خدا داد ہے۔یہی وہ صلاحیت ہے جو کسی بھی شخص کو اپنی ذات میں نئے معانی تلاش کرنے، اپنے ارد گرد کو نئی نظر سے دیکھنے اور کائنات کے لا متناہی سلسلوں کو دفترِ دل سے جوڑنے میں معاون ہوتی ہے۔ وہ کہتا ہے کہ ”ایک ہی جگہ پر، ایک ہی زمین پر بلکہ ایک ہی درخت پر دکھائی دینے والے پتوں کی کہانیاں کتنی مختلف ہیں ! (انشائیہ: دنیا کی کہانی) یہ وہ انشائی رویہ ہے جو دوسروں کو ایک ہی طرح دکھائی دینے والی چیزوں کے بطون میں چھپے اختلافات تک رسائی دیتا ہے، انہیں ایک دوسرے سے الگ کر کے دکھاتاہے اور ان کی ایسی جزئیات سامنے لاتا ہے جو انشائیہ نگار کی خوردبین تلے ہی نظر آتی ہیں۔یوں تو یہ کام ایک اچھا مضمون نگار بھی انجام دے سکتا ہے لیکن وہ دنیا جو انشائیہ نگار کو دکھائی دیتی ہے مضمون نگار کے بس کا روگ نہیں ہوتی سو مضمون نگار اکبر حمیدی کو جو مماثلتیں نظر آتی ہیں وہ انشائیہ نگار اکبر حمیدی کے یے اختلافات بن جاتے ہیں ” آپ اگر چاہیں تو بے شک اسے میری ایک خوبی سمجھ لیں یا میری ذہانت، آخر ایک بار ایسا سمجھ لینے میں حرج بھی کیا ہے ! جب کہ مَیں نے کئی مرتبہ آپ کو ذہین سمجھ لینے کی ذہانت کا مظاہرہ کیا ہے“ (انشائیہ: خوشیوں کی تلاش میں)
اب آپ ہی سچ بتائیں کہ دوسروں کو خوشی کی فراہمی کے لیے کوئی لکھاری ایسی ذہانت آمیز تحریر لکھنے کا ملکہ رکھ سکتا ہے سوائے ایک انشائیہ نگار کے۔ مَیں نے دیکھا ہے کہ انشائیہ نگار اکبر حمیدی ۔۔۔ ناقد اکبر حمیدی، مضمون نگار اکبر حمیدی اور شاعر اکبر حمیدی سے نہ صرف مختلف ہے بلکہ چالاک بھی ( آپ اسے ذہین بھی کہہ سکتے ہیں) وہ بات کو ایسی پرت دیتا ہے کہ وہ عام ہوتے ہوئے بھی اکبر حمیدی کا اختصاص بن جاتی ہے۔اوپر دئیے گئے اکبر حمیدی کے فقروں میں آخری ” ذہانت“ پر غور کیجیے اور اسے لفظ ”چالاکی“ سے بدل کر پڑھیے۔دیکھا ! اکبر حمیدی نے کس چالاکی سے آپ کو اپنی ذہانت کے نرغے میں لے لیا تھا !! بس یہیں انشائیہ نگار اکبر حمیدی کا قائل ہونا پڑتا ہے۔” آپ کو بھی میں ایسا ہی، اپنے سے کچھ کم ہی سہی، مگر ذہین آدمی سمجھتا ہوں، جو تتلی کی طرح پھول سے دوستی بھی کرتی ہے اس کے رس رنگ بھی اڑاتی ہے مگر شام ہوتے اس کے ساتھ مرجھا نہیں جاتی“( انشائیہ: دوستی کی مخالفت میں)۔ یہاں وہ دوستی کی مخالفت میں اپنا اظہار کر رہا ہے اور چاہتا ہے کہ دوستی کا پھول مرجھا جانے کے باوجود آپ خود کو تر و تازہ رکھیں۔وہ بجلی فیل ہو جانے کو مسئلہ نہیں سمجھتا بلکہ نہ فیل ہونا اس کے لیے مسئلہ بن جاتا ہے۔دیارِ غیر میں بارش اور طوفان کے باوجود بجلی فیل نہ ہونے پر اسے غصہ آیا اور ” یہ اندیشہ بھی لاحق ہوا کہ یہ لوگ (اس کی) عادتیں خراب کر دینے کے درپے تو نہیں ہیں۔۔۔کافر کہیں کے ! “( انشائیہ: جب بجلی فیل ہو جائے) یقین جانیں آخری تین لفظوں کا جو لطف یہاں آیا شاید آپ کو بھی پہلے کہیں اور نہ آیا ہو !!
اکبر حمیدی کا کہنا ہے کہ ایک سیدھ میں رہنے والوں کو بڑی آسانی سے شکار کیا جا سکتا ہے۔یہی وجہ ہے کہ وہ کسی ایک صنف کی سیدھ میں چلتے رہنے کی بجائے کئی اصناف میں آوارہ خرامی کرتا ہے۔اس آوارہ خرامی کو انشائیہ کی فضا اس لیے بھی راس آئی ہے کہ اس صنف میں آوارہ خرامی کی جتنی گنجائش موجود ہے کسی اور میں نہیں اور ویسے بھی اکبر حمیدی شکار ہونا پسند نہیں کرتا، اسے شکار کرنا بھی اچھا نہیں لگتا، وہ دوست پروری کا قائل ہے اور مجھے لگتا ہے کہ انشائیہ نگاری اس کے اِسی دام میں آئی ہوئی ہے !!!
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اکبر حمیدی کے انشائیے مجموعی طور پر مزاحیہ عنصر سے گریزاں نظر آتے ہیں۔ ”جزیرے کا سفر“ میں اُس
نے کہیں کہیں مزاح کے فارمولے سے کام لیا ہے مگر جلد ہی اس کو اس امر کا احساس ہو گیا کہ یہ فارمولا اس کے وضع کردہ انشائی اسلوب کے لیے ناموزوں ہے۔ ادبِ عالیہ اور ہنسنے ہنسانے کے کام میں بہت فرق ہوتا ہے۔ مسخروں کی اچھل کود، جگت بازوں کے تند وتیز گرم جملوں اور بونوں کی مضحکہ خیز حرکتوں سے طفلانہ ذہن تو تحریک و تنشیط پا سکتا ہے لیکن وہ دماغ نہیں جس کی تشفی کا مدار قہقہے یا باچھیں کُھلنے پر نہیں ہوتا، اُس محسوساتی جھونکے پرہوتا ہے جس کے مَس سے روح کو توانائی اور بہجت نصیب ہوتی ہے اور انسانی جذبے کے بطون میں رنگارنگ کیفیتوں کے بے شمار دریچے کھل جاتے ہیں۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔اکبر حمیدی کے انشائیے سماجی شعور کے پروردہ ہیں۔ اُس نے عام آدمی کی Projectionپر خاصا زور دیا ہے۔ چھوٹا آدمی، ہیرو، نظام سقّہ، نقاد، درمیانی منزل، ضمیر کی مخالفت میں اور لوز تھنکنگ کا بنیادی محرک یہی جذبہ ہے۔ عامی لوگوں کو نمایاں جگہ دینے اور آبرو مندانہ مقام عطاکرنے ہی سے جمہوری قدروں کو فروغ مل سکتا ہے۔ اکبر حمیدی کے نزدیک عام اور چھوٹے آدمی کے سادہ نظریات ضرر رساں نہیں ہوتے جبکہ بڑا آدمی نہ صرف مسائل حیات میں اضافے کا موجب بنتا ہے بلکہ اس کے نظریات کی درانتی کئی گردنوں کو کاٹنے کی ذمہ دار ٹھہرتی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اکبر حمیدی نے دنیا کی سنگینی اور انہدام و انتشار میں بڑے آدمیوں کو شمار کیاہے۔ اس کے مطابق چھوٹا آدمی اہم ہے۔ یہی اُس کا ہیرو ہے۔ اکبرحمیدی نے پشتینی شہنشاہ ہمایوں میں نہیں، ایک دن کے بادشاہ نظام سقّہ میں دلچسپی ظاہر کی ہے۔ دراصل عام اور چھوٹا آدمی ہی اُس کے خیال میں بڑا آدمی ہے۔ اس لیے کہ وہ محنت کار، شریف، غیرت مند اور عالی حوصلہ ہے، ہماری آپ کی طرح شہر کے گلی کوچوں اوردیہاتوں کا باشندہ ہے۔ حقیقت تو یہ ہے کہ اکبر حمیدی نے صنفِ انشائیہ کے ذریعے آدمی اور آدمیت کے مفہوم کو نئے سرے سے وضع کرنے کی کوشش کی ہے۔ اُس نے آدمی اور آدمیت کے اُن گوشوں کو دائرۂ نور میں لانے کا جتن کیا ہے جو دو راز کار موشگافیوں کے سبب فلسفیوں کی نظر سے اوجھل رہ جاتے ہیں۔ میرے خیال میں یہ کام فلسفی سے زیادہ شاعر ہی انجام دے سکتا ہے اور اکبر حمیدی اصالتاً شاعر کا ذہن رکھتا ہے۔
(اکبر حمیدی کے انشائیے۔۔ایک مطالعہ مضمون از رفیق سندیلوی سے اقتباس)