اس بار کسی ادبی مسئلہ پر گفتگو کرنے کی بجائے حکومت پاکستان کی خدمت میں ڈاک کے شعبہ میں کتابوں اور رسالوں کے ساتھ ہونے والے اندوہناک سلوک کا کچھ ذکر کرناہے۔چونکہ ملک میں نئی اور کسی حد تک عوامی قیادت کے سامنے آنے کا امکان ہورہا ہے تو ان آنے والوں کے سامنے یہ احوال پیش کرنا ہے۔
گزشتہ چند برسوں سے پاکستان میں ڈاک کے محکمہ نے بیرون ملک کتابوں اور رسائل کی ترسیل کے نرخ اتنے ہولناک کر دئیے ہیں کہ نہ تو پاکستان سے کسی ادیب کو ہمت ہوتی ہے کہ اپنی کتاب کسی کو بیرون ملک بھیج سکے اور نہ ہی باہر سے کسی دوست کو کتاب کی فرمائش کرنے کی خواہش ہوتی ہے۔دونوں طرف ایک دوسرے کی مجبوری کو بخوبی سمجھ لیا جاتا ہے۔
پاکستان کے برعکس انڈیا میں ڈاک خرچ اندرون ملک اور بیرون ملک اتنے کم ہیں کہ پاکستانی ڈاک خرچ کے ساتھ ان کا موازنہ کرتے ہوئے بھی شرم آتی ہے۔جرمنی میں بیٹھ کر پاکستان سے چھ مہینے بعد ایک پرچہ چھپوایا تو جتنی رسالے پر لاگت آئی،ڈاک کا خرچ اس سے بھی زیادہ ہو گیا۔ اتنی مہنگائی کے باوجود رجسٹرڈ بک پوسٹ کے کئی پیکٹس منزل پر پہنچ ہی نہیں پائے۔تین رسالوں کا شدید نقصان اٹھانے کے بعد انڈیا سے جب وہی پرچہ چھپوایا تو پاکستانی ڈاک خرچ کی رقم کے برابرنہ صرف پرچہ چھپ گیا بلکہ امریکہ،کینڈا،یورپ، مصر،ترکی،روس،اور پاکستان و انڈیا میں اس کی ترسیل بھی ہو گئی۔پاکستان سے چند پرچے چھپوانے اور شدید مالی نقصان اُٹھانے کے بعد اب میں آسانی سے انڈیا سے پرچہ چھپوا رہا ہوں۔مجھے ذاتی طور پر کچھ ایسا مسئلہ درپیش نہیں ہے۔لیکن اب بعض پاکستانی ادبی رسائل جو چھ ماہ یا ایک سال کے بعد ایک آدھ کتاب چھاپتے تھے انہوں نے بھی یہی مناسب جانا ہے کہ پرچہ انڈیا سے چھپوا کر وہیں سے اس کی دنیا بھر میں ترسیل کر دی جائے۔جو ادبی رسائل پاکستان سے چھپ رہے ہیں(چند مستثنیات کو چھوڑ کر) عملاََوہ سب پاکستان سے باہر کے اردو ادیبوں اور قارئین سے کٹ کر رہ گئے ہیں۔ اس پر چند مدیران اور ادیبوں نے احتجاج بھی کیا تھا لیکن وہ احتجاج صدا بصحرا ثابت ہوا۔
اگر نئی آنے والی حکومت کو علم،ادب اور کتاب سے ذرا سی بھی ہمدردی ہو تو ا ن کی خدمت میں گزارش ہے کہ ہر طرح کی کتابوں،رسالوں کی بیرون ملک ترسیل کے ڈاک خرچ کوہندوستانی محکمہ ڈاک کے نرخوں کے برابر لایا جائے۔ آپ ادب اور کتاب دوستی کا اظہار نہ سہی،ادب اور کتاب دشمنی کے ارتکاب سے تو بچیں۔محکمہ ڈاک کے موجودہ بیرون ملکی نرخ کھلی ادب دشمنی اور کتاب دشمنی ہیں۔
حیدر قریشی