سیّد ضمیر جعفری
”قدِآدم“ قد آور شاعر اور ممتاز انشائیہ نگار پروفیسر اکبرحمیدی کے خاکوں کا مجموعہ ہے۔
میرا بیٹا احتشام پاکستان آرمی میں خدمت کر رہا ہے۔ وہ جب کمیشن کے انٹرویو بورڈ کے سامنے گیا تو چیئرمین نے اُس سے سب سے پہلے وہی گھِسا پٹا سوال کیا کہ ”اے نوجوان تُو فوج میں کیوں شامل ہونا چاہتا ہے“۔ احتشام نے جواب دیا ”سر میں پیدا ہی ایک فوجی بیرک میں ہوا تھا۔“ اور اسی سوال کے جواب پر اس کا انٹرویو ختم کر دیا گیا۔
مجھے بھی اپنی بات شروع کرنے کے لیے فوجی پس منظر کے باعث انگریزی کی ایک عسکری کہاوت ہی یاد آ رہی ہے کہ:"Well begun half the battle is won"
یعنی جنگ کا اچھا آغاز....جنگ کی نصف کامیابی کی ضمانت ہوتا ہے۔ سو ہم اس کتاب کے نام ”قدِآدم“ کے صوری حُسن اور صوتی نغمگی اور معنوی بلاغت پرہی پھڑک اٹھے کہ یہ نام مصنف کی تخلیقی توانائی کا آئینہ دار ہے۔
پچھلے کچھ عرصہ سے اردو ادب کی جتنی نئی کتابیں ہماری نظر سے گزریں ان میں سے اکثریت شاعری، سفرناموں اور خاکہ نگاری پر مشتمل ہیں۔ اس پر یوں لگا کہ جس طرح جدید جنگ ”میزائیلوں“ کی بارش ہو کر رہ گئی ہے اسی طرح اردو ادب میں ان دنوں غزلوں، سفرناموں اور خاکوں کی بارش برس رہی ہے۔
”قدِآدم“ میں چند خاکے مصنف کے اپنے بزرگانِ خاندان کے ہیں اور چند خاکے اس عہد کی چند نامور شخصیتوں کے۔ اکبر حمیدی نے اپنے بعض غیر معروف احباب کو بھی اس قافلۂ محبت میں فراموش نہیں کیا۔
صاحبو....تکنیکی بحث مجھے نہیں آتی۔ فالتو عقل ہم میں تھی ہی نہیں۔ یوں بھی تنقید کو میں الا ما شا اللہ دوسروں کی ٹانگوں پر دوڑنے کی ڈرل (Drill) سمجھتا ہوں۔ میں صرف یہ کہہ سکتا ہوں کہ میں نے اس کتاب کو بیحد دلچسپ اور تخلیقی ادب کا ایک اعلیٰ نمونہ پایا۔ اس کے مطالعے کی فرصت مجھے سفر میں ملی اور اس کی چھاﺅں میں سارا سفر سوارت ہو گیا۔ کتاب میں ہمارے وزرا کی ”گونا گوں مصروفیات“ کی طرح واقعی اتنے بوقلموں مناظر تھے کہ مجھے کھڑکی سے باہر جھانکنے کی ضرورت ہی محسوس نہ ہوئی۔
میں اکبرحمیدی کو جانتا تو ہوں مگر اتنا نہیں کہ ان کا اپنا خاکہ اتار لاتا۔ ان سے ہماری ملاقاتیں روا روی میں گوشت پوست کی گرمی سے محروم........کاغذی سوشل کانٹریکٹ بلکہ محض کانٹیکٹ (Contact) تھے۔ میری محرومی کہ جب ان سے ملنے کا وقت آیا تو ہمارا اپنا ہی وقت ختم ہو رہا تھا۔ بہرحال جب بھی ان سے ملاقات ہوئی دنیا سمٹتی ہوئی محسوس ہوتی۔ اس شخص کو از سرتا پا اخلاص و محبت کا ”سورج مکھی“ پایا۔ اس جیسے لوگوں سے مل کر اس صداقت پر بھی یقین تازہ ہو جاتا ہے کہ محبت کے لیے خوبصورت چہرے کی شرط لازمی نہیں۔ اس کا سب سے بڑا سرمایہ اس کی شاعری کی جاگرتی سندرتا اور شکتی کی طرح....اس کی وسیع انسانیت اور عالی ظرفی کا حُسن ہے۔ مجھے اس سے اپنی ایک جھڑپ یاد آ رہی ہے۔ ہمارے رسالہ....”چہارسو“ میں ان کی ایک تحریر جس کی چند سطور پر مجھے اس سے تبادلۂ خیال کرنا تھا دفتری ہڑبونگ میں چھاپے خانے میں چلی گئی۔ اس پر مجھے اپنے ادارتی اور اخلاقی فرض کی تکمیل میں ایک معذرت نامہ شائع کرنا پڑا جو ان کو ناگوار گذر سکتا تھا اور یقینا ناگوار گذرا بھی ہوگا مگر میں نے اس شخص کی پیشانی پر کبھی ہلکا سا بل بھی نہ دیکھا۔ میں سمجھتا ہوں کہ اس جھڑپ میں فتح اس کی ہوئی کہ درگزر اور معاف کر دینے کا ظرف انسانی عظمتوں کی بنیادی فضیلتوں میں سے ہے۔
مجھے یہ خاکے نہ نفسیاتی لگے نہ تجزیاتی ، محاکاتی، وارداتی وغیرہ۔ میرے نزدیک ان کی نوعیت تذکراتی، تبصراتی اور واقعاتی ہے مگر مصنف کے کمال فن نے ان کو جو افسانوی ”تڑکا“ لگایا ہے اس سے یہ تحریر رسمی سوانحی یا دستاویزی نہیں رہی بلکہ ایک تخلیقی ادب پارے میں ڈھل گئی ہے اور ذاتی اور واقعاتی کینوس کے ان خاکوں میں........اس شخص کی نگاہ کی براقی اور اظہار کی بلاغت نے خصوصیت کے حصار میں عمومیت کی ایک عجیب وسعت اور کشادگی پیدا کر دی ہے۔ اس نے پیڑ گنوانے سے نہیںبیر کھلانے سے سروکار رکھا مگر بیر کچھ اس طرح سینت سینت کر کھلائے کہ قاری کی نظر پیڑ کی جڑ تک جا پہنچتی ہے۔ مجھے اکبر حمیدی کے خاکے کچھ اپنے محترم حکیم محمد سعید صاحب کی طرح لگے کہ وہ گورنر تھے مگر گورنر معلوم نہیں ہوتے تھے۔ ڈاکٹر وزیر آغا، ڈاکٹر وحید قریشی، جناب مظفر علی سید، پروفیسر غلام جیلانی اصغر، عذرا اصغر، جناب منشا یاد، ڈاکٹر رشید امجد اور انہی کی طرح کی دوسری نامورشخصیتوں کے خاکوں کو پڑھوا لینا کچھ مشکل نہیں کہ کم لوگ ان کو خود ان کی ”بھاپ“ پر پڑھ جاتے ہیں لیکن اکبر حمیدی نے جس گرفت کے ساتھ اپنے قارئین کو اپنے بزرگانِ خاندان کے ساتھ پڑھوا لیا ہے اس کمال کی جتنی داد دی جائے کم ہو گی۔ اس حصے کو انہوں نے اس قدر جاذب توجہ بنا دیا ہے کہ اب نہ صرف اکبرحمیدی پر خاکہ لکھنا آسان ہو گیا ہے بلکہ ان کے خاندان میں رشتے ناطے کی بات طے کرنی بھی سہل معلوم ہوتی ہے۔ تفنن برطرف کتاب کے اس حصے میں اکبرحمیدی نے پنجاب کے دیہات کی تمدنی اور معاشرتی زندگی کی جیتی جاگتی تصویر کشی کی ہے۔ میرے اہل وطن کی موجودہ نسل اس کو غور سے پڑھ لے کہ کچھ عرصہ بعد یہ زمین شاید اس زندگی سے محروم ہو جائے۔
ان خاکوں نے اس حقیقت کی صداقت کو بھی آشکارا کر دیا کہ طاقت کا سرچشمہ عوام ہیں اور معمولی لوگ ہی دراصل غیر معمولی لوگ ہوتے ہیں۔ تحریر کی یہ طاقت اور تاثیر اس غیر معمولی تخلیقی صلاحیت کا ثمرہ ہے جس نے اس کی غزل کو ایک منفرد لہجہ اور ایک انوکھا پیرہن بخشا ہے۔ وہ شاعری جو چناروں کو چاندنی اور روز دیکھی چیزوں کو اجنبی پاتی ہے۔
خاکہ نگاری میں اکثر لوگ جارحیت کا شکار ہو جاتے ہیں۔ دوسروں کی خامیوں کو دیکھ کر ”عقلمند“ ہونا آسان ہوتا ہے۔ اکبرحمیدی بڑی حد تک اس سے دامن بچا کر گزرا ہے۔ تاہم وہ خدو خال بیان کرتے کرتے قاری کو تحریر کے قدرتی بہاﺅ میں........کردار کے اندر بھی گھما پھرا لاتا ہے۔ ایسے خاکے کوئی ایسا خوش سرشت ہی لکھ سکتا تھا جو سائے میں بھی روشنی کو دیکھ لے اور جو مرحوم افراد اور زندہ لوگوں....اور آئندہ پیدا ہونے والے انسانوں کے درمیان ایک حیاتیاتی تسلسل اور ہمدردانہ ہم آہنگی کا یقین کے ساتھ ادراک رکھتا ہو۔ اس نے اپنے کرداروں کی خامیوں کو ”ٹیلی ویژن“ کے خبرناموں کی طرح نشر نہیں کیا مگر یقین کیجیے کہ بعض مقامات پر دوسرے اصحاب کی خوبیاں پڑھتے پڑھتے میری اپنی کئی خامیاں میرے اندر سے اٹھ اٹھ کر آوازیں دیتی رہیں کہ ”قبلۂ عالم آداب عرض ہے!“ بلکہ مجھے اپنی بعض ایسی غلطیوں کی نشاندہی بھی ہو گئی جو میں آئندہ کرنے والا ہوں!!
صاحبو! اس زمانے میں کہ لوگ اپنے آپ سے محبت کرنا بھول گئے ہیں۔ ان خاکوں میں محبت کی ایسی خوشبو رچی بسی نظر آئی جو انسانوں کو ہلاک کیے بغیر دنیا کو تبدیل کر سکتی ہے!
یہ عام تنقیدی مضامین نہیں۔ یہ تو اُن افراد کے خاکے ہیں جن سے مصنف کے گہرے ذاتی روابط تھے یا جن کو یہ اپنا محسن سمجھتے ہیں۔ بحث کے لیے کسی مسئلے کو سمجھنا ضروری نہیں لیکن کسی شخص کا خاکہ لکھنے کے لیے اس شخص کو سمجھنا ضروری ہے۔
جوش صاحب کے قصے میں ضمناً ایک بات ہمیں بھی یاد آ گئی۔ اکبر حمیدی کو جوش صاحب نے بتایا کہ ورزش وہ شام کے وقت کرتے تھے۔ صبح کو نہیں۔ جبکہ ہمیں ایک ملاقات میں بتایا کہ ورزش وہ صبح کے وقت کرتے تھے شام کو نہیں۔ ورزش کا موسم کے ساتھ گہرا تعلق ٹھہرا اور جوش صاحب تو ہر موسم جینے والے آدمی تھے!!
اس تصنیف کی تخلیق پر مجھے اکبرحمیدی کے لیے اپنی تحسین کا جذبہ حیرت کی حدوں کو چھوتا محسوس ہوتا ہے۔ حیرت اپنی بے خبری پر ہے کہ میں آج تک اکبر حمیدی کے شعر پر ہی فریفتہ رہا ہوں۔ ان کے انشائیے بھی دل پر دستک دیتے رہے۔ مگر خاکہ نگاری کے ضمن میں اور بالخصوص اس کی نثر کی دلکش اور عظیم الشان گرفت کا.... اس سے پہلے.... مجھے صحیح اندازہ نہ تھا۔
ابھی اور بہت باتیں گفتنی تھیں اور ناگفتنی کو تو ہاتھ ہی نہ لگا سکے مگر وہ جو امام غزالی نے کہا کہ زیادہ بولنے میں زیادہ غلطیوں کا احتمال ہوتا ہے لہٰذا اجازت!!