حیدر قریشی
ہر اک طرف سے اور شورِ بادباں
اکبر حمیدی اس عہد کے ایک اہم تخلیق کار ہیں۔مجموعی طور پر مختلف اصناف ادب میںان کی بیس کتابیں شائع ہو چکی ہیں۔ ان کی خاکہ نگاری ، انشائیہ نگاری، تنقیدنگاری اور خود نوشت ،ہر صنف اپنی اپنی جگہ اکبر حمیدی کی تخلیقی صلاحیتوں کی گواہی دیتی ہے۔ شاعری ان کے اظہار کا سب سے پہلا پیمانہ تھا، اسی لئے ان کی سب سے پہلی پہچان بھی شاعری ہے۔زیرِ تبصرہ مجموعہ اکبر حمیدی کا چھٹا شعری مجموعہ ہے۔ اس سے پہلے ان کے پانچ شعری مجموعے ”لہو کی آگ“، ”آشوب صدا “ ، ”تلواراس کے ہاتھ“، ”شہر بدر “ اور ”دشتِ بام ودر“ شائع ہو چکے ہیں۔ یہ شعری مجموعہ اکبر حمیدی کے شعری ارتقا کو بہت عمدگی سے ظاہر کرتاہے۔ بنیادی طورپر اکبر حمیدی غزل کے شاعر ہیں مگر اس مجموعہ میں ۵۶ غزلوں کے ساتھ ان کی سترہ نظمیں بھی شامل ہیں اور چند ہائیکو بھی ۔ ہائیکو چونکہ تین مساوی الوزن مصرعوں مشتمل ہیں،اس لیے میں انہیں ثلاثی کے زمرہ میں شمار کرتا ہوں۔ اکبر حمیدی کی خوبصورت غزلوں اور نظموں کے بارے میں کچھ عرض کرنے کی بجائے اس مجموعہ سے چند اچھے اشعا رکا ایک انتخاب اور ایک نظم پیش کر دینا بہتر سمجھتا ہوں۔آفتاب آمد دلیلِ آفتاب
چلتا ہے غیر برہنہ تلوار کی طرح
اس کی گلی ہے کوفے کے بازار کی طرح
پیچیدہ بھی، حسیں بھی، طرح دار بھی بہت
دنیا ہے اس کی زلفِ گرہ دار کی طرح
اگر کسی بڑی مسند پہ جا گزیں ہوتا
تو پورا عہد مِرا حاشیہ نشیں ہوتا
یہ خود شناسیاں اور ناشناسیاں اکبر
مِری نظر میں ہیں دونوںعذاب اندر کا
رکھنا قدم جما کے ہوا تیز ہے بہت
منہ آنا مت ہوا کے، ہوا تیز ہے بہت
جس کے بھی دوست ہوئے باعثِ تکریم ہوئے
ہم کھرے سکے ہیں جیبوں میں کھنکتے جاویں
ڈرائنگ روم میں کچا گھڑا رکھا ہوا ہے
کہ ہم نے سوہنی سے رابطہ رکھا ہے
بڑے شہروں میں چھوٹے لوگ آکر بس گئے ہیں
اسی خاطر تو ہم نے دل بڑا رکھا ہوا ہے
کب تلک ملتا رہے گا اسے قسمت کا لکھا
خلقتِ شہر تو محنت کا ثمر چاہتی ہے
زندگی خواب کے گھر میں نہ کٹے گی اکبر
اب یہ لڑکی درودیوار کا گھر چاہتی ہے
عنایت اور ہی جانب ہے اس کی
ہمیں تو بس گزارے دے رہا ہے
جنوبی ایشیا کو جیسے اکبر
یہ دن کوئی ادھارے دے رہا ہے
مجھ کو نظر کی وسعت میرے شہر نے دی
میں تو گوجرانوالہ میں لاہور ہوا
اکبر سادہ سا دیہاتی لڑکا تھا
اک شہرن کے عشق میں اور سے اور ہوا
یہ کیا ضرور تھا مجھ سے بھی وہ وفا کرتے
نہیں تھی مجھ سے محبت انہیں تو کیا کرتے
ستم گروں سے تو کچھ بھی کہا نہ لوگوں نے
سبھی نے مجھ سے کہا آپ حوصلہ کرتے
جانے کب کیا، کیسی صورت پیش آئے
کچھ دانائی، کچھ نادانی ساتھ چلے
ترے بدن کو کبھی جو ہمارے ہاتھ لگے
کہیں سے پھول کہیں سے ستارے ہاتھ لگے
دعائے زیست کی تکرار بات بات میں ہے
کہ خوفِ مَرگ کہیں اس کی نفسیات میں ہے
کبھی لبوں، کبھی آنکھوں سے گفتگو کرنا
وہ تن بدن سے شریک اپنی لفظیات میں ہے
غزلوںکے یہ چند اشعار اکبر حمیدی کی غزل اتنا عمدہ تعارف ہیں کہ اس کے بعد کسی تنقیدی رائے کی ضرورت ہی نہیں رہتی۔نظمیںاکبر حمیدی نے منہ کا ذائقہ بدلنے کے لیے کہی ہیں۔اسی لیے ان نظموں میں بھی غزل کا مزاج ملتا ہے۔بطور نمونہ ایک نظم ”مبارکیںہوں“ ملاحظہ کیجئے۔
مبارکیں ہوں،مبارکیں ہوں،مبارکیں ہوں
کہ پچھلی آدھی صدی کی مانند اس برس بھی
تمام منصب، تمام اعزاز،سارے اکرام
حضورِ والا تبار ہی کے لیے ہیں مخصوص
میںاس برس بھی ہوا ہوں حاضر
سلامِ اخلاص عرض کرنے
دعائیں دینے،نیاز مندی کے سارے جذبے
حضور عالی میں نذر کرنے
خدا کرے ایسے سارے موسم
جو پچھلی آدھی صدی سے یونہی رُکے کھڑے ہیں
اسی طرح سے رُکے رہیں سب
تمام منصب، تمام اعزاز، سارے اکرام
حضورِ والا تبارہی کے لیے ہوںمخصوص
حضور کے آہنی شکنجے سے وقت باہر نکل نہ پائے
نکل نہ پائے، سنبھل نہ پائے، بدل نہ پائے
اسی طرح سے ہر اک برس مَیں
مبارکیں عرض کرنے آﺅں
مبارکیں ہوں، مبارکیں ہوں، مبارکیں ہوں،
اکبر حمیدی پختہ غزل گو ہیں۔ ان کے ہاں فکر و خیال اور جذبات کی آمیزش سے ایسی دلآویز کیفیت پیدا ہوتی ہے جو قاری کو دیر تک اپنے اثر میں رکھتی ہے۔ان کے اظہار میںسادگی اور بے ساختگی سے کھلی کھلی کیفیت کا احساس ہوتا ہے۔ اس مجموعہ کے فلیپ پر ڈاکٹر وزیر آغا ، سیّد ضمیر جعفری، ڈاکٹر و حید قریشی، فخر زماں، شہزاد احمد، ظفر اقبال، آفتاب اقبال شمیم اور اسلم سراج الدین کی آراءدرج ہیں۔ان آراءسے اکبر حمیدی کی شاعری کے کئی خوبصورت پہلو مزید روشن ہوتے ہیں۔ سید ضمیر جعفری اکبر حمیدی کے بارے میں لکھتے ہیں۔”وہ ایک ایسا فنکار ہے جس کوحال کا قانون قید او ر مستقبل کا مؤرخ بری کرتا ہے۔“ ظفر اقبال کی یہ رائے بھی صائب ہے۔”اکبر حمیدی نے جو خاص کام کیا ہے ، وہ روز مرہ کے بعض ایسے الفاظ جو جدید اردو غزل میں بالعموم استعمال نہیں کیے جاتے، اس نے بڑی مہارت سے برت کر غزل کی فضا کو بھی کسی حد تک تبدیل کرنے کی سعی کی ہے۔ یہ اجتہادی رویہ جدید غزل کا منفرد ذائقہ بھی متعین کرتا ہے۔“
(تبصرہ مطبوعہ جدید ادب جرمنی جولائی تا دسمبر ۲۰۰۳ء)
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
اردو شاعری میں اکبر حمیدی کا تازہ اور ساتواں شعری مجموعہ”شورِ بادباں“ پیشِ نظر ہے۔یہ مجموعہ اکبر حمیدی کی غزل گوئی کے سفر کی اب تک کی کہانی سناتا ہے۔پہلے والی روانی کے ساتھ انہوں نے اس بار کچھ ایسے اوزان میں بھی غزلیں کہی ہیں جن میں انہوں نے پہلے غزل نہیں کہی۔اس سے قادرالکلامی تو ظاہر ہوتی ہے لیکن اکبر حمیدی کی غزل کا جو ایک مخصوص بہاؤ تھا وہ غائب ہو جاتا ہے۔تاہم ایسی غزلیں کم تعداد میں ہیں۔عمومی طور پر اکبر حمیدی اپنے مخصوص انداز میں اپنی غزل کا سفر طے کر رہے ہیں۔اس سفر میں ان کے مزاج کی خوش خیالی اور خیالات کی پرواز دونوں کا ارتقا دیکھا جا سکتا ہے۔چند اشعار سے میری بات کا اندازہ کیا جا سکتا ہے:
کس روز یہ اصرار ہمارا نہیں ہوتا کچھ اور بھی،اتنے میں گزارا نہیں ہوتا
غزل گلی سے کئی آسماں گزرتے ہیں زباں سنبھال کے اہلِ زباں گزرتے ہیں
کچھ اتنی تیز ہے رفتارِ عالم زمانے بے نشاں ہونے پہ آئے
کہاں تک ذکر قیس و کوہکن کا بہت ہم نے بھی ٹکریں ماریاں ہیں
جان پیاری ہے تو بس چلتے چلے جاؤ میاں کیوں کھڑے ہو یہ درِ یار نہیں ہے بھائی
زور و زر کا ہی سلسلہ ہے میاں لفظ کو کون پوچھتا ہے میاں
یہاں تلک بھی ہمیں پائمال ہونا تھا ہمیں مثال،انہیں بے مثال ہونا تھا
عجیب زاویے اس کی جیومیٹری میں ہیں کہیں خطوط ، کہیں دائرے نکلتے ہیں
عقل بھی،جذبہ بھی،دونوں مِرے ساتھی ہیں مگر
بعض اوقات میں دونوں کو اٹھا دیتا ہوں
سابقہ شعری مجموعوں کے حوالے سے ابھی تک اکبر حمیدی کے ہاں پیش آمدہ صورتحال پر صبر و تحمل،دعا، اور ایمان کی مضبوطی کا تاثر ملتا تھا لیکن اس مجموعہ میں وہ اپنے ان رویوں سے کچھ آگے بڑھے ہیں اور برملا کہنے لگے ہیں:
کب تلک وقت ٹالنا ہوگا راستہ تو نکالنا ہوگا
عقل بھی عشق کرنا جانتی ہے خود کو بس اعتدالنا ہوگا
اگلی نسلوں کو کفر سازی کے
چکروں سے نکالنا ہوگا
”شورِ بادباں“ میں اکبر حمیدی نے کسی بڑے شاعر،ادیب یا نقاد سے کوئی پیش لفظ یا دیباچہ نہیں لکھوایااور اس سلسلے میں اس نتیجے پر پہنچے ہیں کہ دیباچے کتاب کے لیے نقصان دہ ہوتے ہیں کیونکہ پھرقارئین دیباچے کے افکار کی روشنی میں ہی کتاب کا مطالعہ کرتے ہیں۔اکبر حمیدی کا موقف وزن رکھتا ہے۔انہوں نے اپنی وضاحت میں جس نکتے کو ابھارا ہے یقیناََ غور طلب ہے۔یوں بھی ایک طویل عرصہ تک شاعری کرنے کے بعد اکبر حمیدی اب اپنی شعری عمر کے اس حصہ میں ہیں جہاں ان کا نام ہی ان کی شاعری کا دیباچہ،پیش لفظ ،معتبر حوالہ اور سب کچھ ہے۔ادب کے سنجیدہ قاری کے لیے اتنا حوالہ ہی بڑا حوالہ ہے کہ وہ اکبر حمیدی کی شاعری کو پڑھ رہا ہے۔
”شورِ بادباں“سے مزید چند اشعار پیش کر کے کتاب کا یہ تعارف مکمل کرتا ہوں۔
ملنا نہیں، رستہ بھی بدلنا ہو ا مشکل اس شہر میں اب گھر سے نکلنا ہوا مشکل
جن وقتوں میں انجان تھا، آساں تھا بہلنا اب جان لیا ہے تو بہلنا ہوا مشکل
جل اُٹھتے تھے ہم آتشیں نظروں سے بھی اکبر اب آگ دکھاؤ بھی تو جلنا ہوا مشکل
ضد نہ کر آج پہ اتنی اکبر ورنہ وہ کل سے مکر جائے گا
کچھ سال تو آئین بنانے میں لگے ہیں باقی کے ترامیم کرانے میں لگے ہیں
ان حربوں سے وہ اونچا اڑا سکتا تھا خود کو جو حربے اسے مجھ کو گرانے میں لگے ہیں
”شورِ بادباں“ اکبر حمیدی کی مجموعی شعری شخصیت کے تاثر کو مزید گہرا کرتا ہے!
(تبصرہ مطبوعہ جدید ادب جرمنی جنوری تا جون ۲۰۰۶ء)