شہزاد احمد (لاہور)
نئی غزل کی ابتدا تو پاکستان بننے کے چند برس بعد ہی ہو گئی تھی، مگر اس نئے رجحان کا مطالعہ کرنے کے لیے کوئی باقاعدہ تنقیدی روایت موجود نہیں تھی، نظم کی تنقید کی ابتدا حلقہ ارباب ذوق میں ہو چکی تھی، مگر غزل کے سلسلے میں تنقیدی معیارات وہی تھے جو کلاسیکل غزل کے حوالے سے مقرر کیے جا چکے تھے۔ ان میں البتہ داخلیت اور خارجیت کی اصطلاحوں کا اضافہ ہو گیا تھا۔ خارجیت کو اکثر اوقات معروضیت بھی کہا جاتا تھا اور کبھی کبھی خارجیت اور حقیقت پسندی کی اصطلاحات کو ایک دوسرے کی جگہ بھی استعمال کرنے سے دریغ نہیں کیا جاتا تھا۔ یوں لگتا تھا کہ شاعر کا اپنی ذات کے بارے میں گفتگو کرنا اگر جرم نہیں ہے تو ایسا رویہ بھی نہیں ہے جس پر شاعر فخر کر سکے، اس نئے رویے کے پیچھے ایک پوری تحریک کام کر رہی تھی۔ جو کرداریت کے مکتب فکر کی طرح باطن اور فرد دونوں کی نفی کرنے کے لیے پوری طرح تیار تھی۔ لہٰذا کہا گیا کہ جو لکھنے والے اس اصول سے متفق نہیں ہیں ان کی تحریروں کو تحریک کے رسالوں میں جگہ نہ دی جائے۔ بس وہ دن اور آج کا دن دریا نے الٹے رُخ بہنا شروع کر دیا اور پھر ایسی داخلیت کو شاعری کی بنیاد بنایا گیا جو کسی فلسفے یا مابعد الطبیعیات کی پابند نہیں تھی۔ چنانچہ جدید غزل اپنے مزاج کے لحاظ سے ایک ایسا رویہ ہے جو فرد کی شکست و ریخت کو اہمیت دیتا ہے اور کسی قسم کے مربوط نظامِ فکر کی پابندی قبول نہیں کرتا۔ مگر جس طرح وجودی فلسفے کی بہت سی صورتیں ہیں۔ اسی طرح جدید غزل کو ہم کسی خاص انسانی تعصب تک محدود نہیں رکھ سکتے ۔
دوسری اہم بات یہ بھی ہے کہ جس فرد کو موضوعِ گفتگو بنایا گیا ہے۔ وہ معاشرے کا فرد ہے اور ان کے دکھ سکھ کا تعلق بیرونی دنیا سے بہت گہرا ہے۔ لہٰذا ہم خارجیت یا حقیقت پسندی کو جدید غزل سے الگ نہیں کر سکتے۔ فرق صرف اس قدر ہے کہ جدید غزل نے خارجی حوالے کو محض دنیا نہیں سمجھا فرد کا ذاتی مسئلہ قرار دیا ہے۔ اب فرد محض باطن نہیں ہے بلکہ ایک ایسا مرکزی نقطہ ہے جس کا تعلق بیک وقت ظاہر اور باطن کے ساتھ ہے۔ اس رویے کو ہم جینس (Janns) کا نام بھی دے سکتے ہیں۔ جینس ایک رومن دیوتا ہے جس کے دو منہ ہیں ایک منہ سے وہ باہر کی طرف دیکھتا ہے اور دوسرے سے اندر کی طرف:
زندگی جاگ کے ہی سب نے گزاری اکبر فرق یہ ہے کوئی اندر کوئی باہر جاگے
چنانچہ المیہ تو یہی ہے کہ زندگی کو عام طور محض ایک چہرے سے دیکھا جاتا ہے۔ حالانکہ یہ محض آدھی سچائی ہے اور آدھی سچائی جھوٹ سے کہیں زیادہ خطرناک شے ہے۔اب تک میں نے جتنی بات کی ہے وہ مجموعی طور پر نئی غزل کے حوالے سے کی ہے۔ مگر اکبر حمیدی کے مجموعہ کلام ”تلواراُس کے ہاتھ“کو پڑھتے ہوئے مجھے بار بار اس کا خیال آیا ہے۔ میں کوئی نقاد تو ہوں نہیں کہ مجھے گفتگو کا آغاز کرنے کے لیے کسی باقاعدہ thesisکی ضرورت ہو جس طرح ہم راہ چلتے کوئی نئی بات سوچ لیتے ہیں یا غزل کا کوئی شعر لکھ لیتے ہیں۔ اسی طرح شعر کی تنقید کو بھی خودپر وارد ہونے کا انتظار کیا جا سکتا ہے۔
داخلیت اور خارجیت کی جس بحث کا ذکر میں نے آغاز میں کیا تھا۔ اس کا ایک پرتو اکبر حمیدی کی شاعری میں موجود ہے، اگرچہ وہ خارجیت کے بہت دلدادہ نظر آتے ہیں مگر باطن سے انکار کہیں نہیں کرتے بلکہ ان کی شاعری میں خارج کو بھی باطن کے حوالے سے دیکھنے کی کوشش بار بار نظر آتی ہے۔ یہ عرض کر دوں کہ جدید شاعری میں بھی بہت سے لوگ باطن کو خارج کے حوالے سے دیکھتے ہیں ان کے ”مَیں“ کا بنیادی طور پر معاشرتی حوالہ ہے باطنی نہیں۔اکبر حمیدی کے ہاں جینس کے دونوں رویے موجود ہیں۔ خارج ان کے لیے بہت اہم سہی، آخر گھر، بیوی بچے نوکری اور دوستانے کس کو عزیز نہیں ہوتے۔ مگر یہ زندگی کا وہ رُخ ہے جو شاعری کا موضوع تو بنتا ہے شاعری کی بنیاد نہیں بنتا۔ بنیادی حقیقت تو شاید وہی باطن ہے جسے ہم ”مَیں“ کا نام بھی نہیں دے سکتے۔ کیونکہ ”میں“ دنیاوی تشخص ہی کا ایک referenceہے۔
دو دماغی نظریے کی بنیاد پر کہا جا سکتا ہے کہ ”میں“ بائیں دماغ کا حصہ ہے اور شاعری کی آماجگاہ داہنا دماغ ہے۔ یہ دو الگ الگ منطقے ہیں۔ مگر ان کو ایک اکائی میں پرونے ہی کا نام شاعری ہے۔ مگر اس لمحۂ گریزاں کا حصول کیا کیا ہوتا ہے۔ بقول اکبر حمیدی:
میں ہوں کہ ابھی شست بدلنے نہیں پاتا اور شاخ بدل جاتا ہے منظر کا پرندہ
معاشرتی اور انفرادی، دونوں سطحوں پر انسان کے لیے ذات (Self) کا مسئلہ ہمیشہ اہم رہا ہے، آخر یہ ’میں‘ کون ہے جس کے حوالے سے ہر شخص گفتگو کرتا ہے۔ ہم اسے ’انا‘ یا ’انانیت‘ کے مسئلہ کا بھی نام دیتے ہیں۔ کہتے ہیں کوئی شخص کئی برس کے بعد اپنے فلسفی دوست کو ملنے گیا، مگر فلسفی اسے پہچان نہ پایا۔ دوست نے کہا کہ میں وہی تمہارا پرانا دوست ہوں جو ایک زمانے میں دن رات تمہارے ساتھ رہا کرتا تھا۔ فلسفی بولا، ”تم وہ شخص کیسے ہو سکتے ہو جبکہ سات برس کے دوران انسانی جسم کا ہر خلیہ تبدیل ہو جاتا ہے۔“
میں کہتا ہوں ، ’یہ میرا ہاتھ، میرے پاﺅں ہیں، میرا سر ہے‘ لیکن اگر مرے جسم کے یہ حصے نہ ہوں تو میرا کوئی وجود نہیں، یعنی وہ آواز باقی ہی نہیں رہتی جو اپنے آپ کو ’مَیں‘ کہتی ہے۔ اس مسئلے کا کوئی ایک جواب تو ممکن نہیں مگر اتنا کہا جا سکتا ہے کہ نفسیات اس مقام سے آغاز کرتی ہے جہاں ’میں‘ کو بطور حققیت تسلیم کر لیا جاتا ہے۔ یہ نفسیات کے دائرۂ کار ہی میں نہیں ہے کہ وہ ’میں‘ کے بارے میں سوال اٹھائے، اگر ایسا کوئی سوال اٹھایا جائے تو یہ مابعد النفسیات یا مابعد الطبیعات کے زمرے میں آتا ہے۔
فرائیڈ اور اس کے مکتب فکر نے اس ’مَیں‘ کے لیے ایغو (Ego) کی اصطلاح کو استعمال کیا تھا، پھر اس اصطلاح کو استعمال کرنے کے بعد فرائیڈ نے کہا تھا کہ ایغو تین سفاک آقاﺅں کے نرغے میں ہے، ایک طرف تو اس کی جبلی خواہشات ہیں جو ہر قیمت پر اپنی تسکین چاہتی ہیں، دوسری طرف اس کا سوپر ایغو یا ضمیر ہے، جو انسان کے اندر معاشرے کی نمائندگی کرتا ہے اور ایغو کو بات بات پر لعن طعن کرتا رہتا ہے۔ تیسری سمت میں بیرونی دنیا ہے جو فرد کو اپنی مرضی پر چلانا چاہتی ہے، لہٰذا بیچارہ ایغو ہر وقت ان تینوں آقاﺅں کو خوش کرنے کی الجھن میں پڑا رہتا ہے۔ اس صورتِ حال کو بدل دینا تو اس کے لیے ممکن نہیں ہوتا مگر وہ اس صورتِ حال سے نپٹنے کے لیے یا اپنے آپ کو مطمئن رکھنے کے لیے اپنے لیے کچھ واہمے (illusion) تشکیل دے لیتا ہے اور پھر کوشش کرتا ہے کہ وہ ان تینوں سے جان چھڑا کر اپنی بنائی ہوئی ’واہماتی‘ دنیا میں زندگی بسر کر سکے۔
یہ تینوں آقا اس قدر بے رحم ہیں کہ واہمہ بنائے بغیر گزارا ہی نہیں ہے۔ آپ سردیوں میں گرم کپڑے پہنتے ہیں تاکہ اس سردی کا احساس نہ ہو جو باہر موجود ہے۔ گرمیوں میں جب دھوپ بہت تیز ہو تو سیاہ عینک لگالی جاتی ہے تاکہ گرمی کی شدت کم محسوس ہو۔ واہمے بھی لباس اور عینک کی طرح ہوتے ہیں۔ ان کے وجود سے بیرونی دنیا میں کوئی تبدیلی نہیں آتی مگر ان کو استعمال کرنے والا انسان خود کو محفوظ اور مطمئن محسوس کرتا ہے۔
اسی حوالے سے معاشرتی سطح پر دوسرا اہم مسئلہ یہ بھی ہے کہ انسان اپنے لیے کس کردار کا انتخاب کرتا ہے، ایک مکالمہ نویس کا فلم پروڈیوسر سے جھگڑا ہوگیا تو اس نے کہا ”بادشاہ سے لے کر فقیر تک اور غنڈے سے لے کر شریف تک سب کے مکالمے لکھ سکتا ہوں مگر میں نے اپنے لیے شریف آدمی کے مکالموں کا انتخاب کیا ہے۔“ شکسپیر نے بھی زندگی کو ایک سٹیج کہا تھا جس میں تمام انسان اپنے کردار ادا کرتے ہیں اور چلے جاتے ہیں۔ لہٰذا یہ کہا جا سکتا ہے کہ شاعر بھی اپنے لیے کسی سماجی کردار کا انتخاب کرتا ہے اور اس کی ساری شاعری اس کے حوالے سے ہوتی ہے۔ مگر یہ یاد رکھنا چاہیے کہ اس کردار کے اندر دو چیزیں ضرور موجود ہوتی ہیں۔ ایک تو اس مثالی شخصیت کا عکس جو شاعر کا مقصود ہوتی ہے اور دوسرے تینوں آقاﺅں کے بارے میں بہت حد تک آرزومندانہ (Wishful) رویہ۔
کہتے ہیں کہ حلقہ ارباب ذوق کے جلسوں میں میرا جی ہر نظم سننے کے بعد اس کے پس منظر میں چھپی ہوئی کہانی کو تلاش کیا کرتے تھے، اگر یہ کہانی دریافت ہو جائے تو یہی نظم کی کلید ہے، یہ بھی کہا جا سکتا ہے کہ اس کے بغیر نظم کو سمجھنا میرا جی کے نزدیک ممکن نہیں تھا۔ اب اگر اس حوالے سے اکبر حمیدی کی شاعری کو دیکھا جائے تو ایک دلچسپ صورتِ حال پیدا ہو جاتی ہے جس کردار کے حوالے سے شاعری کی گئی ہے وہ جیتے جاگتے اکبر حمیدی سے بالکل مختلف تو نہیں ہو سکتا مگر قدرے مختلف ضرور ہو سکتا ہے۔ دوسرے ہمعصر شعرا کی طرح اکبر حمیدی کے مسائل بھی موجود صورتِ حال سے متعلق ہیں۔ ترقی پسند اسے معاشی صورتِ حال کے حوالے سے بیان کرنا پسند کریں گے۔ حال ہی میں جو مدافعتی ادب کی لہر چلی ہے اس سے متعلق لوگ ممکن ہے اسے جبر کے خلاف مدافعت کہنا پسند کریں، مگر اس کہانی کا مرکزی کردار میرے خیال میں ایک ایسا بے گناہ شخص ہے جسے خواہ مخواہ معتوب کیا جا رہا ہے۔ اس بات سے ہمارا کوئی تعلق نہیں کہ اصل واقعہ کیا ہے۔ ادب کے طالب علم کی حیثیت سے ہم صرف اس رویے تک ہی محدود رہ سکتے ہیں جو شاعر نے شعر لکھتے وقت اختیار کیا ہے اور شاعری ویسے بھی حقیقت کے محض ظاہری رخ کا اظہار نہیں ہوتی۔ اسے کچھ نہ کچھ اپنے باطن میں بھی اترنا ہوتا ہے۔
اکبر حمیدی نے جب مجھ سے ’شہر بدر‘ کا دیباچہ لکھنے کے لیے کہا تھا تو میں نے عرض کیا تھا کہ آپ جیسے خود شعوری کے حامل شاعر کو خود ہی لکھنا چاہیے۔ جب آدمی کے دونوں پاﺅں سلامت ہوں تو اسے دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلنے کی کیا ضرورت ہے لیکن شاید یہ بھی انسانی جبلت ہے کہ وہ محض اس لیے دوسرے کے کاندھے پر ہاتھ رکھ کر چلتا ہے کہ اسے اپنی تنہائی کا احساس نہ ہو۔ جب میں نے ان کی کتاب کا مطالعہ کیا تو مجھ پر کھلا کہ ان کے مجموعے میں کچھ باتیں ناگفتنی بھی ہیں، وہ معاشرتی سطح پر ایک گھٹن اور دباﺅ کا احساس رکھتے ہیں، اور اس کو محض ایک واہمہ بھی نہیںکہا جا سکتا کیونکہ واہمہ تو بار بار ٹوٹتا ہے مگر گھٹن کی یہ فضا ایک تسلسل کے ساتھ سارے مجموعے میں موجود ہے۔ اس کا حل کسی ایک فرد کے پاس نہیں ہے۔ ہم سب کو مل کر ہی معاشرے میں تازہ ہوا کے لیے کھڑکیوں کو کھولنا ہوگا، یاد رکھیے جب ہم دوسرے کے لیے کھڑکیاں بند کرتے ہیں تو خود ہمارے لیے بھی آکسیجن کم ہو جاتی ہے۔
اکبرحمیدی صاحب کا خیال ہے کہ ان کی حالیہ شاعری زیادہ وسعت کی حامل ہے۔ شاید اس سے ان کی مراد یہ ہے کہ ان کے تخلیقی مسائل میں اضافہ ہوا ہے۔ شاعری کی سطح تک تو یہ اچھی بات ہی کہی جا سکتی ہے، جیسے کوئی ندی زیادہ بڑی ندی کی صورت اختیار کرلے۔ مجھے یہ بھی لگتا ہے کہ اس ندی کی روانی میں کچھ شدت بھی آ گئی ہے مگر میری یہ بھی خواہش ہے کہ یہ ندی کناروں ہی کے اندر بہے، انسان کو حالات کا مقابلہ کرتے ہوئے اپنے بنیادی رویے کو ضرور پیش نظر رکھنا چاہیے کیونکہ یہی اس کی پہچان ہے۔
جس فضا کا میں نے ابھی ذکر کیا ہے، وہ ایک ایسا تناظرہے جو دوسروں سے کہیں زیادہ اکبرحمیدی میں موجود ہے مگر اس کا یہ مطلب نہیں ہے کہ انہوں نے دوسرے تمام معاملات زندگی کو نظرانداز کیا ہے۔ ان کے ہاں محبت، دوستی، رفاقت، رقابت غرض ہر طرح کے مضامین جا بجا نظر آتے ہیں اور غزل کے حوالے سے یہ کوئی ضروری بھی نہیں ہے کہ ہر چیز کے بارے میں الگ انفرادی رویہ رکھا جائے ۔ آخر ہم ایک اجتماع کا حصہ بھی تو ہیں جس میں کبھی کبھی ہم اپنی پہچان کو خود ہی گم کر دینا چاہتے ہیں۔ مثلاً قومی شاعری میں یہ رویہ خاص طور پر ابھر کر سامنے آ جاتا ہے۔ اکبر حمیدی نے ماں کے متعلق جو شعر کہے ہیں وہ بھی ذات کی نفی ہی کا اظہار ہیں۔
مجھے لگتا ہے کہ گفتگو قدرے طویل ہو گئی ہے۔ لہٰذا اب میں آپ کے اور شہر بدر کے درمیان حائل نہیں رہنا چاہتا۔ جاتے جاتے اس کتاب کے چند اشعار سنانا چاہتا ہوں۔ یہ میری اپنی پسند ہے، آپ کی پسند مجھ سے مختلف بھی ہو سکتی ہے۔
عجب ہنستی ہوئی آنکھیں ہیں اس کی مجھے وہ خوش نظر اچھا لگا ہے
رات پر رات یہاں آئے چلی جاتی ہے اب کے تو آپ ہی آئیں تو سویرا ہووے
نظر میں پھرتا ہے اک ایک دوست کا چہرہ کہ رات آئی مجھے دشمنوں کی بستی میں
کوئی نادیدہ انگلی اُٹھ رہی ہے مری جانب اشارہ ہو رہا ہے
یہ سوچ کر کبھی ترکِ وفا نہیں کرتا کہ بے وفا کو بہت اعتبار ہے مجھ پر
ستارے جاگتے تھے ساتھ جس کے وہ اب راتوں کو تنہا جاگتا ہے
وہ تو سورج کا استعارہ ہے بجھتا جائے دیے جلاتا جائے
خامشی جرم ہے جب منہ میں زباں ہو اکبر کچھ نہ کہنا بھی ہے ظالم کی حمایت کرنا
٭٭٭
اُردو شاعری میں محبت کی محرومی ایک محبوب موضوع کی حیثیت سے روایت کا درجہ رکھتی ہے۔ محبت دراصل خواہش کے مُشتعل ہونے کا نام ہے۔اگر یہ خواہش محض جسم کی دنیا زیر و زبر کرنے پر مستعد رہے تو ایسی شاعری وجود میں آتی ہے جو معاملہ بندی کے مضامین سے اُوپر نہیں اُٹھتی۔مگر جب خواہش جسم کے ”آگ کے دریا“ میں ڈوبے بغیر خیریت کے ساتھ روح کے ساحل پر پہنچنے میں کامیاب ہو جائے اور ایک روحانی تڑپ کی صورت میں ڈھل جائے تو نتیجةً تخلیق ہونے والی شاعری نئے نئے مضامین کے تنوع سے لبریز ہوتی ہے، اگرچہ اس شاعری میں ہجر ایک مرکزی حوالے کی صورت موجود ہوتا ہے۔ خواہش کی مقدم الذکر صورت نواب کے آوارہ، بگڑے بیٹے کی طرح ہے کہ جلد ہی پامال ہو جاتی ہے، جبکہ مؤخر الذکرصورت میں خواہش وہ درویش ہے، جو متعدد دنیوی چیزوں سے بے نیاز ہے اور جو سیماب پا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ اس درویشانہ شاعری میں جذبہ یا خواہش زندہ تو رہتے ہیں (یعنی محبوب کے وصل کی تمنا جواں رہتی ہے) مگر Lustکی طرح کسی ایک کھونٹ سے نہیں جُڑے ہوتے ۔بلکہ زندہ اور توانا ہستی entityکی طرح دیگر اشیا سے اپنے روابط دریافت کرتے ہیں، اور اس عمل میں شاعر کا جمالیاتی احساس اُس کا راہنما ہوتا ہے۔ چنانچہ شاعر جمالِ یار کے حوالے سے کائنات میں حُسن کے کتنے ہی زاویے دریافت کرنے میں کامیاب ہوتا ہے۔ اردو شاعری میں محبت کی محرومی یا ہجر کے موضوع کو اِس زاویۂ نظر سے بھی دیکھنا چاہیے۔ (اکبر حمیدی کی غزل مضمون از ناصر عباس نیر سے اقتباس)