ڈاکٹر رشید امجد(راولپنڈی)
”تلوار اُس کے ہاتھ“ اور ”شہربدر“ کو اگر اکبرحمیدی کی شاعری کے دو بنیادی استعارے تصور کر لیا جائے تو احتجاج اور ردّعمل سے شہر بدری تک کی کہانی مکمل ہو جاتی ہے۔ اکبر حمیدی کے ردّعمل، احتجاج، بغاوت اور پھر شہر بدری کو کئی سطحوں پر دیکھا جا سکتا ہے کیونکہ اس کی شاعری پورے سیاسی، سماجی رویوں کے ساتھ اپنی پہچان کراتی ہے۔
ایک فرد اور ذات کے حوالے سے یہ بغاوت اور احتجاج دوسروں کی ذہنی بالادستی سے انکار ہے بلکہ یوں کہنا چاہیے کہ اپنے طور پر جینے کا حق مانگنا اور اس حق کا تحفظ کرناہے۔ اکبر حمیدی کے یہاں فرد کی تکمیل اس کی ذات اور حقوق کے حوالے سے ہوتی ہے یعنی اس کا فرد اپنی ایک انا رکھتا ہے یا یوں کہہ لیجیے کہ اس کا ایک نظریۂ حیات ہے جس کے ساتھ اس کی وابستگی خالصتاًجذباتی ہے اور وہ نہیں چاہتا کہ کوئی دوسرا اسے اس سے دستبرداری پر مجبور کرے۔ ایسی صورت میں اس کے یہاں ایک شدید مخالفانہ ردّعمل پیدا ہوتا ہے اور سمجھوتے یا مصلحت کی بجائے وہ مقابلے کی راہ اختیار کرتا ہے۔ یہ راہ اُس کے یہاں احتجاج کی لہر کو جنم دیتی ہے جو دفاعی بھی ہے اور اپنا تحفظ کرنے کا حق بھی۔ اس کے ساتھ ہی غلط کی نشاندہی اور اس پر وار کرنے کا رویہ بھی ہے جس کی وجہ سے اس کا ردّعمل مثبت ہو جاتا ہے یعنی اس کی تلوار اور وار صرف شخصی دفاع یا تحفظ کے لیے مخصوص نہیں رہ جاتا بلکہ فرد سے آگے نکل کر اجتماع کے دفاع اور تحفظ کا ذمہ لے لیتا ہے۔ اس سے اس کے لہجہ میں ایک تیقن اور حق گوئی پیدا ہو جاتی ہے:۔
خامشی جرم ہے جب منہ میں زباں ہو اکبر کچھ نہ کہنا بھی ہے ظالم کی حمایت کرنا
عجب سی صورتِ حالات میں ہوں میں جیسے غیر کی بارات میں ہوں
راستہ مل جائے گا ہمت اگر کرتے رہیں ٹھہر جانے سے تو بہتر ہے سفر کرتے رہیں
بہت مشکل ہے ان حالوں میں جینا مگر میں زندگی پر تُل گیا ہوں
وفاداری بشرطِ استواری میرا مسلک ہے ہدف ہوں بے وفائی کا وفا کے گیت گاتا ہوں
شبوں کے حبس میں خود سانس بھی لیتا ہوں مشکل سے صبا بن کر دلوں کے آنگنوں میں مسکراتا ہوں
کافر ہوں تو کافر سا ہے کردار بھی میرا مومن ہے تو مومن سا وہ کردار دکھائے
اور اس طرح کے دوسرے شعروں میں جدوجہد کے ساتھ زندگی کرنے کا رویہ صرف فرد کی حد تک نہیںبلکہ یہ جہادمجموعی معاشرتی برائیوں کے خلاف ہے، یوں اس کے یہاں احتجاج کی دوسری سطح سماجی ہو جاتی ہے۔ مجموعی معاشرتی صورتِ حال اور طبقاتی اونچ نیچ کے نتیجے میں پیدا ہونے والی بداعمالیوں کی نشاندہی اور برائیوں کے خلاف یہ آواز ایک قومی شعور کی علامت ہے۔ معاشرے کا عمومی زوال وہ پس منظر ہے جس سے اکبرحمیدی کا احتجاج پیدا ہوتا ہے۔ وہ معاشرتی تشدد اور طبقاتی جبر کے خلاف آواز اٹھاتا ہے اور ایک مثالی معاشرے کا خواب بھی دیکھتا ہے۔ اپنے اس خواب کی وضاحت کرتے ہوئے وہ کہتا ہے:۔
”جہاں انسان سچ بول سکے۔ امن سے زندگی بسر کر سکے، اپنے نظریات کے ساتھ باعزت زندگی گزارنے کی آزادی ہو، جہاں اسے معاشرتی انصاف حاصل ہو۔ میرا خواب ظلم، نفرت اور ہر قسم کے استحصال سے پاک ایک ایسا ہی معاشرہ ہے (شہر بدر)
اس خواب کے حوالے سے وہ ایک کومٹڈ نظریاتی شاعر بنتا ہے لیکن اس نے سیاست کو براہِ راست اپنا موضوع نہیں بنایا اور نہ ہی نظریے کے نام پر وضاحتی یا پروپیگنڈہ شاعری کی ہے۔ اس کے سارے کلام میں واضح طور پر نچلے طبقوں سے ہمدردی کا جذبہ موجود ہے لیکن اُس نے اس جذبے کو ایک فکری احتجاج کی شکل میں پیش کیا ہے۔ اس احتجاج کی چند لہریں ملاحظہ کیجیے:۔
شہر اب صالحیں کی نذر ہوا سب وطن دوست ہیں کٹہروں میں
اونچی آواز میں جو بولتا ہوں زندگی کر رہا ہوں بہروں میں
وہ کیسا خواب دیکھا جا رہا تھا یہ کیا تعبیر ہوتی جا رہی ہے
ہمالیہ پہ بھی گزریں تو ریزہ ریزہ ہو وہ جبر و صبر کے عالم جو ہم پہ گزرے ہیں
بیٹھ رہنے سے کچھ نہیں ہوگا ظلم سہنے سے کچھ نہیں ہوگا
خون بہنے سے کچھ بنے تو بنے اشک بہنے سے کچھ نہیں ہوگا
ناچ اٹھو لہو پہن کر بھی خاک پہنے سے کچھ نہیں ہوگا
ان اشعار میں جبر کے خلاف کچھ کر گزرنے کی جو خواہش ہے وہ اکبر حمیدی کی زندگی سے عملی وابستگی کا اظہار کرتی ہے کہ وہ صرف خواب دیکھنے والا شاعر نہیں بلکہ اس خواب کی تعبیر کے حصول کے لیے عمل کی دعوت بھی دیتا ہے۔ عمل کی یہ دعوت جس مجموعی معاشرتی زوال کے پس منظر میں ابھری ہے۔ اس کا پھیلاﺅ صرف ایک معاشرے تک محدود نہیں بلکہ تیسری دنیا کے اکثر ممالک اسی سماجی معاشرتی بلکہ اقتصادی بدحالی کا شکار ہیں۔ اس حوالے سے اکبر حمیدی کا فکری دائرہ خاصا وسیع ہے۔
اکبر حمیدی کے احتجاج کی تیسری لہر سیاسی تشدد سے جنم لیتی ہے، آج کے دَور میں کسی بھی سماجی زوال کو سیاست سے الگ کر کے نہیں دیکھا جا سکتا۔ ایک بُرا سیاسی نظام اکثر معاشرتی خرابیوں کا سبب ہوتا ہے۔ تیسری دنیا کے ممالک جن میں پاکستان بھی شامل ہے اپنی آزادی کے بعد جس زوال پذیر سیاسی نظام کی جکڑ میں آئے ہیں اُس نے اقتصادی بدحالی ہی کوجنم نہیں دیا بلکہ ایک فکری کم مائیگی کا احساس بھی پیدا کیا ہے۔ اس کے علاوہ سیاسی تشدد نے ایک مجموعی بدلحاظی کو بھی جنم دیا ہے جس میں بالادست کی طرف سے کمزور کے حقوق غصب کرنے کے ساتھ ساتھ اُسے ایک ذہنی غلامی میں مقید کرنا ہے۔ گویا نو آبادی نظام نے آزادی کے بعد ایک نئی طرح کے نو آبادی نظام کو پیدا کیا ہے جس کا تشدد اور جبر پہلے سے بھی زیادہ ہے۔ فرق یہ ہے کہ پہلے یہ تشدد دکھائی دیتا تھا اب بظاہر آزادی ہے لیکن درونِ خانہ و ہی حیلے ہیں پرویزی۔ اکبر حمیدی نے بڑے واضح انداز میں اس جبر و تشدد کے خلاف آواز اٹھائی ہے اور جا بجا اپنے ردّعمل کا اظہار کیا ہے:۔
خامشی جرم ہے جب منہ میں زباں ہو اکبر کچھ نہ کہنا بھی ہے ظالم کی حمایت کرنا
حالات کڑے ہیں تو اتارو لہو صدقہ جینا ہے تو جاں نذر گزارو مِرے پیارو
باقی ہے ا بھی رات عدو گھات میں اکبر جاگو مرے پیارو مرے پیارو مِرے پیارو
پکڑے گا نہیں کیا کوئی ظالم کی کلائی دروازے سے کیا لونگ نہ لشکائے گا کوئی
کیا اب یہاں لوگوں کی زبانیں نہ کھلیں گی الفاظ سے ہونٹوں کو نہ مہکائے گا کوئی
پہلے تو گلستاں کو ہی تقسیم کیا تھا اب وہ گل و بلبل کو بھی تقسیم کریں گے
اکبر مجھے لگتا ہے کہ اس موسم گل میں آئینِ گلستاں میں وہ ترمیم کریں گے
کیسے اُس شہر میں لوگوں کا بسیرا ہووے اس تسلسل سے جہاں دیو کا پھیرا ہووے
مجھے لکھو وہاں کیا ہو رہا ہے یہاں تو پھر تماشا ہو رہا ہے
وہ اپنے ہاتھ سیدھے کر رہے ہیں ہمارا شہر الٹا ہو رہا ہے
وہ مہربان ہے گاﺅں کے سادہ لوحوں پر قلیل رزق میں عمریں طویل دیتا ہے
دلیل دینے سے مطلب، اپیل سے حاصل یہاں تو فیصلے اس کا وکیل دیتا ہے
آخری دو شعروں میں جس خوبصورتی سے سیاسی فکر اور نظام عدل پر طنز کیا گیا ہے وہ اکبر حمیدی کے باشعور ہونے کی دلیل ہے۔ اسے اس بات کا شدت سے احساس ہے کہ اس کے وطن عزیز میں لوٹ کھسوٹ کا ایک بازار گرم ہے اور ایک مخصوص طبقہ اس کی دھرتی کی رعنائیوں کو بے رونق کرنے پر تلا ہوا ہے۔ وہ اس طبقہ کو طنز کا نشانہ بھی بناتا ہے اور اس کی سرگرمیوں سے پردہ بھی اٹھاتا ہے لیکن تمام تر سماجی بے انصافیوں اور ظلم و ستم کی فضا کے باوجود اپنی زمین کے ساتھ اس کی محبت اور وفا دیدنی ہے:
میں شاعر ہوں وطن کا اور وطن کے گیت گاتا ہوں وطن کے ذرے ذرے کو میں آنکھوں سے لگاتا ہوں
مقدس ہے مجھے ماں کی طرح یہ سر زمیں اکبر سرِ مغرور اپنا اس کے قدموں میں جھکاتا ہوں
سرمئی مرگلہ ہے نظروں میں میری نظروں میں کوہِ طور نہیں
وہ اعتماد جو اپنی زمیں سے پاتا ہوں نہ کوہِ طور نہ دریائے نیل دیتا ہے
کعبۂ جاں ہے مجھے اکبر وطن غیر کے محلوں سے اپنا گھر بھلا
وطن اس کے لیے ماں کا درجہ رکھتا ہے اور وطن کے دُکھ اور درد اس کے لیے ماں کے دکھ ہیں چنانچہ وطن سے اس کی وابستگی ایک سچے جذبے کی دین ہے:۔
شکائت اہل خانہ سے ہے ماں کو چھوڑ دوں کیسے میں دروازے تلک جاتا ہوں جا کر لوٹ آتا ہوں
ایسے میں تجھے چھوڑ کے جاﺅں گا نہیں ماں جو گزرے گی جھیلوں گا مگر گھر میں رہوں گا
یہ دونوں شعر اس کی حب الوطنی ہی کی دلیل نہیں اس کے منشور کا اعلان بھی ہیں کہ اس کی جدوجہد وطن کے اندر ان عوامل کے خلاف ہے جنہوں نے اس لیلائے وطن کے چہرے کو داغدار بنا دیا ہے۔ یہ جذبہ اس کے اندر پیدا ہونے والی مایوسی کو بھی دور کرتا ہے اور اسے ایک حوصلہ بھی عطا کرتا ہے:۔
بہت مشکل ہے ان حالوں میں جینا مگر میں زندگی پر تُل گیا ہوں
اور یہی حوصلہ ایک خوش آئند مستقبل کی نوید بھی ہے:۔
چمکیں گے مرے دیس پہ خوشیوں بھرے سورج دھرتی کے لیے امن کی سوغات بھی ہوگی
جب شہر ہے تو شہر کا قانون بھی ہوگا انساں ہیں تو پھر ان میں مساوات بھی ہوگی
موسم ہی نہیں بدلیں گے اس سال میں اکبر تبدیل یہاں صورتِ حالات بھی ہوگی
اکبر حمیدی کی غزل کے یہ وہ رخ تھے جنہیں خارجی عوامل سے تعلق ہے اور اسی سے اس کے یہاں احتجاج کی ایک مؤثر آواز پیدا ہوئی ہے لیکن اس کی شعری کائنات صرف اسی رخ تک محدود نہیں۔ اس میں محبوب اور زلفِ محبوب کے قصے بھی ہیں اور دل گدازی کے سامان بھی۔ چند شعر دیکھیے:
میں پیار کی مالا تو پرو لایا ہوں اکبر اُس بت کے ہیں معیار مگر اور طرح کے
یہ سوچ کر کبھی ترکِ وفا نہیں کرتا کہ بے وفا کو بہت اعتبار ہے مجھ پر
کس سے ہم حالِ دل کہیں اکبر اور ہی رنگ بزمِ یار کے ہیں
تجھے اے رونقِ محفل خبر کیا رہا ہے کوئی تنہا اس برس بھی
تمہاری مانگ سے روشن ہوا ہے سب جنگل تو راستہ بھی کہیں درمیاں سے نکلے گا
اُس گلبدن کو دیکھتے رہنے کا شوق ہے جس نے مری نگاہ کو گل رنگ کر دیا
اکبرحمیدی کی شعری دنیا ایک مکمل انسان کی دنیا ہے جس میں خارج اور باطن دونوں پہلو شامل ہیں اور احتجاج کے ساتھ ساتھ جذبوں کی کوملتا بھی موجود ہے جو اس کی فکر کو خارجی سطح سے بلند کر کے باطنی گہرائیوں میں لے جاتی ہے اور ایک نئی دنیا کے اسرار جاننے کی تمنا اسے نئے رنگوں سے آشنا کر دیتی ہے۔ یوں اس کے یہاں جدت اور ترقی کا ایک سنگم ہوتا ہے۔ جمیل ملک نے درست کہا ہے کہ:۔
”اکبر حمیدی کی غزل ادب کی ترقی پسند اور جدید تحریکوں کے زیر اثر پروان چڑھتی ہے۔ شاعر نے ان دونوں تحریکوں کے بہترین عناصر کو سمیٹ کر اپنا غزلیہ پیکر تراشا ہے اور پھر اس میں اپنے مخصوص رنگ و آہنگ سے ایک پل بنا کر ان دونوں تحریکوں کے درمیانی فاصلوں کو کم کرنے میں ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔“
یہ توازن اکبر حمیدی کی فنی گرفت کا غماز بھی ہے۔ اس کی غزل کے فنی پیکر میں سانس لیتے امیجز بھی ہیں اور خیال کی گہرائی بھی ۔ اسے لفظوں کے دروبست کا سلیقہ ہے۔ ”تلوار اُس کے ہاتھ“ سے ”شہربدر“تک اس کا فنی اور فکری سفر نئی کروٹوں سے آشنا ہوا ہے اور شہرِ غزل میں اس نے اپنے نام کا اعتبار قائم رکھا ہے۔ وزیر آغا کے لفظوں میں:
”اکبر حمیدی نے مضامین کی ندرت اور اسلوب کی تازہ کاری سے غزل کی مسلسل آبیاری کی ہے۔“
یہ مسلسل سفر اور اس کی عطا اکبر حمیدی کی انفرادیت بھی ہے اور اس کی شاعرانہ عظمت بھی۔