جدید ادب جرمنی کا شمارہ :۹موصول ہوا،جس کے لئے شکر گزار ہوں۔اس کو پڑھ کر تازگی کا احساس ہوا۔
میری طرف سے دلی مبارک۔آپ نے اچھا شمارہ مرتب و شائع کیا ہے۔ڈاکٹر جمیل جالبی۔کراچی
’’سرور ادبی اکادمی ‘‘جرمنی کے زیر اہتمام شائع ہونے والے علمی اور ادبی مجلے ’’جدید ادب ‘‘ کا شمارہ نمبر۹ (جولائی تادسمبر ۲۰۰۷ء) موصول ہوا ۔ کرم گستری اور یاد فرمائی کے لیے شکرگزار ہوں۔ بے حداحسان مند ہوں کہ آپ یاد رکھتے ہیں اور رسالہ بھیجنے کی زحمت کرتے ہیں ۔انشاء اللہ جلد ہی اسے پڑھا جائے گا اور یقینا استفادے کی صورتیں نکلیں گی ۔افتخار عارف۔اسلام آباد
آپ کی تحریریں دیکھیں،آپ قلم کی بھر پور زندگی گزار رہے ہیں۔اور آپ کا قلم کسی ایک جہت تک محدود نہیں ہے۔آپ کا وسیع علم اور آپ کی آزاد اور عصبیت سے خالی فکر زندہ اور روشن جذبوں سے ہم آہنگ ہو کر آپ کی ہر تحریر کو منفرد اور معتبر بناتی ہے۔آپ نے جوگندر پال صاحب کے ناول ’’پار پرے‘‘پر جو تبصرہ لکھا ہے وہ تخلیقی تنقید کہلایا جا سکتا ہے۔تبصرہ کیا ہے،اچھی خاصی ناول کی سمری ہے۔اس کی سب سے بڑی خوبی یہ ہے کہ یہ قاری کو ناول پڑھنے پر راغب کرتاہے،ناول کے مرکزی خیال کو اٹھاتا ہے،اسی طرح پال کے افسانوں کے مجموعے پر آپ کا مضمون حاصلِ مطالعہ قسم کا ہے۔اس دور میں جب بغیر کتاب کو پڑھے اس پر لکھا اور بولا جاتا ہے،آپ کیوں پڑھ کر مضمون یا تبصرہ لکھتے ہیں؟’’رہے نام اللہ کا‘‘ایک دلچسپ،شگفتہ اور علمی تحریر ہے۔ایسوسی ایشن آف آئیڈیازکی تیکنیک سے یہ ایک کامیاب تخلیق میں بدل گئی ہے۔عجیب بات ہے کہ اگر میں لکھتا تو میں بھی یہی کچھ اور ایسا ہی لکھتا ۔ ۔ ۔یورپ (جرمنی )میں آپ اردو ادب کے لئے اتنا کچھ کر رہے ہیں کہ جی چاہتا ہے کہ آپ کو بابائے اردو یورپ کہہ کر مخاطب کروں۔ہمارا ماحول بھی عجیب ہے ایک جانب کوئی کرتا بہت کم ہے اور دکھاتا بہت ہے،اس کے نام کے ڈنکے بجتے ہیں۔دوسری جانب کوئی کام میں لگا رہتا ہے۔نہ ستائش کی تمنا نہ صلے کی پرواہ، تو اس کے لئے بڑے بڑے بولنے والے گونگے اور لکھنے والے لا قلم ہوجاتے ہیں،میڈیا کو بھی چپ لگ جاتی ہے۔ایسا کیوں ہے؟ہم سب اس صورتحال کے لئے جوابدہ اور ذمے دار بھی ہیں۔بہر حال میں ایک عرصے سے آپ کی کاوشوں سے آگاہ ہوں اور انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتا ہوں اللہ تعالیٰ آپ کو جوش ، جذبے اور خلوص کو زندہ و تابندہ رکھے۔ عبداللہ جاوید(مسسی ساگا،کینڈا)
Jdeed Adab is in my hand - and , indeed, it is superb. I have today mailed to you, by air mail, a book SATYAPAL ANAND KI TEES NAZMEN edited by Balraj Komal and published from Delhi. The packet also includes a detailed letter in Urdu and a couple of other things for publication. Please ack. by email when you receive it. Again, THE MAGAZINE IS Yours: Satyapal Anand SUPERB.
میں یہ سمجھا کہ عمران شاہد گوپی چند نارنگ کا ایک نیا پہلو جو ترجمہ نگاری کو روشن کرتا ہے اسے روشنی میں لارہے ہیں ۔لیکن جب مضمون پڑھا تو میرے ہوش اڑ گئے۔شاید میرے ذہن میں بھی یہی بات تھی لیکن اتنےــــ’’ بڑے نام‘‘کے لئے میرے پاس الفاظ نہیں تھے یا پھر میرے پاس ہمت نہیں تھی۔عمران شاہد مبارکباد کے مستحق ہیں کہ انہوں نے گوپی چند نارنگ کے تعلق سے نہایت اہم نکتہ اردو دنیا کے سامنے رکھ دیا ۔اگر گوپی چند نارنگ پر ریسرچ بھی ہوتی تو کوئی بھی ریسرچ اسکالر اس نکتہ کو واضح نہیں کرپاتا۔دانش غنی۔(بنگلور،انڈیا)
حیدر قریشی اور نذر خلیق کی ادارت میں جدید ادب جرمنی کا نیا شمارہ شائع ہو گیا ہے۔پرچے کی ترسیل شروع کر دی گئی ہے اور انٹرنیٹ پر بھی اسے آن لائن کر دیا گیا ہے۔اس شمارہ میں حمدو نعت ،دعا کے تحت کچھ نئے تجربے کئے گئے ہیں۔مضامین کے سیکشن میں ڈاکٹر صوفیہ یوسف،ناصر عباس نیر،ڈاکٹر شہناز نبی،ڈاکٹر خلیل توق أر،عبدالرب استاد،عمران شاہد بھنڈر اور ڈاکٹر آصف قادری کے مضاین شامل ہیں۔عمران شاہد بھنڈر کا مضمون پوسٹ ماڈرن ازم کے بارے میں ڈاکٹر گوپی چند نارنگ کے کام کا پوسٹ مارٹم کرتا ہے۔اس میں متعدد اقتباسات کے ساتھ ثابت کیا گیا ہے کہ ڈاکٹر نارنگ نے کوئی حوالہ دئیے بغیر مغربی مصنفین کی کتابوں سے سرقے کئے ہیں۔
اس بار پروفیسر ڈاکٹر حمید سہروردی کے لئے ایک گوشہ سجایا گیا ہے۔غزلیات کے حصہ میں صبا اکبر آبادی، مظفر حنفی ،اکبر حمیدی،تاجدار عادل،ڈاکٹر انور سدید،ڈاکٹر شہناز نبی،حسن عباس رضا،قاضی اعجاز محور،عادل منصوری،رضیہ فصیح احمد،عظیم انصاری،سہیل احمد صدیقی،صادق باجوہ،معید رشیدی،بلند اقبال،عذرا پروین،ناظم خلیلی،پرویز مظفر،حیدر قریشی اور دیگر کی غزلیں شامل ہیں۔افسانوں کے سیکشن میں شہناز نبی،طاہر نقوی،حامد سراج،جان عالم،خورشید اقبال(ترجمہ)،اور حیدر قریشی کے افسانے شامل ہیں۔نظموں کے حصہ میں ستیہ پال آنند، ڈاکٹر انور سدید،شہناز نبی، فرحت نواز،پروین شیر،عذرا پروین،جان عالم۔اقبال نوید،ناظم خلیلی اور اکمل شاکر کی منظومات شامل ہیں۔ خصوصی مطالعہ کے تحت چوہدری سر محمد ظفر اللہ خان کی ایک تحریر ’’میری والدہ‘‘ نایاب تحفہ ہے۔ان کے علاوہ صبا اکبر آبادی ،ڈاکٹر جمیل جالبی،احمد ہمیش،اکبر حمیدی،انجلا ہمیش اور حیدر قریشی کی تحریریں اپنی اپنی جگہ اہمیت کی حامل ہیں۔ماہیوں کے حصہ میں امین خیال،نذیر فتح پوری،سعید رحمانی،ساجد حمید،اقبال آصف،اوم پرکاش آزاد بھاولپوری،فاروق شکیل،نسرین نقاش اور اکمل شاکر کے ماہیے شامل ہیں۔کتاب گھر میں اس بار ڈاکٹر خلیل توق أر،سہیل احمد صدیقی،جاوید رحمانی،عاشور کاظمی،پروین شیر اور رئیس الدین رئیس کی کتابوں پر تبصرے دئیے گئے ہیں جبکہ طاہر نقوی کے مجموعہ پر نذر خلیق نے مضمون لکھا ہے۔
قارئین کے خطوط کے حصہ میں ڈاکٹرظہور احمد اعوان،سعید شباب، پروفیسر ظہورالدین،ناظم خلیلی، انقلاب بمبئی،منشا یاد،ڈاکٹر کرسٹینا،فاروق خالد،نصرت ظہیر،صفدر علی خاں،مقصود الہٰی شیخ،سلطان جمیل نسیم،محمد یونس خاں،سہیل احمد صدیقی،ڈاکٹر غضنفر اقبال،ستیہ پال آنند،سعید رحمانی،کاوش پرتاپگڈھی،معید رشیدی، ڈاکٹر انور سدید، نذیر فتح پوری کے تاثرات شامل ہیں۔اس بار جدید ادب ۲۰۰صفحات کی بجائے ۲۱۶صفحات پر مشتمل ہے،توقع کی جانی چاہئے کہ اگلا شمارہ ۳۰۰صفحات پر مشتمل ہو گا۔ سعید شباب(خانپور)
(یہ خبر urdu_writers@yahoogroups.com سے مورخہ ۹جون ۲۰۰۷ء کو ریلیز کی گئی)
جدید ادب شمارہ : ۹ملا،یہ میرے لیے جدید اردو ادب کا ایسا آئنہ ہے جس میں جدید ادبی صورت حال کے خدو خال دیکھے جا سکتے ہیں۔یہ ایسا ادبی جریدہ ہے جو اردو کی ادبی صحافت میں بڑی حیثیت اور انفرادیت رکھتا ہے۔اس شمارہ کے مندرجات بڑے دلچسپ اور اہم ہیں۔آپ کا اداریہ حسبِ سابق بڑی اچھی رائے کا حامل ہے۔مضامین کے باب میں ناصر عباس نیر کا’’اقبال اور جدیدیت‘‘بڑے غور سے پڑھا اور اس سے مستفید ہوا۔
عمران شاہد بھنڈر صاحب کا ’’گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف ؟‘‘کو جب پڑھا تو مجھے یاد آیاکئی سال پہلے جب میں اردو کی ایسی کتاب کی تلاش میں تھا جو عربی زبان میں ترجمے کی مستحق ہو،اور مجھے گوپی چند نارنگ کی کتاب ’’ساختیات، پسِ ساختیات اور مشرقی شعریات‘‘یونیورسٹی کی لائبریری میں ملی۔کتاب کا نام پڑھ کر مجھے اس لیے مسرت ہوئی کہ یہ مشرقی اور مغربی شعریات کا تقابلی مطالعہ ہو گا۔لیکن پڑھ پڑھ کر افسوس ہوتا رہا کہ یہ کتاب اوریجنلٹی سے بالکل خالی ہے۔ہمارے ایک فاضل استاد نے بھی بتایا کہ اس کتاب کا اکثرحصہ مغربی مفکرین کی نقالی ہے۔ یہاں عمران شاہد نے استاد محترم کی بات کی تصدیق بڑی وضاحت اور مدلل طریقے سے کی ہے۔اصل میں یہ پاک و ہند کا المیہ ہی نہیں بلکہ تیسری دنیا کے بیشتر ممالک کا یہی المیہ ہے۔ تاہم عمران شاہد صاحب جیسے دیانت دار محققین کی کوششوں سے اب ادبی بد دیانتی کی نقاب کشائی ممکن ہے۔
پروفیسر ڈاکٹر طوق أرکا مضمون’’ترکی میں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟‘‘ہمارے یہاں کے سوال کی یاد دلاتا ہے کہ ’’مصر میں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟‘‘ہم ایسی زبان کو کیوں پڑھتے ہیں جو اپنے ملک میں اجنبی ہوتی جارہی ہے۔جس کے بولنے والے خود اس کو ایک سیکنڈ کلاس زبان سمجھتے ہیں۔اور جس کی حکومت خوداس زبان سے متصادم ہے۔
ھانی السعید المصری(المنصورہ، مصر)
آپ کا فرستادہ تحفہ’جدید ادب‘ شمارہ نمبر ۹ملا،بہت بہت شکریہ۔زیرِ نظر شمارہ بھی ہر بار کی طرح معیاری ہے۔مضامین میں کئی مقالے بڑے اچھے ہیں،مگر ان سب میں عمران شاہد بھنڈر صاحب کا مضمون’’گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف؟‘‘حاصلِ مطالعہ رہا۔اسے بغور پڑھا،بار بار پڑھا۔ہمارے یہاں لوگ ذاتی منفعت کو ذہن میں رکھتے ہوئے یا جاہ و منصب سے مرعوب ہو کر حق بات کہنے سے احتراز کرتے ہیں۔عمران شاہد بھنڈر صاحب نے نارنگ صاحب پر جو مدلل الزامات عاید کئے ہیں،ان میں خاصا وزن ہے۔وہ لائق مبارکباد ہیں کہ بڑی بے باکی کے ساتھ حقایق پر سے پردہ اُٹھایا ہے۔میں انہیں اس حق گوئی و بے باکی پر سلام پیش کرتا ہوں۔
کاوش پرتاپ گڈھی۔(دہلی)
I have read the contents of Jadeed adab- 9and enjoyed it .critical essays are literary pieces.Nasir Abbas Nayyar is very active these days writing on different subjects. No subject is far away from him.Where as imran Shahid Bhinder has opened a new chapter about Dr Gopi chand.This angle of his writings is being discussed now a days. Prof Hameed suharwardi has been a good short story writer. Gosha about him reflects some light on his works. طاہر نقوی(دبئی)
جدید ادب کے بارے میں جیسا سنا تھا،اس سے کہیں ہزار گنا معیاری پایا۔حصہ مضامین میں ویسے تو تمام مضامین وقیع ہیں لیکن عمران شاہد بھنڈر کا مضمون’’گوپی چند نارنگ،مترجم یا مصنف‘‘ اپنے انکشافات کے اعتبار سے چونکانے والا ہے۔اب دیکھتے ہیں کہ گوپی چند نارنگ کی طرف سے کیا جواب آتا ہے۔عبدالرب استاد کا مضمون ’’پریم چند اور خطبۂ صدارت‘‘ پریم چند پر منعقدہ نیشنل سیمینار میں سنا تھا لیکن توجہ نہیں دے سکا تھا۔اب اطمینان سے مطالعہ کیا، موصوف نے بہت محنت سے مضمون لکھا ہے۔گوشۂ حمید سہروردی بہت سلیقے سے ترتیب دیا گیا ہے۔یہ گوشہ محترم حمید سہروردی کے فن کی تفہیم میں بہت مددگار ثابت ہوگا۔
ڈاکٹر مقبول احمد مقبول (اودگیر،ضلع لاتور)
جدید ادب دیکھنے کا موقعہ ملا،شعری و نثری نگارشات کا بڑا حصہ لائقِ توجہ اور قابلِ مطالعہ ہے۔مبارکباد۔
جدید ادب جب پاکستان سے نکلتا تھا اس وقت میری کچھ چیزیں اس میں چھپی تھیں،اس دیرینہ تعلق کو پھر سے استوار کرنے کی کوشش کر رہا ہوں۔ شہپر رسول(نئی دہلی)
اس شمارے میں جوگندر پال صاحب کے افسانچے بہت خوب ہیں مگر ’’کہانی‘‘ کا جواب نہیںٗ سلطان جمیل نسیم صاحب کا ’’گورکن‘‘ بھی بہت اچھا لگاٗ اس موضوع پر ان کے افسانے بہت پر اثر ہوتے ہیں شاید اس لئے کہ وہ یہ سب اپنے شہر میں بہت قریب سے دیکھ چکے ہیں۔میرا جی کی نظمٗ حیدر قریشی کے ماہیےٗ خاور اعجاز کی نظم کہانی پر اور سہیل صدیقی کی ہائیکو اچھی لگیٗ ویسے’’ کہانی ‘‘ کے موضوع پر شاید کچھ زیادہ لکھا جانے لگا ہےٗ کیا پتہ اس کی وجہ موضوعات کی عدم دستیابی ہو۔ آپ کا ’’رہے نام اللہ کا‘‘ خوب ہےٗ خدا اور خلا کے حوالے سے بڑی عجیب اور دلچسپ باتیں کی ہیں آپ نے اور فکر انگیز یقیناً ہیںٗ باقی باتوں کے علاوہ مجھے جس میں زیادہ لطف آیا وہ ہے پہلے نام اور خاندانی نام کا مسئلہ کیونکہ میں خود اسی مسئلے میں الجھا ہوا ہوں۔ آپ کی محبتوں کا مقروض ہوں کہ ہر دفعہ کاہلی اور کوتاہی سے صرف نظر کر لیتے ہیں، دعاؤں کا طالب رہتا ہوں اور ہمیشہ رہوں گا۔ فیصل عظیم(کینڈا)
سابقہ روایت کے مطابق یہ شمارہ نمبر ۹بھی اپنی پوری رعنائیوں کے ساتھ جلوہ گر ہواہے،اور واقعی اسم با مسمیٰ ہے ۔ زیر نظر شمارہ میں تمام مضامین خاصے کی حیثیت رکھتے ہیں تو گوشۂ ڈاکٹر حمید سہروردی بہت مکمل اور جامع ہے،غزلیں ،نظمیں،ماہیے،افسانے،خصوصی مطالعہ سب ہی اعلیٰ ومعیاری ہیں۔مبارکباد!
رئیس الدین رئیس ۔علی گڑھ
بڑی بات ہے کہ جو خواب میں نے دیکھا تھا وہ آپ نے پورا کر دیا۔ایک مدت کے بعد محترم قیصر تمکین صاحب کے پاس جدید ادب کے سرِ ورق پر آپ کا نام دیکھا۔انہوں نے یہ جریدہ مجھے مطالعہ کے لیے دیا۔کتنی خوشی ہوئی، کیا بتاؤں کہ آپ سے رابطے کا پتہ ملا اور یہ بھی کہ آپ کام کر رہے ہیں اور بڑا کام کر رہے ہیں۔
سلطانہ مہر۔برمنگھم
جیسا کہ سابقہ تمام شماروں میں ہمہ جہت اور ہمہ پہلو مضامین شامل رہے ہیں،اسی طرح اس شمارہ میں بھی روایت قائم رہی ہے۔ڈاکٹر شہناز نبی کا مضمون ’’مغربی بنگال میں اردو صحافت‘‘ بنگال کے دیرینہ آشیانہ میں اردو کی بھولی بسری صحیفہ نگاری کا مکمل جائزہ لیا گیا ہے۔ڈاکٹر صوفیہ یوسف کا مضمون ’’نسائی ادب اور مسلم ایجوکیشنل کانفرنس‘‘دلچسپ اور معلوماتی ہے۔ڈاکٹر خلیل طو ق أرکا مضمون ’’ترکی میں اردو کیوں سیکھتے ہیں؟‘‘برصغیر اور ترکی کے قدیم تاریخی،تہذیبی اور ثقافتی تعلقات کے ایک مختصر مگر معنی خیز تمہیدی تحریر کی حیثیت رکھتا ہے۔اس قبیل کا ایک مضمون راقم الحروف نے بھی انگریزی میں لکھا ہے،اسے حسبِ ذیل ویب سائٹ پر دیکھا جا سکتا ہے۔
www.saag.org/papers18/paper1737.html سید مزمل الدین۔حیدرآباد،انڈیا
جدید ادب شمارہ جولائی تا دسمبر ۲۰۰۷ء موصول ہوا۔یہ شمارہ سابقہ شماروں کی طرح اردو کے معاصر عالمی ادب کا بھرپور استعارہ ہے۔آپ کا تخلیقی اظہاریہ دوج کا چاند ہورہا ہے۔افتخار امام صدیقی۔بمبئی
ڈاکٹر حمید سہروردی پر گوشہ ان کی شخصیت اور فن کو سمجھنے میں ممد و معاون ثابت ہوتا ہے۔اس گوشے کو تعمیر کرنے والے سبھی قلم کاروں نے موصوف کے فنی کمالات کو بڑے فنکارانہ انداز میں اجاگر کیا ہے۔صاحبِ گوشہ کے منتخب افسانوں نے گوشے پر مینا کاری جیسا کام انجام دیا ہے۔باقی مضامین بھی معلوماتی اور دلچسپ ہیں۔۔شہناز نبی،طاہر نقوی،حیدر قریشی اور محمد حامد سراج کے افسانے دیر پا تاثر چھوڑتے ہیں۔خورشید اقبال کا ترجمہ بھی زبان و بیان کی شگفتگی،تسلسل اور اپنے رواں دواں انداز کے سبب دل کو چھو لیتا ہے۔ رفیق شاہین۔علی گڑھ
نیا کالم٭پڑھ لیااور آجکل آفس میں زیر بحث بھی ہے۔یہاں کے دوست آپ کے کالم کے منتظر رہتے ہیں۔ میرے دوست اس بات پر بھی بہت حیران ہوتے ہیں کہ آپ ملک سے اتنی دور رہتے ہوئے بھی اس طرح ملک سے جڑے ہوئے ہیں کہ یہاں کے حالات اور ان کے پس منظر سے واقف ہیں۔احباب کے حوالے سے بتا رہا ہوں کہ کراچی کے صحافتی حلقوں میں کافی شوق سے پڑھا جاتا ہے۔کافی لوگ اس بات سے متفق ہیں کہ ڈاکٹر شاہد مسعود نے بعض موضوعات آپ کے کالموں سے لئے ہیں۔کیونکہ میں نے آپ کی اور ڈاکٹر صاحب کی کتاب کئی لوگوں کو پڑھائی تھی،اُس وقت جن لوگوں نے پوری طرح اتفاق نہیں کیا تھا،اب کالم پڑھ کر متفق ہیں۔
جدید ادب میں میں سب سے پہلے آپ کی یادیں پڑھتا ہوں۔مجھے ویسے بھی سوانح اور آپ بیتی بہت پسند ہیں۔آپ کی تحریر میں تصوف کارنگ بہت واضح جھلکتا ہے۔جرمنی کی شہریت ملنے کا واقعہ انسانی ذہن سے ماورا اور اوپر والے کے بے پایاں کرم کی روشن مثال ہے۔پرانے گاؤں کا حوالہ بھی دلچسپ اور میرے مزاج کے مطابق لگا۔جدید ادب نے مجھے ماہیا کی صنف سے روشناس کرایا ہے،اس سے پہلے میں زیادہ آشنا نہیں تھااور اس نے دل جیت لیا۔اس بار نذیر فتح پوری اور اکمل شاکر کے ماہیے زیادہ دلپذیر تھے۔نذر خلیق نے سورۃ البقرہ کی ۶۲ویں آیت کا عمدہ منظوم ترجمہ کیا ہے،جس سے صرف امت کی بخشش کے مروجہ تصورکی بہتر وضاحت ہوتی ہے۔ڈاکٹر صوفیہ یوسف نے نسائی ادب کے حوالے سے کئی فراموش کردہ شاعرات اور مصنفین کا تعارف کرا دیا۔ناصر عباس نیر نے اقبال اور جدیدیت میں دریا کو کوزے میں بند کرنے کی اچھی کوشش کی ہے۔ویسٹ بنگال میں صحافت پر ڈاکٹر شہناز نبی کا مضمون میرے لئے ذاتی دلچسپی کا حامل تھا۔گوپی چند نارنگ کے بارے میں عمران شاہد بھنڈر کا مضمون
اہلِ ادب کے لئے چشم کشا اور لمحۂ فکریہ ہے۔صبا اکبر آبادی اور اکبر حمیدی کی غزلیں بہت اچھی ہیں۔طاہر نقوی میرے پسندیدہ افسانہ نگار ہیں۔’’چوکیدار‘‘ دوسروں کی خاطر لٹنے والوں کا اثر انگیز ماجرا ہے ۔محمد حامد سراج نے بہت کم وقت میں مقام بنایا ہے۔ڈاکٹر شہناز نبی مقالہ،افسانہ،غزل،نظم،گویاہر جگہ چھائی ہوئی ہیں۔ اور حق ادا کر دیا ہے۔آپ نے اپنی یادوں میں حیدر قریشی کے حوالے سے میرا ذکر کیا ہے۔اُس ناول کے بارے میں میری سید قاسم محمود سے بات ہوئی تھی۔انہوں نے بتایا کہ ’’ستاروں کا سجدہ‘‘ کا مسودہ کافی عرصہ اُن کے پاس پڑا رہاتھا،پھر
جب انہوں نے شاہکار پاکٹ بکس کا سلسلہ شروع کیا تواُس میں یہ کتاب بھی چھاپ دی۔اس کے مصنف حیدر قریشی لاہور کے مضافات میں رہتے تھے اوراکثر قاسم صاحب کے پاس آتے تھے لیکن کتاب کی اشاعت کے کچھ ہی عرصے بعد اُن کا انتقال ہو گیا۔ نعیم الرحمن۔کراچی(اے آر وائی چینل)
٭ میرے کالم ’’ادھر اُدھر سے‘‘کا ذکر ہے جو اردو دوست ڈاٹ کام پر شائع ہوتا ہے۔یہاں ۲۰جولائی ۲۰۰۷ء کے کالم کا ذکر ہے جو لال مسجد اور جامعہ حفصہ کے آپریشن کے حوالے سے تھا۔
گذشتہ نصف صدی کے دوران جب روزگار کی تلاش میں برصغیر کے نوجوانوں کودنیا کے دوسرے ممالک میں جاکرقسمت آزمائی کرنی پڑی تو اُن کے ساتھ متعدد اہلِ ذوق بھی نقل مکانی کرگئے۔ان لوگو ں نے اپنی ذوق کی پرورش کے لیے اردو کی نئی بستیاں قائم کیں اور اب یہ کہنا مناسب ہے کہ اردو صرف ہندوستان اور پاکستان کی عوام کی زبان نہیں رہی بلکہ ان پاکستانی نژاد اور ہندوستانی نژاد لوگو ں کی زبان بھی ہے جو امریکہ ‘برطانیہ ‘کینیڈا‘جرمنی ‘سعودی عرب‘ایران اور جاپان کے علاوہ خلیجی ریاستوں میں آباد ہیں۔اور نہ صرف ادب تخلیق کر رہے ہیں‘بلکہ ان نئی بستیوں سے اردو ادب کے اعلیٰ پائے کے رسائل بھی شائع ہوتے ہیں۔ان رسائل میں۔۔۔’’جدید ادب‘‘(جرمنی) کو بہت شہرت حاصل ہے۔
رسالہ ’’جدیدادب ‘‘کے مدیراردو کے معروف شاعراور ’’ماہیا‘‘کو اردو زبان میں تحریک بنانے والے حیدر قریشی بنیادی طور پر پاکستان کے شہری ہیں۔’’جدید ادب ‘‘انہوں نے ’’خانپور‘‘ سے جاری کیا تھا۔اب انہوں نے جرمنی کی شہریت اختیار کرلی ہے۔لیکن اردو اور پاکستان کے ساتھ رابطہ مستقل طور پر قائم رکھاہوا ہے۔ان کا رسالہ ’’جدیدادب ‘‘بھی اب جرمنی سے شائع ہوتاہے اور پوری اردو دنیا کی نمائندگی کرتاہے۔اہم بات یہ ہے کہ ’’جدید ادب ‘‘بیک وقت کتابی صورت میں بھی چھپتا ہے اور انٹرنیٹ پر بھی دستیاب ہوتاہے ۔ان کی ویب سائیٹ کا ایڈریس ہے www.jadeedadab.com۔اس کے سابقہ آٹھ شمارے اس ویب سائیٹ پر دیکھے جاسکتے ہیں ۔ ’’جدیدادب‘‘کے مدیر ثانی ڈاکٹر نذرخلیق ہیں جو خانپور میں مقیم ہیں۔مجلسِ مشاورت میں دہلی سے ممتاز افسانہ نگار جوگندر پال‘لاہور سے معروف نقاد ڈاکٹرخواجہ محمد زکریا‘بہاول پور سے ڈاکٹر شفیق احمداور دہلی سے جناب شاہدمابلی شامل ہیں۔گویا ہندوپاک میں’’جدید ادب ‘‘کو اردو کے اہم ادیبوں اور دانشوروں کا تعاون حاصل ہے۔اس کا ہر پرچہ ایسا مواد لے کر شائع ہوتاہے جس سے اردو دنیا کے ادیبوں میں حرکت و حرارت پیدا ہوتی ہے اور تسلیم کرنا پڑتاہے کہ حیدر قریشی صاحب کا یہ رسالہ (جدیدادب) پوری دنیامیں اردو کی پاسبانی میں پیش پیش ہے۔
’’جدیدادب ‘‘کا خاص شمارہ نہم جولائی تا دسمبر 2007ء کی اشاعت پر مشتمل ہے۔مدیر حیدرقریشی نے ایک مرتبہ پھر مغربی ممالک میں اردو ادب کے فروغ کو موضوع بنایا ہے اور یہ حقیقت تسلیم کی ہے کہ مغربی ممالک میں تخلیقی سطح پر کوئی ایسا کارنامہ سامنے نہیں آیااور نہ کوئی بڑا ’’بریک تھرو‘‘دیکھنے میں آیا ہے کہ جس سے کہا جاسکے کہ اردو کے ادبی سرمائے میں کوئی غیرمعمولی اضافہ ہوا ہے۔جناب حیدر قریشی کے تجربے سے اختلاف اس لیے ممکن نہیں کہ ان کا یہ ’’ارشاد‘‘ان کے ذاتی مشاہدے کا نتیجہ ہے۔لیکن دوسری طرف اردو کی قدیم بستیوں یعنی دہلی ‘لکھنؤ‘حیدرآباد‘لاہور‘کراچی‘پشاور ‘اسلام آبادمیں لکھے جانے والے ادب پر نظر ڈالی جائے تو اکیسویں صدی کے گذشتہ سات برسوں اور اس سے ملحق بیسویں صدی کے آخری عشرے میں بھی کوئی ’’بریک تھرو‘‘نظر نہیں آتا۔اس تمام عرصے میں کوئی بڑی ادبی تحریک پیدا نہیں ہوئی‘بعض افراد کی ذاتی کوششوں سے انشائیہ ،ماہیا اور ہائیکو کو تحریک بنانے کی کوشش کی گئی۔جس کا نتیجہ ان اصناف کی مقبولیت کی صورت میں سامنے آیا‘لیکن یہ حقیقت تسلیم کرنی پڑے گی کہ ان شعری اصناف کو غزل جیسی مقبولیت حاصل نہیں ہو سکی۔افسانہ ‘ناول ‘سفر نامہ ‘خودنوشت‘سوانح عمری کی اصناف میں خاطر خواہ اضافے ہوئے لیکن تخلیقات کا معیار اوسط درجے کا تھا۔چنانچہ ’’میڈیکارٹی ‘‘کے اس دورمیں غنیمت ہے کہ اردو کی آواز قدیم اور جدید بستیوں سے اُٹھ رہی ہے اور تخلیق کاروں کی نمائندگی کے لیے اردو کے خوبصورت پرچے بھی چھپ رہے ہیں۔بدقسمتی سے احمدندیم قاسمی کی وفات کے ساتھ ہی فنون بند ہوگیا ہے اور عہد ساز رسالہ ’’اوراق‘‘ڈاکٹر وزیر آغا کی ’’ضعیفی ‘‘کی نذر ہوگیا ہے۔لیکن اس کے ساتھ ہی مخزن،قرطاس ،سمبل ،ہم عصر،ارتقأ،آئیندہ،روشنائی ،مژگاں،مباحثہ،جدیدادب اور نئی کتاب جیسے رسائل بھی جاری ہوگئے ہیں جو ادب کے قافلے کو جاری و ساری رکھے ہوئے ہیں۔ان میں ایسی تخلیقات بھی دیکھی جاسکتی ہیں جن میں تجربے کی جدت اور مصنفین کی اختراعی قوت موجود ہے۔تاہم ایک بدعت بھی پیدا ہوگئی ہے جس کی مذمت ضروری ہے اور وہ ہے مختلف رسائل میں خود قیمت ادا کرکے اپنے نام اور کام کے گوشے چھپوانا۔۔۔۔مجھے معلوم ہوا ہے کہ ان گوشوں میں جو تعریفی مضامین چھپتے ہیں وہ بھاری قیمت ادا کرکے لکھوائے جاتے ہیں اور ان کے سامنے ممدوح ہلکا محسوس ہوتا ہے۔دکھ کی بات یہ ہے کہ اب بعض نامی گرامی نقاد ایم اے ،ایم فل اور پی ایچ ڈی کے مقالے بھی اجرت لے کر طلبہ کو لکھ کرعنایت کردیتے ہیں۔ایم فل اور پی ایچ ڈی کی مقالہ نگاری تو ادب کا ریاض ہے جو ریاضت کار کو ادب کا مستقل اسیر بنا لیتا ہے‘لیکن اب لکھا لکھایا مقالہ ڈگری کے حصول کا وسیلہ بن جاتا ہے تو ادب کی ترقی کیسے ہوگی۔یہی وجہ ہے کہ گذشتہ دس سال کے دوران پی ایچ ڈی کرنے والوں سے ادب کا فطری ذوق رکھنے والا کوئی ادیب سامنے نہیں آیا۔اور افسوس یہ بھی ہے کہ بعض بڑے بڑے ادیبوں نے اپنے ضمیر کو داغدار کیا اور چند ٹکوں کے لیے ’اردوکشی‘کے اقدام سے گریز نہ کیا۔حیدرقریشی صاحب نے’’جدید ادب ‘‘میں ’’گھوسٹ رائیٹرز‘‘(Ghost Writers)کا تذکرہ بڑی جرأت مندی سے کیا تھا۔لیکن پردہ نشینوں کے نام ظاہر نہیں کیے تھے۔میں اُن سے تقاضا کرتا ہوں کہ ’’جدید ادب ‘‘کا ایک حصہ اس قسم کی ’’بدعملی ‘‘ کو بے نقاب کرنے کے لیے وقف کیا جائے۔٭
’’جدید ادب ‘‘کا ادیبوں کے گوشے چھاپنے کا سلسلہ اس کی کشادہ نظری کا مظہر ہے۔اس کی بڑی وجہ یہ ہے کہ ’’خصوصی گوشے ‘‘ کے لیے ادیب کا انتخاب حیدر قریشی خود کرتے ہیں اور ان کے لیے اپنے طور پر مضامین بھی خود لکھواتے ہیں۔گذشتہ شمارے میں پاکستان کے ایک درویش طبع اور غنی مزاج ادیب رشید امجد صاحب پر گوشہ پیش کیا گیاجس کی خاطر خواہ پذیرائی ہوئی۔اب بھارت کے ممتاز افسانہ نگار پروفیسر حمید سہروردی پر گوشہ پیش کیا گیا ہے جو جنوبی ہند کے ایک دور افتادہ مقام گلبرگہ میں مقیم ہیں اور ادب کی بے لوث خدمت کررہے ہیں۔اس گوشے میں ڈاکٹر غضنفر اقبال نے ان کے پورے ادبی کام کا ’’چہرہ نما‘‘پیش کیا ہے۔ان کے فن پر امجد علی فیض‘سلیم شہزاد‘پروفیسر بیگ احساس‘سید احمد قادری اور سید سجاد اختر نے مقالات پیش کیے ہیں۔حیدر قریشی صاحب نے مجھے ٹیلی فون پر بتایا کہ آئیندہ شماروں میں اردو کے معروف شاعر ‘انشائیہ نگاراورخاکہ نویس اکبر حمیدی پر اور سرگودھا کے ممتاز دانشور غلام جیلانی اصغر پر گوشے ترتیب دئیے جارہے ہیں۔
تنقیدی مضامین کا حصہ اس مرتبہ متنوع اور فکر انگیز ہے۔ناصر عباس نیّرکا مقالہ’’اقبال اور جدیدیت‘‘ان کے وسیع مطالعے کا قیمتی ثمر ہے۔ڈاکٹر شہناز نبی صاحبہ نے مغربی بنگال میں اردو صحافت کا جائزہ پیش کیا ترکی میں اردو کی تعلیم و تدریس پر ایک معلومات افزأ مقالہ ڈاکٹر خلیل طوق آر نے پیش کیا ہے۔ڈاکٹر آصف قادری کا مقالہ ’’کبیر ۔۔۔اردو کا پہلا ترقی پسند شاعر‘‘بھی دلچسپی سے پڑھا جانے والا مقالہ ہے۔لیکن سب سے زیادہ ہنگامہ عمران شاہد بھنڈر کا مقالہ’’ گوپی چند نارنگ مترجم یا مصنف؟‘‘پیدا کرے گا۔اس کی گونج پوری ادبی دنیا میں سنی جائے گی اور میری اطلاع کے مطابق تو منفی ردعمل شروع بھی ہو چکا ہے۔بعض لوگ اظہار اثر صاحب کے ’’ادب ساز ‘‘والے مقالے کو ردعمل کا ہی نتیجہ قرار دے رہے ہیں جس میں دو پاکستانی ادیبوں کی کردار کشی کی گئی ہے۔اب منصور کے پردے میں بولنے والے حقیقی ادب کی تلاش جاری ہے۔اس مقالے کی زد میں حیدر قریشی ویسے ہی حالات سے دوچار ہوسکتے ہیں جن کا سامنا وہ کچھ عرصہ پہلے کرچکے ہیں۔
افسانے کے حصے میں طاہر نقوی کا ’’چوکیدار‘‘شہناز نبی کا ’’میں کہاں ہوں‘‘محمد حامد سراج کا’’تسبیح کے دانے‘‘اور حیدر قریشی کا ’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘بڑی دلچسپی سے پڑھے جائیں گے۔ حیدرقریشی صاحب کا ذکر آیا ہے تومیں آپ کو ان کا مضمون ’’روح اور جسم ‘‘پڑھنے کی دعوت دیتاہوں جس میں بہت سی کھٹی میٹھی باتوں کو بازیافت کیا گیا ہے۔بعض مقدس چہروں سے نقاب اتارنے کی کاوش بھی کی گئی ہے۔شاعری کے حصے کے بارے میں صرف اتنا کافی ہے کہ یہ دامان باغبان و کفِ گل فروش کا منظر پیش کرتا ہے۔لیکن ادیبوں کی بے تکلف محفل تو خطوط کے حصے میں جمی ہے۔اور اس میں ڈاکٹر ظہور احمد اعوان ‘سعید شباب‘منشایاد‘نصرت ظہیر‘مقصود الٰہی‘شیخ سلطان جمیل‘سہیل احمد صدیقی‘ستیہ پال آننداور ڈاکٹرکرسٹینا کے علاوہ متعدد ادیبوں نے اپنے اپنے مخصوص انداز میں اظہار خیال کیا ہے۔مجموعی طور پر ’’جدید ادب ‘‘غور سے پڑھنے اور حوالے کے طور پر استعمال کرنے کے لیے محفوظ رکھنے کی چیز ہے۔پاکستان میں ملنے کا پتہ ڈاکٹر نذر خلیق ‘صدر شعبہ اردو ‘پوسٹ گریجوایٹ گورنمنٹ کالج خان پور۔آپ ایک خط لکھ کر پرچہ منگوا سکتے ہیں۔ ڈاکٹر انور سدید(لاہور)(مطبوعہ ندائے ملت لاہور)
٭ڈاکٹر صاحب!جدید ادب کے شمارہ ۸میں آپ ہی کے تاثرات کے جواب میں پہلے بھی لکھ چکا ہوں کہ میں بہت سارے پردہ نشینوں کے نام ظاہر کر چکا ہوں۔انہیں دہرانے اور مزید نام ظاہر کرنے کے لیے بھی تیار ہوں، لیکن اس کے لیے ضروری ہے کہ پاکستان اور انڈیا سے ایک ایک اور ادبی رسالہ بھی میرا ساتھ دے اور میرے وہ مضامین بیک وقت پاکستان ،انڈیا اور جرمنی سے شائع ہو سکیں۔آپ پاکستان سے کسی ایک حق گو رسالے کے مدیر کو اس کے لیے راضی کریں میں اسی وقت ،اسی لمحہ سے اس نیک کام کا آغاز کرنے کو تیار ہوں۔(ح۔ق)
(بنام نذر خلیق) ’ندائے ملت‘ میں’ جدید ادب‘ کے تازہ شمارہ پر جناب انور سدیدکا تبصرہ پڑھا۔اس کے ادبی حوالے سے معتبر ہونے کے لیے جناب حیدر قریشی کا نام ہی کافی تھاکہ انور سدید صاحب کے تبصرہ نے اشتیاق کو فزوں تر کر دیا۔میں ممنون ہوں گا اگر آپ مذکورہ شمارہ کی ایک کاپی مجھے ارسال فرما سکیں اور آئندہ بھی یہ کرم جاری رکھیں۔ ابصار عبدالعلی (لاہور)
پاکستان میں ما بعد جد ید یت کے حوالے سے نا صر عبا س نیر کا اپنا کام ہے۔جو کسی حد تک اس صورت حال کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ان کے مضمون اقبال اور جدیدیت میں مجھے کوئی خاص بات نظر نہیں آ ئی۔ جس کی مجھے توقع تھی۔ ۔انہوں نے اپنے مضمون کو اس پر ختم کیا ہے کہ اقبال کا نکتہ نظرایک خاص مفہوم میں ایک جدید اور ترقی پسندانہ تھا۔اقبال کے بارے میں دانشور عام طور پر تقسیم رہے ہیں۔بہت سے لوگ عقل دشمنی کی وجہ سے اقبال کو ترقی پسند نہیں مانتے۔لیکن ناصر عباس نیر نے اپنے حوالے سے اسے ایسا ثابت کر نے کی کو ششں کی ہے۔لیکن میرے خیال میں یہ ایک ایسی کوششں ہے۔جو اپنے زاویۂ نگاہ سے معروف ترقی پسند شاعر سردار جعفری بھی کرتے رہے ہیں۔ ترقی پسندی کے بنیا دی عناصر کیا ہیں۔اس کے بارے میں ابھی تک مجھے متفقہ اور فیصلہ کن نقطہ نظر نہیں ملا۔کیا انجمن ترقی پسند مصنفین کا نکتہ نظرجو مارکسی نکتہ نظرکے قریب تھا ۔ترقی پسندانہ نکتہ نظر کا مکمل نما یندہ تھا۔یا پھر ڈاکٹر آصف قا دری کا نکتہ نظر جو کبیر کو ایک ترقی پسند شاعر قرار دیتے ہیں۔ اور یوں توبہت سے صوفیا بھی ترقی پسند شاعر قرار پاتے ہیں۔ جواپنی خا نقا ہو ں میں بیٹھ کرانسان دوستی ، رواداری اور مساوات کی تعلیم دیتے تھے۔ ان صو فیاء اور یو گیوں کا یہ نکتہ نظر اپنے مخصوص سماجی حالات کی پیداوار تھا۔جو انجمن ترقی پسند مصنفین تک آتے آتے نئی شکل میں ڈھل گیا۔ ہمیں بہت ہی واضح انداز میں ترقی پسند عنا صر کی نشاندہی کر نی ہو گی ۔ یا پھر ہر دور کو اپنی اپنی ترقی پسند کے حوالے سے دیکھنا ہو گا۔کبیر کو اب تک میں ہندی کا شا عر سمجھتا آیا تھا۔ نیاز فتحپوری نے نگار کے ہندی شاعری نمبر میں بھی اسے ہندی کا شاعر تسلیم کیا تھا۔ ڈاکٹر صاحب کا یہ مضمون پڑ ھتے ہوے بھی میرے ذہن میں یہ سوال بار بارابھرتا رہا ہے۔یہاں میں علامہ اقبال کے بارے میں یہ پوچھنا چاہتا ہوں کہ کیا اسے ترقی پسند ثابت کرنا ضروری ہے۔کیا موجودہ اسلامی بنیاد پرستی کی بنیادیں ان کی دین نہیں ہیں۔
گو پی چند نا رنگ، مترجم یا مصنف؟ ایک اہم مضمون لگا ہے۔ گو پی چند نارنگ نے اپنی کتاب کے حوالے سے پاکستان کے اردو دان طبقے میں خاصی شہرت حاصل کی ہے۔ بلکہ اپنا رعب جمایا ہے۔ وہ اپنی بات بیان کر نے پر قدرت رکھتے ہیں۔پچھلے دنوں ان کا ایک لیکچر بہاوء الدین زکریا یو نیو رسٹی ملتان کے اردو ڈیپا رٹمنٹ میں ہوا۔ جس میں میں بھی شریک تھا۔ انہو ں نے اپنے اوپر ہو نے والے بعض سوالات کا مضحکہ اڑایا۔ ان کا رویہ افسر شاہانہ لگتا تھا۔ جس کا بعد میں ذکرروز نامہ خبریں ملتان کے انٹرویو کر نے والے ایک رکن صابر چشتی نے بھی کیا۔ مجھ ایسا شخص جو انگریزی ادب اور فلسفہ سے واجبی سی واقفیت رکھتا ہے۔اور اردو کتب میں مغربی افکار پڑھ کر متاثر ہو جاتا ہے۔ لیکن جب کسی وجہ سے اصل کتب سے براہ راست واسطہ پڑجاتا ہے توعام طور پر یہی صورت حال سامنے آتی ہے۔ جو عمران شاھدبھنڈر کا مضمون پڑھ کے ہوئی ہے۔ اگر عمران شاھد بھنڈر کی تحریر میں تلخی اور جارحیت، جو مجھے کہیں کہیں دکھائی دیتی ہے کو نظر انداز کر دیا جائے تو پھر گوپی چند نارنگ کے بارے میں میری پہلی شاندار رائے متاثر ہوتی ہے۔ یہ بات مجھے درست لگتی ہے کہ گوپی چند نارنگ اپنی کتاب میں مغربی فلسفیوں کا محاکمہ اور موازنہ بہت کم کرتے ہیں۔ بلکہ یہ صرف ان کے خیالات کو بیان کر دینے پراکتفا کرلیتے ہیں، ممکن ہے ان میں محاکمہ اور موازنہ کرنے کی صلاحیت موجود نہ ہو،جس کے لئے خو د ایک بڑا فلسفی اور ماہر لسانیات ہونا ضروری ہے۔
گوشہ مخصوص کرنے کی جو روایت آپ کے ہاں ہے وہ اچھی ہے۔اس کے بارے میں پروفیسر حمیدسہروردی کا گوشہ قابل تعریف ہے۔ ان سے ایک مصاحبہ ان کے خیلات کو سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔ ان کا افسانہ کربلا بہت دور ہے، اچھا ہے اور سمجھ میں آتا ہے جب کہ’ ادھر ادھر‘ مجھے پوری طرح پلے نہیں پڑا ۔پروفیسربیگ احساس کا تجزیہ بھی پوری طرح مجھ پر واضح نہیں کر سکاکہ وہ اس افسانے میں کیا کہنے چاہتے ہیں ۔ ۔افسانوں میں افریقی کہانی اڑان اچھی لگی۔کالونیل ازم کے دور کے مغربی تعصبات جو کالوں کے بارے میں ذہن میں تھے وہ شاید ابھی تک پورے طور پر ختم نہیں ہوئے تھے کیونکہ مجھے یہ افسانہ پڑھ کر حیرت ہوئی کہ ایک کالا ( اگر اس کا مصنف کالا ہے تو) فنی اور فکری حوالے سے اچھا افسانہ لکھ سکتا ہے اس افسانے میں ماں کے احساسات اور جذبات مجھے گو رکی کے ناول ماں کی یاد دلاتے رہے ہیں۔
آپ کا افسانہ ـــــــاپنے وقت سے تھو ڑا پہلے ،جیسا کہ آ پ نے اپنے مضمون جسم اور روح، میں کہا ہے آپ کی یاداشتوں کا پر تو لئے ہوئے ہے۔ لیکن آخر میں ایک پراسرار شکل اختیار کر لیتاہے اور یہ خاص ذہنی اور نفسیا تی کیفیت کو بیا ن کر تا ہے۔ جو بعض اوقات انسانوں پر طاری ہوجا تی ہے۔اس قسم کی کیفیت کا ایک انگریزی افسا نہ میں نے جوانی میں پڑھا تھا۔جس کی یاد آپ کے افسانے نے تازہ کر دی۔ شاعری کے دو نو ں حصے غزلیات اور منظومات اچھے ہیں۔ فرحت نواز کی نظم ـ بچھڑتے لمحوں میں اچھی لگی ہے ۔اس نے اپنی جوانی میں یہ کیا سوچنا شروع کر دیا ہے۔منظومات میں ڈاکٹرانور سدید کی منظومات بھی ہیں۔یہ ہر موضوع پر لکھنے والے ہیں۔میری ترقی پسند تحریک سے وابستگی کی وجہ سے مجھے ان سے بیر رہا ہے۔ میں اگرچہ اوراق کا قاری بھی رہا ہوں۔ ایک بار سرگود ھا میں جناب راغب شکیب کے ساتھ ڈاکٹر صاحب سے ملاقات بھی ہوئی تھی۔ اور ان کے گرو ( اگر یہ لفظ ٹھیک ہے ) ڈاکٹر وزیر ٓاغا سے سرگودھا ،وزیر آباد اور ڈیرہ غازی خان میں کیف انصاری کے ساتھ ایک شام کے سلسلے میں (جب میں خصوصی طور پر ڈاکٹر وزیرآغا کی خدمت کے لئے مقرر کیا گیا تھا) بھی کئی ملا قا تیں ہوئیں اور ڈاکٹر انور سدید کا ذکر اچھے الفاظ میں ہوتا رہا۔لیکن میرا کفر کبھی نہ ٹوٹا ،وہ بلا شبہ اچھے لکھنے والے ہیں۔اور جب سوویت یونین کا زوال ہو گیااور اس کے ساتھ ادب کی دنیا میں لگائے گئے بہت سے جنگلے ٹوٹ گئے تو ڈاکٹر انور سدید صاحب بھی کراچی کے ترقی پسند رسالے ارتقا میں لکھنے لگ گئے ۔اور اب شاید میں انہیں اس وجہ سے ایک ہمدردانہ رویہ کے ساتھ پڑھنے لگا ہوں اس لئے اس دفعہ ان کی نظمیں مجھے اچھی لگی ہیں۔
سر ظفراللہ خان سے ہم پرانے واقف ہیں۔ وہ ہمارے وزیرخارجہ رہے ہیں ۔میں نے جب ان کی سوانح عمری تحدیث نعمت پڑھی تو ان کی والدہ کا ذکر آ یا میں ان کی اس کتاب میری ماں سے واقف تھا اور اسے پڑھنے کے لیے با ر بار تلاش کرتا رہا۔ مگر کہیں سے میسر نہ آئی شکر ہے ٓآپ نے کم از کم اس کا ایک باب پڑھنے کو مہیا کر دیا اور باقی کتاب پڑھنے کی تشنگی کو بھی دو چند کر دیا۔جے دیوی کے بارے میں اس کے استد راج کو کیا نام دوں؟ میرے لئے یہ حیرت انگیز ہیں ۔ ( مجھے ان واقعات کی سچائی میں کوئی شبہ نہیں)۔۔ لیکن مجھے ایسے واقعات کبھی سمجھ نہیں آئے اور میں اس لیے ان پر بہت کم یقین کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ان کا کوئی سائنسی یا عقلی جواز نظر نہیں آتا اگرچہ میرے بھی چھے بچے فوت ہو گئے ہیں اور ان کی وفات بھی با لکل ان واقعات کے قریب قریب تھی اور میں جس خاتون کو اس کا ذمہ دار سمجھتا تھا اس کے آگے ہتھیار ڈال کر رو پڑا مگر پھر بھی میں ان واقعات کا کوئی مطمئن کرنے والا عقلی جواز کبھی نہیں ڈھونڈ سکا۔ اس مضمون میں سرظفراللہ خان کی والدہ کا حوصلہ اور عقیدہ یقینا قابل دادہے۔ اسی طرح آپ کے مضمون جسم اور روح میں جو روحانی واردات کے بارے میں اشارے ہیں وہ بھی میرے لیے ناقابل فہم ہیں اگر چہ اس قسم کے واقعات میری زندگی میں کئی ہیں جیسے سچے خواب وغیرہ مگر میں ہمیشہ انہیں اتفاقات قرار دے کر رد کرتا ہوں۔ کیونکہ مجھے ان کا بھی کوئی عقلی یا سائنسی جوازنہیں ملتا۔لیکن یہ واقعات ہمیشہ مجھے چھیڑتے رہتے ہیں۔اور آپ کی طرف سے مجھے ان دو تحریرں نے ایک دفعہ سوچنے پر پھر مجبور کیا ہے۔میں وجدان کوذہن کی انتہائی ترقی یافتہ شکل قرار دیتا ہوں۔ جو کمپیوٹر کی طرح واقعات کو محفوظ کر نے اور پھر نتائج اخذ کرنے کے بعد ان نتائج کو نیند یا سو تے جاگتے خوابوں میں پیش کر دیتا ہے مگر میرے اس نظرئیے کے باوجود بہت سے سوالات میرے لیے لا ینحل ہیں۔میرا خیال ہے کہ علامہ اقبال بھی وجدان کو ذہن کی انتہائی ترقی یافتہ شکل سمجھتے تھے۔آپ نے اس مضمون میں کہا ہے کہ آ پ کو پاکستان میں بلڈ پریشر کی شکایت رہتی تھی مگر جرمنی میں ختم ہو گئی ہے لیکن آ پ نے اس کا نسخہ نہیں لکھا۔(کیا اسکے لئے جرمنی آنا پڑتا ہے)جدید ادب مجھے اور بھی پڑھنا ہے۔ جس کے بارے میں ای میلز کے ذریعے گفتگو ہوتی رہے گی۔ لیکن باوجود قلم کو روکنے کے معاملہ بہت بڑھ گیا ہے۔ اس لیے اس وقت اتنا کافی ہے۔
محمد اسلم رسولپوری(جام پور)
کینیڈا سے خاص محبت نامہ
تازہ مجلے کی جھلکیاں دیکھیں،یوں لگا حلقۂ یارانِ شعرو ادب میں آگیا ہوں۔اگرچہ وہ سب تیزگام اور میں سست قدم۔تخلیقات کا معیار منفرد ہے اور مجموعی تاثر اتنا گھمبیر اور ہمہ گیر کہ حلقے سے باہر نکلنا مشکل۔یہ سوچ کر نکلا کہ فی الوقت باہر کی آلائشوں سے نمٹ لوں اور کسی فرصت میں ان اکابرین ادب کی جانب ایک بار پھر رجوع ہوں لیکن جب میں چلنے کو تھا ،آپ یعنی حیدر قریشی ’’جسم اور روح‘‘پر بزبان تحریر بات کرتے مل گئے۔موضوع میرا اپنا خاص اور بولنے والا اپنا خاص(جو بھی بھلا لگا وہ بڑی دیر سے ملا)،رُکنا ہی پڑا۔یہ کیسا اسلوبِ بیان ہے کہ بات سے بات جُڑی ہوئی چل رہی ہے،کبھی خراماں خراماں،کبھی رواں،دواں،کبھی بہہ رہی ہے موج در موج،سیل در سیل،جیسے ہوا۔اصل موضوع کا یہ حال کہ چلتے چلتے ،بہتے بہتے بالکل غائب اور پھر غیر محسوس طریقے سے دوسری باتوں کے درمیان ایک بار پھر نمودار۔۔خیال،فکر،احساس،ادراک،اپنے طور پرہر قسم کی قیدوبند سے آزادجیسے سب اپنے طور پر اپنے اپنے کاموں میں مصروف،باہم آمیز ہو کر بھی اور جدا جدا بھی ایک غیر محسوس اسلوب کے بنتوّں(ٹکسچر)میں بندھے ہوئے۔بظاہر دھاگے الجھے الجھے اِدھراُدھر نکلتے ہوئے اور پھر خودبخودجُڑتے ہوئے، جیسے کبھی اُدھڑے ہی نہ تھے۔عرفانِ روح کے مذہب کے راستے کے علاوہ دوسرے راستوں کی نشاندہی نے مضمون کے دامن کو زیادہ معنی خیز بنا دیا لیکن موضوع کو تشنہ رہنا تھا،سو رہا۔اصل لطف تو طفلانہ معسومیت،حیرانی اور تجسس کی تحت موجی نے دیا جو مجھ سے کم مایہ قاری سے بھی چھپی نہ رہ سکی۔باتوں کا سلسلہ اس دوران آپ کی تحریر’’اپنے وقت سے تھوڑا پہلے‘‘ کی سرحد میں داخل ہو چکا ہے۔جسم اور روح سے بھی زیادہ گھمبیر اور گہرے معاملے سے ہم اور آپ دوچار ہیں لیکن لفظیات کا تانا بانا قطعی مختلف ہے۔حیران کن۔۔عجیب طرح کا ہلکا پھلکا پن،ایک مکمل سپردگی،ایک کامل تسلیم ورضا بلکہ راضی بہ رضا والی کیفیت کی فضا میں ایقان کو چھونے والا یہ احساس کہ انسان کی مساعی ہی قدرت کی پراسرار قوتوں کو مشکل کشائی،تعاون اور سرپرستی کی جانب راغب کرتی ہے۔ لاٹری۔۔نوجوان ،رقم سے معمور سوٹ کیس،پولیس۔۔درمیان میں آپ پولیس کے نرغے میں۔۔ٹرین سے چھوٹے بیٹے کا اترنا۔۔تبدیلیٔ شخصیت و شناخت۔۔پراسرار معاملات۔کشف کے،وجدان کے،جذب کے، ماہیت قلبی کے،جیسے کوئی شمسؔ تبریزکسی جلال الدین رومی کو قیل و قال کی پستی سے مرتبۂ حال کی بلندیوں پر لے جا رہا ہو۔
یہ جو آپ ناول لکھنے کا سوچ رہے ہو اور توفیق کے طالب ہو،بالکل اسی طرح میں نے بھی سوچا اور حال ہی میں سوچا ہے۔جو دلیل آپ کے ذہن میں آئی ہے وہی میرے ذہن میں آئی تھی کہ میں نے ایک ناول کی زندگی بسر کر لی ہے۔میں آپ کے اس خیال سے سہمت نہیں ہوں جو آپ نے لغت کی اساس پر اپنایا ہے کہ فکشن ہوتا ہی جھوٹ ہے۔فکشن نہ توسچ ہوتا ہے اور نہ جھوٹ۔فکشن کو سچ لگنا ہوتا ہے،سچ ہونا ضروری نہیں ہوتا۔فی الحال آپ جو یادوں کے سلسلے کے تحت لکھ رہے ہیں میری ناچیز رائے میں ’’نوویلا‘‘(Novella)کی ایک شکل ہے۔ادب کی ایک صنف جو ایک زمانے میں جرمنی میں بہت مقبول تھی۔ عبداللہ جاوید۔مسی ساگا۔کینیڈا
۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔۔
حیدرقریشی کے افسانے ایک نئے طریقے سے قاری تک پہنچتے ہیں اور ان کی گفتگو کا لہجہ بھی مختلف ہے۔ اس اعتبار سے ان افسانوں میں ایک ایسا رویہ بھی شامل ہے جو کہانی سنتے ہوئے سوچنے پر مجبور کرتا ہے۔ کہ کہانی محض کسی واقعے ہی کی بات نہیں کرتی بلکہ اس سچائی کا ذکر بھی کرتی ہے جو واقعیت کے رگ وریشے میں جاگتی ہے اور سب سے کہتی ہے کہ مجھے پہچانو۔ میں کون ہوں؟
سچائی نے ہمارے زمانے میں افسانے کا لباس پہن رکھا ہے۔
(افسانوی مجموعہ روشنی کی بشارت کا پیش لفظ از پروفیسر جیلانی کامران مطبوعہ ۱۹۹۲ء)