حیدر قریشی(جرمنی)
شمس الرحمن فاروقی کے ناول ’’کئی چاند تھے سرِ آسماں‘‘پر کوئی بات کرنے سے پہلے اس میں سے ابھرنے والی مربوط کہانی کا خلاصہ بیان کردینا ضروری ہے۔
میاں یوسف سادہ کار اس داستان کے درمیان کا ایک اہم کردار ہیں۔میاں یوسف سادہ کار کی بیٹی وزیر خانم اس ناول کا مرکزی کردار ہیں۔داستان کے ایک سرے پرمیاں یوسف سادہ کارکے پردادا میاں مخصوص اللہ ہیں تو دوسرے سرے پر وزیر خانم کے پڑپوتے وسیم جعفر ہیں۔ان سب کی بکھری ہوئی کہانیوں سے یہ داستان مربوط صورت اختیار کرتی گئی ہے۔اس مربوط صورت کے لئے بات میاں یوسف سادہ کار کے پردادا سے شروع کی جانی چاہئے۔ان کے دادا میاں مخصوص اللہ کشن گڈھ راج کے گاؤں ہندل الولی پروا میں رہتے تھے۔فنکارانہ خلاق ذہن کے مالک تھے۔رنگوں کی دنیا سے مناظر و مظاہر فطرت کی تصویریں بناتے بناتے ایک بار انہوں نے ایک لڑکی کی تصویر بنا دی۔اس تصویر کی ایک طرح سے ان کے حجرے میں نمائش ہوئی۔زیادہ تر لوگ اسے ایک پرانے کردار بنی ٹھنی کی تصویر کہتے تھے۔بنی ٹھنی کے بارے میں مشہور تھا کہ سترھویں صدی کے کشن گڈھ کے ایک والی کی محبوب ملکہ تھیں۔اس کی تصویر کی نقول آج بھی کشن گڈھ میں مل جاتی ہیں۔ لیکن بعد میں بھید کھلا کہ یہ تصویر تو کشن گڈھ راج کے مہاراول گجندر پتی سنگھ کی بیٹی من موہنی کی تھی۔ بنی ٹھنی اور من موہنی کی تصویروں میں اتنی مشابہت کیوں تھی؟یہ بھید شروع میں ہی قاری کے ساتھ ہولیتا ہے۔
مہاراول اس بارے میں اپنی بیٹی سے پوچھتا ہے کہ اس کی شکل ایک مصور تک کیسے پہنچی؟بیٹی کوئی جواب نہیں دیتی۔اسے اسی گاؤں میں سزائے موت دی جاتی ہے۔تصویر کو روند دیا جاتا ہے اور گاؤں والوں کو حکم دیا جاتا ہے کہ صبح سے پہلے پہلے گاؤں خالی کردیں۔یوں میاں مخصوص اللہ اتر پردیش کے گاؤں سے نکل کر کشمیر میں آجاتے ہیں۔وہاں ایک کشمیری خاتون سے شادی کرتے ہیں۔مختلف نشیب و فراز سے گزرتے ہیں۔کشمیری قالین بنانے سے لے کر روحانیت کے مدارج طے کرنے تک، جب ان کی زندگی ختم ہوتی ہے تو ان کے ہاتھ میں بنی ٹھنی کی مڑی تڑی تصویر تھی۔میاں مخصوص اللہ کے بیٹے یحییٰ بڈگامی کے ہاں دو بیٹے پیدا ہوئے۔داؤد اور یعقوب۔
یحییٰ بڈگامی کو بنی ٹھنی کی ایک تصویر کسی کے توسط سے ملتی ہے،اس حوالے سے بھی ایک اسرار کا ہالہ سا، ساتھ ساتھ چلتا ہے۔خاص طور پر اس لئے بھی کہ لوگوں نے جو من موہنی کی تصویر کو بنی ٹھنی کی تصویر قرار دیا تھا تو اس کا مطلب ہوا کہ دونوں کی شباہت میں مماثلت تھی۔یحییٰ بڈگامی کی وفات کے بعد اس کے بیٹوں کو اس کے سامان میں سے یہ تصویر ملتی ہے تو وہ حیران و پریشان ہوتے ہیں۔اس کے بیٹوں کی زندگی ایک اور رخ اختیار کرتی ہے۔داؤد اور یعقوب نے ایک گاؤں کی دو مظلوم بہنوں سے شادی کر لی۔داؤد کے ہاں کوئی اولاد نہ ہوئی اور یعقوب کے ہاں بیٹا پیدا ہوا جس کا نام یوسف رکھا گیا۔۱۸۰۳ء میں انگریزی فوج نے شاہ عالم ثانی کو مراٹھوں کی ’’قیدِ فرنگ‘‘ سے نجات دلانے کا ارادہ کیا۔داؤد اور یعقوب انگریزی فوج میں شامل ہو گئے۔اس معرکہ میں مرہٹہ فوج غالب ہوئی اور انگریزی لشکر کو بھاری جانی و مالی نقصان اٹھانا پڑا۔اس معرکہ میں یوسف کا سارا خاندان ہلاک ہو گیا۔صرف یوسف باقی بچا،جس کی عمر اس وقت دس برس کی تھی۔ایک طوائف اکبری بائی کا پورا خیمہ بھی بچ گیا۔
دس برس کے یوسف کو اکبری بائی نے سنبھالااور دلی میں قیام پذیر ہو گئیں۔وہیں جب یوسف سادہ کار پندرہ برس کے ہوئے تو اکبری بائی نے اپنی تیرہ سالہ بیٹی اصغری کے ساتھ ان کا بیاہ کر دیا۔یوسف سادہ کار نے اکبری بائی کے اڈے کو چھوڑ کر دلی کے کوچہ رائے مان میں ایک مکان لے لیا۔اصغری نے بھی ایک پاکباز بیوی کی طرح زندگی گزاری۔ان کے ہاں تین بیٹیاں پیدا ہوئیں۔انوری خانم عرف بڑی بیگم۔عمدہ خانم عرف منجھلی بیگم اور وزیر خانم عرف چھوٹی بیگم۔
بڑی بیگم نماز روزہ کی پابند اور دین سے گہری رغبت رکھتی تھیں۔ان کی شادی مولوی شیخ محمد نظیر کے ساتھ ہوئی اور کامیاب ازدواجی زندگی بسر ہوئی۔منجھلی بیگم کی طبیعت متین تھی لیکن خرابی یہ تھی کہ اسے نانہال سے رغبت تھی۔نانی کے پاس آنے جانے کے نتیجہ میں اس نے وہاں کے ادب آداب اور کئی تہذیبی طور طریقے سیکھ لئے تھے۔اکبری بائی کے ہاں منجھلی بیگم کو ایک بار نواب سید یوسف علی خان بہادر نے دیکھا،اور پسند کر لیا۔یوں منجھلی بیگم بغیر نکاح کے نواب صاحب کے ساتھ چلی گئیں۔ گو ان کی ساری زندگی بغیر نکاح کے رہی تاہم یہ رشتہ آخر دَم تک اس زمانے کی تہذیبی عزت اور محبت کے ساتھ نبھایا گیا۔
چھوٹی بیگم یعنی وزیر خانم نے شروع میں ہی پر پرزے نکالنے شروع کر دئیے تھے۔نانی کے ساتھ اسے زیادہ ہی انسیت تھی۔وہاں اس نے منجھلی سے زیادہ تہذیب اور ادب آداب سیکھ لئے۔کچھ موسیقی کی تعلیم لی،کچھ شعرو شاعری میں بھی دلچسپی لی۔اسی دوران یوسف سادہ کار کی بیوی فوت ہو گئی تو بڑی بیگم نے وزیر خانم کو شادی کے لئے راضی کرنا چاہا لیکن اس کے اپنے ہی خیالات تھے۔انیسویں صدی کے اوائل میں ایسے باغیانہ خیالات جو آجکل کھل کر کہے جا سکتے ہیں۔لیکن اُس زمانے میں تو ایسے خیالات کا اظہار کجا،ان کا سوچنا بھی مہا پاپ تھا۔ تنگ آکر بڑی بیگم نے چھوٹی بہن کو اتنا کہا کہ ’’اور نہیں تو کیا تیرے لئے کوئی نواب، کوئی شاہزادہ آئے گا؟بیٹی اتنا غرور نہیں کرتے،اللہ کو غرور پسند نہیں۔‘‘
بہن کے جواب میں وزیر خانم نے کہا:’’شاہزادہ تقدیر میں لکھا ہوگا تو آئے گا ہی۔نہیں تو نہ سہی۔مجھے جو مرد چاہے گا،اسے چکھوں گی،پسند آئے گا تو رکھوں گی۔نہیں تو نکال باہر کروں گی۔‘‘
اس کے بعد وزیر خانم نے جے پور میں ایک انگریز مارسٹن بلیک کے ساتھ رہنا شروع کیا۔موجودہ مغربی معاشرہ کی طرح فرینڈزبن کر رہنے لگے۔مارسٹن بلیک سے ان کے ہاں ایک بیٹا اور ایک بیٹی پیدا ہوئے۔۱۹۲۹ء کے آخری مہینوں میں کسی دن مارسٹن بلیک نے وزیر خانم کو یہ خوشخبری سنائی کہ وہ نئے سال ۱۹۳۰ء کے آغاز کے ساتھ ان سے باقاعدہ نکاح کر لے گا۔لیکن اس سے پہلے ہی وہ ایک فساد میں بلوائیوں کے ہاتھوں مارا گیا۔وزیر بیگم کی دنیا اندھیر ہو گئی۔مارسٹن بلیک کی بہن اور بھائی نے ان سے ان کے دونوں بچے سنبھال لئے اور ایک ہلکا پھلکا سا معاہدہ کرکے اسے گھر سے رخصت کر دیا۔مارچ ۱۸۳۰ء کی کسی تاریخ کو وزیر خانم جے پور سے پھر دہلی واپس آگئیں۔تب ان کی عمر انیس سال اور چند مہینے تھی۔
دہلی میں انہیں ریذیڈنٹ دولت کمپنی بہادرولیم فریزر کے ہاں ایک محفل شعرو سخن میں مدعو کیا گیا۔وہاں نواب شمس الدین سے بھی ان کا آمنا سامنا ہوا۔بات آگے بڑھی۔ولیم فریزر بھی ان میں دلچسپی لے رہا تھا اور نواب شمس الدین بھی۔وزیر بیگم کو نواب شمس الدین بھا گئے۔اب وہ مارسٹن بلیک کی بجائے نواب شمس الدین کے ساتھ رہنے لگیں۔نواب سے وزیر خانم کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔نواب مرزا نام رکھا گیا۔نواب شمس الدین اور ولیم فریزر کی رقابت ایک طرف،اور دوسری طرف کئی نشیب و فراز سے گزرتی ہوئی نوابوں کی خاندانی رقابتوں کا سلسلہ۔۔۔۔ولیم فریزر قتل ہو گئے اور ان کے قتل کی سازش کے جرم میں نواب شمس الدین کو پھانسی دے دی گئی۔ نومبر ۱۸۴۰ء میں وزیر خانم کے والد یوسف سادہ کار کا انتقال ہو گیا۔اس کے دو سال بعد وزیر خانم کے لئے آغا مرزا مولوی تراب علی کی طرف سے شادی کی بات کی گئی اور بڑی بہن کی بات کو مانتے ہوئے وزیر خانم شادی کے لئے راضی ہو گئیں۔شیعہ اور سنی دونوں طریق کے مطابق نکاح کیا گیا۔اس شوہر سے وزیر خانم کو ایک بیٹا ہوا شاہ محمد آغا مرزا۔جون ۱۸۴۳ء میں بچے کی پیدائش ہوئی اور نومبر ۱۸۴۳ء میں آغا مرزا تراب علی ہاتھیوں اور گھوڑوں کی خرید کے لئے سون پور(بہار)کے لئے روانہ ہوئے۔واپسی پر بھوانی ماتا کے پیروکار ٹھگوں کے ہاتھوں اپنے ساتھیوں سمیت ماردئیے گئے۔بڑی مشکلوں کے بعد ان کی لاشوں کو تلاش کیا جا سکا۔وزیر خانم ایک بار پھر اکیلی ہو گئیں۔
وزیر خانم کے مالی حالات خراب ہونے لگے۔ پہلے خدمتگاروں کو نوکری سے فارغ کیا پھر گھر کا سامان بیچنے کی نوبت آگئی۔ اسی دوران ایک انوکھا واقعہ ہو گیا۔شہنشاہِ ہندبہادر شاہ ظفرکے ایک بیٹے میرزافتح الملک بہادر(مرزا فخرو)کو وزیر خانم سے شادی کا خیال آیا۔انہوں نے مناسب طریق سے پہلے بادشاہ سلامت سے اس کی اجازت لی، پھر وزیر خانم کی بڑی بہن کے گھر میں وزیر خانم کے رشتے کا پیغام بھیجا ۔تب بڑی بہن کو اپنی پرانی بات یاد آئی کہ کوئی شہزادہ تجھے بیاہنے آئے گا۔۲۴ جنوری ۱۸۴۵ء کو یہ شادی شرعی طریق کے مطابق ہو گئی۔وزیر خانم اپنے ویران اور اجڑے ہوئے گھر سے شاہی محل میں پہنچ گئیں۔ان کے ساتھ ان کی دیرینہ خادمہ حبیب النساء بھی تھیں اور ان کا نواب شمس الدین سے ہونے والا بیٹانواب مرزا بھی تھا۔بہادر شاہ ظفر نے اپنی اس بہو کو شوکت محل کا خطاب دیا۔یہاں وزیر خانم نے اپنی زندگی کے گیارہ سال شاہانہ طریق سے بسر کئے۔شہزادہ فخرو سے وزیر خانم شوکت محل کے ہاں ایک بیٹا پیدا ہوا۔اس کا نام خورشید مرزا رکھا گیا۔۱۸۵۶ء میں اچانک شہزادہ فخرو مرزا معمولی علالت کے بعد انتقال کر گئے۔بہادر شاہ ظفر اپنے بڑھاپے کی انتہا پر تھے،ان کی ملکہ زینت محل جو ان کی سر چڑھی ملکہ تھیں ان کے بڑھاپے کی وجہ سے محل کے بیشتر فیصلے خود صادر کرنے لگیں۔شہزادہ فخرو کے چہلم کے تیسرے روز زینت محل نے وزیر خانم شوکت محل کواپنے پاس بلایا اور حکم سنایا کہ وہ محل کو فوری طور پر چھوڑ دے۔ وزیر خانم کے پاس امکان موجود تھا کہ وہ بادشاہ سلامت سے بات کرتیں،لیکن انہوں نے زینت محل کے حکم کو ہی تقدیر کا لکھا جان کر قبول کر لیا۔
اگلے روز مغرب کے بعد قلعہ کے لاہوری دروازے سے وزیر خانم کا قافلہ باہر نکلا۔ان کے بیٹے نواب مرزا اور خورشید مرزا ان کے ساتھ تھے۔لیکن پالکی میں بیٹھی ہوئی وزیر خانم کو اب آگے کچھ دکھائی نہ دے رہا تھا۔
یہیں پر ناول اپنے اختتام کو پہنچتا ہے۔۱۷۱۹ء میں جنمے میاں مخصوص اللہ کی خاموش محبت کی ادھوری داستان سے شروع ہونے والا یہ ناول انہیں کی نسل میں سے ان کے پوتے یعقوب بڈگامی کی پوتی وزیر خانم کی بولتی ہوئی محبتوں کی آخری ادھوری داستان پر ۱۸۵۶ء کے عہد تک مکمل ہوتا ہے۔
ناول کے بارے میں شمس الرحمن فاروقی نے وضاحت کی ہے کہ جس زمانے کے کردارناول میں آئے ہیں انہوں نے اسی زمانے کے مستعمل الفاظ کوہی وہاں استعمال کیا ہے۔یہ بلاشبہ بڑا مشکل کام تھا جسے انہوں نے نہایت کامیابی کے ساتھ انجام دیا ہے۔اس ڈکشن کی وجہ سے جو لوگ اس ناول کو جدید آبِ حیات کہہ رہے ہیں میں بھی ان کی تائید کرتا ہوں۔لیکن ناول کی یہ خوبی اس کی کمزوری یا خامی بھی بن گئی ہے۔ مسئلہ یہ ہے کہ عام قارئین کو تو چھوڑ دیں خود اردو کے شاعروں اور ادیبوں میں کتنے لوگ ہوں گے جو اس زبان کو ناول کی مطلوبہ روانی کے ساتھ پڑھ سکیں؟بہت کم۔۔۔بہت ہی کم۔لیکن یہ خامی اور خوبی ایک دوسری سطح پر اہلِ ادب کے لئے چیلنج بھی بنتی ہے کہ وہ اس ناول کے ذریعے اردو کی بنیاد تک رسائی حاصل کرنے کی کوشش کریں۔اس چیلنج کو ادب کے سنجیدہ قارئین اور ادیب لوگ کس حد تک قبول کرپاتے ہیں اس کا انحصار ان قارئین پر ہے جو ناول کو پورے طور پر پڑھ کر اپنی رائے کا اظہار کریں گے ۔
زبان کی مشکلات سے ہٹ کر مجھے اس ناول میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات نگاری نے حیران کیا ہے۔انیسویں صدی کے ہندوستانی معاشرے کی انہوں نے جس عمدگی کے ساتھ تصویر کشی کی ہے اور ہر سطح پر جزئیات کو جس طرح مہارت کے ساتھ بیان کیا ہے اسے ان کے فن کا کمال کہا جا سکتا ہے۔مختلف کرداروں کے امتیازی اوصاف اجاگر کرنے سے لے کر ان کے ملبوسات اور تہذیبی رکھ رکھاؤ تک اس مہارت کے ساتھ بیان کئے گئے ہیں کہ قاری بار بار حیران ہوتا ہے۔ناول میں آنے والے مختلف مقامات کی منظر کشی،وہاں کے تہذیبی و ثقافتی مظاہر ،انفرادی و اجتماعی سطح پر افراد و طبقات کی عادات و اطوار، وفاداریوں اور غداریوں کی الگ الگ کہانیوں سمیت ہر معاملہ میں شمس الرحمن فاروقی نے اپنے بیانیہ میں ایسی باریک بینی سے کام لیا ہے کہ داد دئیے بغیر چارہ نہیں رہتا۔
ناول کی ایک اور خوبی جس نے مجھے شروع میں چونکایا وہ کسی تصویر کی پر اسراریت کا احساس دلانا تھا۔بنی ٹھنی کی تصویر کے بارے میں پرانی روایت کے بیان سے لے کر من موہنی کی تصویر تک۔۔۔دونوں تصویروں میں مشابہت کا اشارہ دے کر پھر یحییٰ بڈگامی کو اسی تصویر کا تحفہ ملنے تک۔۔۔ڈاکٹر وسیم جعفری کو ملنے والی کتاب کے اندر ٹی وی سکرین جیسی روشن تصویروں کے قصہ سے لے کر برٹش میوزیم سے حاصل کی گئی اپنی پردادی وزیر خانم کی تصویر تک جو فضا بن رہی تھی اس سے ایک تجسس پیدا ہو رہا تھا۔لگتا تھا کہ ان ساری تصاویر میں ہم آہنگی کا کوئی ماورائی سا تاثر بیانیہ میں یکجا ہوگا،بلکہ مجھے تو ایسا لگا کہ ’’عذرا کی واپسی‘‘ سے کچھ کچھ ملتا جلتا قصہ بھی سامنے آسکتا ہے۔’’عذرا کی واپسی‘‘جیسا نہ سہی لیکن ’’کچھ نہ کچھ ماورائی سا‘‘ ضرور سامنے آئے گا،بھید کھلے گا۔لیکن افسوس کہ ایسا کچھ بھی نہیں ہوتا اور مذکورہ تصاویر کی پراسراریت محض وقتی ہوتی ہے۔کہیں نہ تو کوئی بھید اجاگر ہوتا ہے نہ ان میں کسی نوعیت کی کوئی ہم آہنگی ظاہر ہوتی ہے۔ایسا لگتا ہے جیسے ناول کے بیچ میں قاری کو قابو میں رکھنے کے لئے تصویر کے ٹوٹے چلائے جا رہے ہیں۔اگر ان تصاویر کے گردکسی پراسراریت کا ہالہ بنائے بغیر انہیں ویسے بیان کردیا جاتا تو کسی اعتراض کی گنجائش نہ رہتی۔
انیسویں صدی کے ہندوستان کی زوال پذیرتہذیب کی روداد کے ساتھ انگریزی عملداری کے طور طریقوں اور خود ہندوستان کے مختلف مقتدر طبقوں کی باہمی رنجشوں اور سازشوں کی کہانیاں اس ناول میں بڑے اچھے طریقے سے بیان ہوتی گئی ہیں۔ایسا کہیں بھی اوپری طور پر بیان ہوتا محسوس نہیں ہوتا بلکہ سارے احوال ناول کے اندر تخلیقی طور پرجذب ہو کر سامنے آتے چلے جاتے ہیں۔ان احوال سے بخوبی اندازہ کیا جا سکتا ہے کہ انگریز کی عملداری کے سامنے ہندوستان کے مقتدر طبقات کی کیا حیثیت رہ گئی تھی اور وہ طبقات بھی کس طرح باہمی رنجشوں،کدورتوں اور سازشوں میں گھرے ہوئے تھے۔اگر اس زمانے کی سیاسی صورتحال کو آج کے عہد تک لایا جائے تو ایسے لگتا ہے ہم آج بھی عالمی سطح پر اسی حالت میں ہیں جیسی انیسویں صدی میں ہندوستان کے مقتدر طبقات کی تھی۔بس اس حالت کے عالمی تناظر کے باعث اس میں زیادہ وسعت اور پھیلاؤ آگیا ہے ۔ وگرنہ دونوں طرف ایک جیسی ہی صورتحال ہے۔
جنسی عمل کی منظر کشی میں شمس الرحمن فاروقی کی جزئیات نگاری کی مہارت اپنے کمال پر دکھائی دیتی ہے۔اگر انہوں نے ناول کو آج کے عہد کی اردو میں لکھا ہوتا تو صرف جنسی جزئیات نگاری کے باعث ناول ہاتھوں ہاتھ لے لیا جاتا۔’’آدابِ وصل و وصال میں ان کی مہارتیں‘‘جیسے الفاظ صرف نشاندہی کے لئے لکھ رہا ہوں وگرنہ جہاں جہاں شمس الرحمن فاروقی نے ان مہارتوں کی منظر کشی کی ہے جنسی جزئیات نگاری کا کمال دکھا دیا ہے۔
ناول کا ایک اہم حصہ شعر و ادب سے مملو ہے۔فارسی شاعری کے ضمن میں مجھے اعتراف ہے کہ میں اسے سمجھ نہیں سکتا اور یوں ناول کے کئی اہم حصوں سے اس سطح پر لطف اندوز نہیں ہو سکا۔یہ میری ذاتی علمی کمی ہے۔ تاہم بعض فارسی اشعار فارسیت کے باوجود مجھے آسانی سے سمجھ میں آئے۔خاص طور پر برہنہ ردیف والی غزل۔
گلے دارم زرنگ و بو برہنہ سہی سروے چو آب جو برہنہ
پوری کی پوری غزل ناول کے واقعاتی پس منظرکے باعث آسانی سے سمجھ میں آگئی۔مزہ بھی دے گئی۔تاہم فارسی اشعار سے ہٹ کر اردو شعرو ادب کے حوالے سے بھی شمس الرحمن فاروقی نے اُس دورکی ایک تصویر کھینچ دی ہے۔یہاں یہ بتانا مناسب ہو گا کہ وزیر خانم اور نواب شمس الدین کے صاحبزادہ نواب مرزا اردو شاعری کا ایک روشن نام نواب مرزا داغ دہلوی ہیں۔ اس حوالے سے اس ناول کو داغ دہلوی کی زندگی کی داستان کے حوالے سے بھی اہمیت حاصل ہوتی ہے۔ اس زمانہ کی ادبی فضا،علمی مباحث وغیرہ کی ایک واضح جھلک ناول میں دیکھی جا سکتی ہے ۔ان مباحث میں کہیں کہیں خود شمس الرحمن فاروقی کے اندر کا نقاد اور محقق ناول پر غالب آجاتا ہے جہاں وہ باقاعدہ علمی لحاظ سے تحقیقی و تنقیدی گفتگو کرنے لگ جاتے ہیں۔مثلاََ
’’حق یہ ہے کہ عرفی کے مضمون کی نزاکت،اور اس سے بڑھ کر معنی کے امکانات کی وسعت ایسی ہے کہ داغ کا شعر بظاہر پھیکا اور گھریلو معلوم ہوتا ہے۔لیکن یہی گھریلو پن تو اس معاملے کی جان ہے ، اور’’انداز‘‘کے لفظ کا گھریلو پن ’’شیوہ‘‘کے مقابلے میں اپنے حسن کو منوا رہا ہے۔پھر اس سے بڑھ کر ’’جی جانتا ہے‘‘اس قدر بے تکلف اور محاوراتی زور رکھتا ہے کہ زبان ہندی کے اعجاز اور ہندی کے شاعرکے اعجاز پر ایمان لانا پڑتا ہے۔سہل ممتنع کا جو طرز بعد میں داغ کی شاعری کا امتیازی نشان بنا،در حقیقت شروع ہی سے ان کے یہاں موجود تھا جس کی وجہ غالباََ فاطمہ کا عشق ہی تھا کہ جوانی کے برگ و بار لاتے ہوئے قادرالکلامی کے مزے اُٹھاتے ہوئے اس نوبادۂ حدیقۂ شعرو سخن کا جی چاہتا تھا کہ غیر پیچیدہ اور غیر استعاراتی،غیر رسمی زبان میں اپنے معشوق سے اپنے دل کا حال کہے۔‘‘
تاہم ایسے تحقیقی و تنقیدی ٹکڑے ناول سے کچھ الگ ہو کر بھی زیادہ الگ نہیں لگتے۔
اس ناول کے ذریعے ایسے تاریخی تہذیبی حوالے بھی ملتے ہیں جو عرب،ہندی اور ہند مسلم تاریخ و تہذیب میں عام نظروں سے اوجھل ہیں۔ مثلاََ لفظ قحبہ کے بارے میں یہ معلوم ہوتا ہے کہ عربی میں اصلاََ کھانسی کے لئے بولا جاتا ہے۔لیکن فاحشہ عورتوں کے لئے اس لفظ کا استعمال ایک خاص پس منظر رکھتا ہے۔ قدیم عرب میں فاحشہ عورتیں اپنے گاہکوں کو متوجہ کرنے کے لئے ہلکے سے کھانستی تھیں،اس لئے کھانسنے (قحبہ) کی نسبت سے وہ بھی کھانسنے والیاں کے طور پر قحبائیں کہلائے جانے لگیں۔
مرزا تراب علی جو سون پور کے سفر سے واپسی پر بہار کے ٹھگوں کے ہاتھوں مارے گئے،ان کے احوال میں دیوی بھوانی کی متھ اور اس کے پجاریوں کی ٹھگ بازیوں کی تفصیل بجائے خود ایک الگ اور دلچسپ داستان ہے۔لیکن جو مرزا تراب علی کی موت کی وجہ سے پوری طرح ناول میں جذب ہو جاتی ہے۔
شادی بیاہ کے معاملہ میں اِس وقت ہندوستانی اور پاکستانی معاشرہ جس طرح کا ذہن رکھتا ہے، اس کے مقابلہ میں ڈیڑھ ،دوسوسال پہلے کے معاشرہ میں نسبتاَ کافی لچک دکھائی دیتی ہے۔ ایک تو اُس معاشرہ میں طوائف کے بالاخانے ایک خاص نوعیت کے تہذیبی اور فنکارانہ سطح کے تربیتی ادارہ ہونے کا احساس دلاتے ہیں،اسی کا نتیجہ ہے کہ معزز مولوی بھی بالاخانوں سے آئی ہوئی خواتین کے ساتھ بخوشی شادی کر لیتے تھے۔ دوسرے اُس زمانہ میں بغیر نکاح کے مرد عورت کے ایک ساتھ رہنے کی روایت اعلیٰ معاشرتی سطح پر موجود تھی۔ممکن ہے اسے لونڈی کے مذہبی تصور کی روشنی میں روا رکھا جاتا ہو۔ مجھے اس ناول کو پڑھنے کے بعد احساس ہو رہا ہے کہ اسلام میں شاید اس حوالے سے خاصی گنجائش موجود ہے لیکن مخالفین کے اعتراضات کے جواب دیتے دیتے ہم معاشرتی سطح پر خوداس سہولت سے گریز کرتے کرتے دور ہوتے گئے۔اگر ایسا نہیں ہے تو پھر اُس زمانے میں معاشرتی سطح پر بغیر نکاح کے بیویوں کی طرح رکھنا اور معاشرے میں قابلِ اعتراض نہ دیکھا جانا عجیب سا لگتا ہے۔
ایک اور تہذیبی اشارہ بہت مزے کا ملتا ہے۔اس زمانہ میں شرفاء کی بیگمات اور بہو بیٹیاں نالکی یا پالکی پر سوار ہو کر گھر سے نکلتی تھیں۔صرف برقعہ پہن کر گھر سے نکلنا ایک طرح سے بے پردگی میں شمار ہوتا تھا ۔اس سے مجھے اندازہ ہوا کہ زمانے کی اپنی رفتار ہوتی ہے۔اس رفتار کے سامنے مزاحمت کرنے والے بڑی جوشیلی مخالفت تو کرتے ہیں لیکن پھر اس رفتار کے سامنے جذباتی برانگیختگی کے باوجود کوئی بند نہیں باندھ پاتے۔نالکی اور پالکی کے زمانے کے بعد شٹل کاک برقعہ شریفانہ پردہ سمجھا جانے لگا،تاہم اب خواتین پالکی اور نالکی سے اتر آئیں۔چند برسوں کے بعد شٹل کاک برقعہ بھی صرف افغان علاقوں میں رہ گیا،بات لیڈی ہملٹن کپڑے کے ریشمی برقعہ سے چادر اوڑھنے تک پہنچی اور اب چادر سے دوپٹہ تک آگئی ہے۔ دوپٹہ بھی غائب ہوتا جا رہا ہے،ممکن ہے اگلے بیس تیس برس کے بعد ہمارے بزرگ اپنے بچوں کو اس طرح نصیحت کیا کریں کہ بیٹی دیکھو ہم جتنے روشن خیال ہو جائیں آخر کو مشرقی رویات کے امین ہیں۔میں یہ نہیں کہتا کہ اسکرٹ مت پہنو لیکن اس کی طوالت اتنی ضرور ہونی چاہئے کہ تمہارے گھٹنے ڈھک جائیں۔آخر شرم وحیا بھی کوئی چیز ہے۔تو جناب! شمس الرحمن فاروقی کے اس ناول کے ایسے حوالوں سے مجھے خود یہ ادراک ہوا کہ تبدیلی ناگزیر عمل ہوتا ہے اور اس کی مخالفت کرنے والے خود وقت کے ساتھ پسپا بھی ہوتے جاتے ہیں اور ہر پسپائی کے بعد کچھ پیچھے ہٹ کر اپنی نصیحت بھی جاری رکھتے ہیں۔ روکنے والے بھی اپنی جگہ حق بجانب ہیں اور وقت کی رفتار بھی اپنی جگہ ایک زندہ حقیقت ہے جس کے لئے کسی لمبی چوڑی دلیل اور ثبوت کی ضرورت نہیں ہے۔صرف نالکی اور پالکی کے ڈیڑھ سو سال پہلے کے دور سے لے کر آج کے دوپٹے اترتے ہوئے دور تک ہر تبدیلی اپنا ثبوت آپ ہے۔انیسویں صدی کی ہندوستانی زندگی کا حال پڑھتے ہوئے اندازہ ہوتا ہے کہ بیل گاڑیوں اور پالکیوں کے اس زمانہ میں رفتار کتنی آہستہ تھی۔اسی لئے زندگی کے معاملات میں بھی ہر طرح کے انتشار و افتراق کے باوجود ایک دھیرج ملتا تھا۔انیسویں صدی کے پیدل اور بیل گاڑی کی رفتار کے زمانے سے جب ہم آج کے اپنے زمانے کو دیکھتے ہیں تو جیٹ طیاروں،خلائی راکٹوں،اور کمپیوٹر کی برق رفتاریوں کے باعث اپنے عہد کی رفتار کا احساس بھی کرتے ہیں اور یہ بھی معلوم پڑتا ہے کہ اس تیز رفتاری نے ہم سے وہ دھیرج چھین لیا ہے جو گزرے ہوئے آہستہ رو زمانوں میں نسبتاَ بہت زیادہ میسر تھا۔
بہادر شاہ ظفر کی بیگم ملکہ زینت محل نے وزیر خانم کو محل بدری کا حکم دیتے ہوئے جو چند زہریلے جملے کہے تھے:’’چھوٹی بیگم،ہمیں تمہاری بیوگی پر بہت افسوس ہے۔۔۔۔لیکن تم تو ایسے سانحوں کی عادی ہوچکی ہو۔اسے بھی سہ جاؤگی۔انواسی کا کلیجہ مضبوط ہوتا ہے،لوگ کہے ہیں‘‘
دیکھا جائے تو ہمارے معاشرے میں وزیر خانم ایسے کرداروں کے لئے ایسا کچھ ہی کہا جاتا ہے لیکن شمس الرحمن فاروقی نے وزیر خانم کے کردار کو اس خوبی کے ساتھ ابھارا ہے کہ ان کی تمام تر کوتاہیوں اور آزاد خیالیوں کے باوجودنہ صرف ان سے ہمدردی ہوتی ہے بلکہ ایک طرح سے ان کے لئے محبت کے جذبات بھی پیدا ہوجاتے ہیں۔ناول کا سب سے زوردار حصہ وہ ہے جب وزیر خانم کی بڑی بہن کے پاس شہزادہ مرزا فخرو کی جانب سے وزیر خانم کے لئے رشتہ کا پیغام آتا ہے،اور وہ اپنی بہن کو اس سے آگاہ کرتی ہے۔ایک لٹی پٹی اور اجڑی ہوئی زندگی میں شاہی گھرانے سے پیغام آنا اور اس پر دونوں بہنوں کی کیفیات۔۔ ۔میرا خیال ہے کہ یہاں شمس الرحمن فاروقی نے کرداروں کی نفسیات پر اپنی گرفت کا اعجاز دکھایا ہے۔یہ حصہ بڑا ہی پُر تاثیر ہے۔اور پھر ناول کا اختتامیہ بھی اتنا ہی پر تاثیر ہوتے ہوئے دلوں میں اداسی اور دکھ کی عجیب سی کیفیت پیدا کردیتا ہے۔
کئی چاند تھے سرِ آسماں شمس الرحمن فاروقی کے تخلیقی اظہار کی عمدہ ترین صورت ہے۔ یہ ناول ایک اہم ناول ہے اور شمس الرحمن فاروقی کی تخلیقی شناخت کا سب سے بڑا حوالہ ہے ۔اس میں ان کے اندر کے نقاد اور محقق نے ان کا پورا ساتھ دیا ہے۔اس نوعیت کے ناول لکھنے کے سلسلے میں جس تحقیقی محنت کی ضرورت ہوتی ہے،وہ ناول کی ہر سطر میں دکھائی دیتی ہے۔تحقیق و تنقید کے شعبوں میں شمس الرحمن فاروقی کی زندگی بھر کی ریاضت اس ناول میں پوری طرح ان کے کام آئی ہے۔ اور اس طور سے کام آئی ہے کہ ان کے تخلیقی اظہار کا داخلی حصہ بن گئی ہے۔