اردو ہندی دو الگ الگ زبانیں نہیں ہیں۔ حقیقت میں ایک زبان کے دو نام رکھ لیے ہیں۔ سنسکرت زبان تعلیل اور تحریف کے بعد بھاکا بنی۔ بھاکا ترمیم تنسیخ تعلیل کے بعد ایک دوسری زبان بنی جس کو اردو کہو یا ہندی۔ اردو کا نام ہماری زبان پر ابھی چند برسوں سے آ گیا۔ ورنہ ہندو تو ہندو، مسلمان بھی اس زبان کو ہندی کہتے تھے۔ چند عبارتیں ہمارے دعوے کی گواہ ہیں۔ قیامت نامہ کا مولف کہتا ہے:
’’بموجب فرمانے ان کے اس حقیر نے ۱۲۵۶ ہجری میں زبان ہندی میں ترجمہ کیا۔‘‘
نور نامے کا مصنف کہتا ہے:
اگرچہ تھی افصح وہ عربی زباں
سمجھ اُس کی ہر اک کو تھی بس گراں
سمجھ اس کی ہر اک کو دشوار تھی
کہ ہندی زباں یاں تو درکار تھی
اسی کے سبب میں نے کر فکر و غور
لکھا نور نامے کو ہندی کے طور
اس سے معلوم ہوا کہ آج سے ۷۵ برس پیشتر اسی زبان کو جسے ہم اردو کہتے ہیں، سارے مسلمان ہندی کہتے تھے۔ رفتہ رفتہ کچھ لوگوں نے اسے اردو کہنا شروع کیا۔ سبب یہ ہوا کہ بعض لوگوں نے اسی زبان کو ہندی خط میں لکھنا شروع کیا۔ ناگری کی ناقص تحریر کا نام ہندی تھا۔ پھر ناگری میں بھی اسی زبان کو لکھنے لگے۔ ناگری کا خط وہی ہے جو بھاکا زبان کا خط ہے۔
اس میں شک نہیں کہ ہندوستان کی زبان کے لیے بھاکا خط میں لکھا جانا مناسب اور موزوں ہے۔ مگر مشکل یہ ہے کہ بھاکا یعنی ناگری کا خط اتنا جامع اتنا وسیع اتنا مبسوط نہیں ہے کہ زبان کی وسعت اور ترقی کو مفصل دکھا سکے اور دخیل الفاظ کے رسم الخط کو برقرار رکھے اور پانچ پانچ سات سات حرفوں کو ایک میں ملا کر لکھے اور زیر زبر کی قید سے بری ہو جو ایک علمی زبان کے لیے لازمی اور ضروری ہے۔
ہندوستان کی زبان کے نیک نصیب تھے جو اس کے لیے ایسے قانون خطاطی تجویز کیے گئے جو ہر طرح مکمل ہیں۔ ناگری میں ث، س،ص میں کوئی فرق نہیں ہے۔ دوسری بات یہ ہے کہ اس کا ایک ایک حرف الگ الگ لکھا جاتا ہے۔ تیسرے یہ کہ ناگری میں زیر زبر کے حرف بھی لکھے جاتے ہیں۔ اس کے لکھنے میں بڑا وقت صرف ہوتا ہے۔ یہ دقتیں اور خط میں نہیں ہیں۔ اس لیے کہ ہر زبان کا لفظ اس میں داخل ہونے کے بعد اپنی جڑ بنیاد بے پوچھے بتا دیتا ہے۔ جیسے قرض میں قاف اور ضاد کہہ رہا ہے کہ میں عربی ہوں۔ حالت میں بڑی حے کہہ رہی ہے کہ میں عربستان سے آئی ہوں۔ مژدہ میں ژے کا حرف پکار رہا ہے کہ میں عجمی ہوں۔ گھڑا میں گھ اور ڑ سے معلوم ہوتا ہے کہ یہ سدیشی ہیں۔ چاقو میں قاف بول رہا ہے کہ میں ترکی ہوں۔ بورڈ میں دو ساکنوں کا اجتماع ڈال کے ساتھ بتا رہا ہے کہ میں انگریزی ہوں۔
اسی طرح جتنی زبان کے الفاظ ملتے جائیں گے اپنے املا، خال و خط، حرفوں کی آواز سے پہچان لیے جائیں گے کہ یہ لفظ کہاں سے آیا ہے۔ اس لحاظ سے ہندی زبان کا اردو حرفوں میں لکھا جانا محض مصلحت اندیشی ہے اور اس کے علمی بننے کی دلیل ہے۔ ہر ایک ہردلعزیز زبان جو وسعت حاصل کرنا چاہے اور جو کثرت سے استعمال کی جاتی ہے اور جو دوسری زبانوں کو اپنے میں شامل کرنے کی قوت رکھتی ہے اور اس کے قواعد خطاطی، املا نویسی سخت رسیوں میں جکڑے ہوئے ہوتے ہیں۔ جو لوگ زبان کی اہمیت سے ناواقف ہیں وہ ہمیشہ اس جوئے کو اپنی گردن سے اتارنا چاہتے ہیں اور اس کے متعلق کمزور تاویلیں پیش کرتے ہیں۔ زبان کی ترقی میں رخنہ انداز ہوتے ہیں۔ اسی ہندوستان میں دیکھ لیجیے، عوام نے اپنی غلط اور فصیح اردو کا نام ہندی رکھ لیا ہے اور اس کو دیو ناگری میں لکھتے ہیں۔ اور وہ چاہتے ہیں ہماری کچی زبان کی کوئی اصلاح نہ کرے۔ اور کوئی ہم کو نام نہ رکھے۔ وہ شین کو سین اور خے کو کھے بولتے ہیں اور اسی کو اچھا اور فصیح بتاتے ہیں۔ بعض لوگ قاف کو کاف بولتے ہیں اور اسی کو اچھا سمجھتے ہیں۔ ایسی خود سری سے دوسری زبان کا امان جاتا رہتا ہے اور وہ علمی زبان نہیں بن سکتی۔ ہم سب ہندوستانیوں کو ایک زبان بولنا چاہیے کیونکہ ہندوستان کی ایک زبان ہے، دو رسم الخط ایک ہندی ایک اردو۔ اس لیے کہ ناگری خط ہماری زبان کی حفاظت نہیں کر سکتا تو اب بھی لازم ہے کہ ہم اپنی زبان کو اردو خط میں لکھیں جس میں ہم کو بے شمار الفاظ لینے کی گنجائش رہے۔
لیکن پہلے یہ سمجھنا چاہئے کہ اردو زبان کو مستند بنانے کے لیے کس بات کی ضرورت ہے۔ بات یہ ہے کہ ہمیں اپنی زبان کو باقاعدہ اور علمی زبان بنانے کے لیے اس بات کی ضرورت ہے کہ ہماری زبان کا کوئی خاص شہر یا کوئی جگہ مرکز قرار پائے جس کی تقلید ہر زبان دان پر لازم ہو۔ جیسے عربی زبان کے لیے مکہ شریف مستند جگہ ہے اور اسی زبان کی تقلید کرنے سے کلام فصیح ہوتا ہے۔
فارسی کے لیے شیراز، اصفہان، طہران مستند شہر ہیں۔ تمام عجم کو ان شہروں کی تقلید کرنا پڑتی ہے اور انہیں شہروں کی زبان معتبر مانی جاتی ہے اور ان کی مثال پیش کی جاتی ہے۔
دوسرے شہروں کی زبان کو زبان لُر کہتے ہیں۔ ہاں جو لوگ ان شہروں کی تقلید کو لازمی اور ضروری سمجھتے ہیں اور جو کچھ نظم و نثر بتقلید لکھتے ہیں وہ مستند مان لیے جاتے ہیں اور ان کو زبان داں کہتے ہیں۔ زبان دانوں کا یہ کام ہوتا ہے کہ وہ اپنے شہر کی زبان کو مرکز کے مطابق بناتے ہیں۔ اردو میں بھی زبان دانوں کا یہی کام ہے، وہ اپنے مرکز کی تقلید کر کے اسی اصول پر لوگوں کو چلاتے ہیں۔ اور اگر ایسا نہ ہو تو ہر شہر اپنے اپنے مقامی الفاظ اور محاورات کو استعمال کر کے اپنی ڈیڑھ اینٹ کی مسجد الگ بنائے اور ایک کو دوسرے کی زبان سمجھنا مشکل ہو جائے اور آخر کو سب جہالت کے دریا میں ڈوب کے مر جائیں اور اُن کی زندگی بھیڑ بکریوں کے مثال ہو۔
بات یہ ہے کہ ہندوستان ان خرابیوں کا بہت دور تک شکار ہو چکا ہے۔ یہاں تین سو چھتیس زبانیں تھیں اور ہر ایک اپنی زبان کو دوسرے سے بہتر سمجھتا تھا۔ سب زبانیں علم سے خالی تھیں۔ ضرورت اس امر کی تھی کہ ایک زبان سب کی ہو مگر جاہلوں سے یہ کام نہ ہو سکتا تھا۔ اب گورنمنٹ نے اپنے مغربی علوم سے ہماری آنکھیں کھولیں اور ہم کو دکھایا کہ دیکھو خود تمہارے گھر میں ایک اردو زبان ایسی ہے جو تمام دنیا کی زبان بننے کی قوت رکھتی ہے مگر تم اس کے فضائل، اس کے مناقب سے بے خبر ہو۔ تم کو اس کی پرورش کا طریقہ نہیں معلوم۔ وہ خدا کی طرف سے پیدا ہوئی ہے اور خدا اس کا مددگار ہے۔ باوجود سخت مزاحمتوں کے وہ ہندوستان کے ہر گوشہ میں دفعتاً پھیل گئی اور پھیلتی جاتی ہے۔
اس وقت موجودہ حالت میں زبان اردو کے دو ٹکسال ہیں، ایک دہلی اور ایک لکھنؤ۔ اس میں اولیت کا تاج دہلی کے سر ہے۔ اس لیے کہ سب سے پہلے دہلی کی زبان مستند و معتبر تھی اور لکھنؤ والے بھی دہلی کی تقلید کرتے تھے اور وہی زبان بولتے تھے۔ رفتہ رفتہ دہلی مِٹی اور جو فصحا، جو شرفا، جو والیان ملک، جو شہزادے دہلی کی جان تھے اپنے وطن کو خیرباد کہہ کر لکھنؤ میں آ بسے۔ انہیں لوگوں کی زبان اردوئے معلیٰ تھی اور دہلی انہیں سے عبارت تھی۔ کچھ دنوں کے بعد لکھنؤ بھی دہلی ہو گیا اور اس کی زبان کے سکے رائج الوقت ہو گئے۔ دہلی کے سب ملک الشعرا شاعر، دہلی کے سب نجیب الطرفین شہزادے، دہلی کی بیگمیں، دہلی کے شرفا لکھنؤ کی خاک میں آرام کر رہے ہیں۔
اب لکھنؤ کا دوسرا دور شروع ہوا اور زبان کا سکہ لکھنؤ میں ڈھلنے لگا۔ یہاں شاعروں میں ناسخؔ، آتشؔ مستند اور مشہور ہوئے اور ان لوگوں نے زبان کے گلزار کو خار سے پاک کر کے گلشن بے خار بنا دیا۔ جب لکھنؤ اور دہلی مد مقابل ہوئے تو دونوں میں رقابت پیدا ہوئی۔ دہلی کے رہے سہے شاعر جو ہمیشہ آپس میں لڑا کرتے تھے، لکھنؤ کی مخالفت پر آمادہ ہوئے اور یہ جھگڑا طول پکڑتا گیا۔ پہلے تذکیر و تانیث کا سلسلہ شروع ہوا۔ دہلی والے سانس کو مذکر بولتے تھے، یعنی سانس آیا، سانس نکلا۔ لکھنؤ والے کہتے تھے اس قافیے کے جتنے الفاظ ہیں سب مونث ہیں۔ قرینہ یہی کہتا ہے کہ ہم اس کو مونث بولیں جیسے یاس، آس، ناس، گھانس، چپراس، مٹھاس، کھٹاس۔ اس لیے ہم سانس آئی اور سانس نکلی بولیں گے۔ بات یہ ہے کہ لکھنؤ میں بھی تو وہی لوگ تھے جن کے بزرگ دہلی سے آئے تھے اور ان کو اپنے باپ دادا استاد کی زبان پر ناز اور فخر تھا۔ کوئی ملک الشعرا کا بھانجا تھا، کوئی بیٹا۔ کوئی شہزادہ تھا۔ ان لوگوں کو نئی دہلی کی تقلید میں شرم آئی اور لکھنؤ کے پردے میں خوب خوب زبان کو صاف کیا اور چھانا۔ دہلی نے کہا ہم مالا مونث بولتے ہیں۔ لکھنؤ نے کہا یہ لفظ مذکر ہے، اس لیے کہ اس کے آخر میں الف ہے۔ دہلی نے کہا موتیا مونث ہے۔ لکھنؤ نے کہا موتیا مذکر ہے۔ دہلی نے کہا فکر مذکر ہے۔ لکھنؤ نے کہا نہیں، یہ مونث ہے۔ دہلی نے کہا قلم مونث ہے۔ لکھنؤ نے کہا یہ مذکر ہے۔ دہلی نے کہا املا مونث ہے۔ لکھنؤ نے کہا مذکر ہے۔
اسی طرح اور لفظی جھگڑے ہیں جیسے دہلی والے بولتے ہیں مجھے روٹی کھانی تھی۔ لکھنؤ والے بولتے ہیں مجھے روٹی کھانا تھی۔ دہلی والے کہتے ہیں میرا دامن چل گیا۔ لکھنؤ والے بولتے ہیں میرا دامن نکل گیا۔ دہلی والے کہتے ہیں بوچھاڑ، لکھنؤ والے بولتے ہیں بوچھار۔ دہلی والے بولتے ہیں گھڑنا۔ لکھنؤ والے کہتے ہیں گڑھنا۔ دہلی والے کہتے ہیں گلتھی۔ لکھنؤ والے کہتے ہیں گتھی۔ اسی طرح اور بے شمار جھگڑے ہیں جنہوں نے بہت طول پکڑا۔
دہلی والوں کا خیال تھا کہ اس جنگ میں ہمارا پلہ بھاری رہے گا اور لکھنؤ کو نیچا دیکھنا نصیب ہو گا مگر اب لکھنؤ وہ لکھنؤ نہیں رہا تھا جو اپنی مادری زبان میں کسی دوسرے کا محتاج رہتا۔ اس نے بھی خم ٹھونک کر مقابلہ کیا، بالآخر پالا اسی کے ہاتھ رہا۔ یہ جنگ نہ تھی، اختلاف علما تھا اور امت کے لیے رحمت بن گیا اور مقلدین اردو کے دو فرقے ہو گئے۔
پنجاب والوں نے دہلی کے محاورات، اصطلاحات، تذکیر و تانیث کی اختلاف کی حالت میں پیروی کی۔ اور پورب دکھن اتّر والوں نے در صورت اختلاف لکھنؤ کی پیروی قبول کی۔ لکھنؤ کا دار السلطنت بہت وسیع تھا۔ اس لیے ضرورت تھی کہ یہاں عملہ بھی زیادہ ہو اور کام کرنے والے لوگ مستند ہوں۔ شاہانِ لکھنؤ نے اس خدمت میں لاکھوں روپیہ صرف کیا اور دربار میں ثِقات سخنداں ملازم ہوئے۔ ہر ایک رئیس کے پہلو میں ایک فصیح شاعر یا نثّار ضرور بیٹھتا تھا۔
ریاستوں میں اچھی زبان کے سیکھنے کے لیے ادیب کی ضرورت ہوئی۔ بیاہ شادی میں شعرا کو قصیدہ خوانی پر انعام اکرام ملنے لگا۔ نثاروں نے اور شاعروں نے زبان کو خوب دل کھول پر مانجا اور اس میں نئے الفاظ بھرتی کیے۔ چنانچہ نمبر رفل وغیرہ انگریزی الفاظ شاہی میں شعرا اپنے کلام میں نظم کرتے تھے۔ نواب کلب علی خان والیِ رامپور جو غدر کے بعد ریاست رامپور پر تخت نشین ہوئے۔ اس وقت دہلی اور لکھنؤ کے شعرا مٹ چکے تھے۔ ان کو علم و ادب کی حفاظت کا خیال ہوا تو لکھنؤ اور دہلی کے ثقات شعرا کی تلاش ہوئی۔
دہلی سے فصیح الملک مرزا داغ و حیا دہلوی اور لکھنؤ سے بحر، امیر، قلق، منیر، تسلیم، جلال وغیرہ مقرر ہوئے۔ اب بھی دہلی اور لکھنؤ کا فیض جاری ہے۔ اب یہ بھی بتا دینا چاہیے کہ ان مستند شہروں میں زبان کی حفاظت کا کیا انتظام ہے اور نظام سلطنت کیونکر ہے۔ یہ بات تو ظاہر ہے کہ ہر شہر میں تین طبقے کے لوگ ہوتے ہیں، ادنی، اوسط، اعلی۔ یہ مرتبہ بہ لحاظ دولت نہ سمجھنا چاہیے۔ بلکہ بہ اعتبار زبان ادنی وہ لوگ ہیں جو جاہل ہیں اور پڑھے لکھے نہیں ہیں اور گفتگو میں ان کا تلفظ بھی صحیح نہیں یعنی شین قاف درست نہیں۔ انہیں عوام کہتے ہیں اور ان کی زبان کی پابندی لازم نہیں۔
دوسرے اوسط وہ لوگ ہیں جو جوہرِ علم رکھتے ہیں اور ان کا تلفظ صحیح ہے۔ اردو بولتے ہیں اور سمجھتے ہیں۔ انہیں اصطلاح زبان میں عام کہتے ہیں۔
تیسرے اعلیٰ وہ لوگ ہیں جو ہمیشہ زبان کی خدمت میں اپنے اوقات صرف کرتے ہیں اور اس کے اصطلاحات اور محاورات کا تحفظ کرتے ہیں اور عام زبان سے قاعدے اور قانون اخذ کرتے ہیں اور عام زبان کی عزت کرتے ہیں اور اُن کی زبان سب سے زیادہ مستند اور معتبر جانتے ہیں۔ انہیں خاص کہتے ہیں۔
تمام ہندوستان کے لوگ جو اردو بولتے ہیں اہل زبان اور تمام ہندوستان کے وہ لوگ جو اردو کی خدمت کرتے ہیں زبان داں ہیں۔ لیکن ان سب کی زبان کا سر چشمہ دہلی اور لکھنؤ ہے۔ گویا دہلی اور لکھنؤ ایک ایسا کالج ہے جہاں سے زبان کی سند ملتی ہے۔ مگر اس کالج کی عزت اس سبب سے نہیں ہے کہ اس کے پرنسپل اور پروفیسر کے ہاتھ میں قانون ہے۔ ایک اسکول میں اگر کوئی لڑکا پروفیسر سے گستاخی کرتا ہے تو اس کا نام کاٹ دیا جاتا ہے۔ پھر ہندوستان بھر میں کہیں اس کو تعلیم نہیں ملتی لیکن اردو کے پروفیسروں کی توہین کی جائے، دہلی اور لکھنؤ سے بائیکاٹ کیا جائے، پھر بھی جب کسی سے کوئی مسئلہ زبان دریافت کرنا چاہے تو وہ خندہ پیشانی سے بتانے کو مستعد ہو جاتا ہے۔ چو باز آمدی ماجرا در نوشت۔
جو لفظ یا جو اصطلاح یا جو محاورہ ہندوستان کے کسی شہر میں یا کسی صوبے میں بولا جاتا ہے اور دہلی اور لکھنؤ میں وہ مستعمل نہیں ہے اور زبان دانانِ دہلی اور لکھنؤ نے اسے قبول نہیں کیا تو وہ ٹکسال باہر اور غلط ہے۔ یہی سبب ہے کہ بعض اجنبی الفاظ اخبارات میں مستعمل ہو رہے ہیں یا دوسرے شہروں میں بکثرت بولے جاتے ہیں، مگر عام ہندوستان کے لوگ اُسے غلط مانتے ہیں اور اس سے احتراز کرتے ہیں۔ اس کا سبب یہ ہے کہ اس کی صحت کا سارٹیفکٹ زبان کے کالج سے حاصل نہیں ہوا یعنی دہلی اور لکھنؤ کے فصحا کے نظم و نثر کلام میں دیکھنے میں نہیں آیا اور ان کی زبانوں پر اس کا استعمال نہیں ملتا۔
مثال کے طور پر لکھا جاتا ہے، ایک لفظ ہے ’’ٹھہرنا‘‘، بفتح ہائے ہوّز۔ دہلی اور لکھنؤ میں بولا جاتا ہے اور دونوں جگہ کے مستند شعرا نے اسی طرح نظم کیا ہے۔ فصیح الملک مرزا داغ دہلوی مرحوم نے بھی اس کو ثمر، سفر، سحر کے قافیے میں لکھا ہے:
کیونکر پڑے گا صبر الٰہی رقیب کو
گر بعد مرگ میری طبیعت ٹھہر گئی
راہ دیکھیں گے نہ دنیا سے گزرنے والے
ہم تو جاتے ہیں ٹھہر جائیں ٹھہرنے والے
غم کھاتے کھاتے ہجر میں تو روح بھر گئی
اب زہر کھائیں گے یہی دل میں ٹھہر گئی
لیکن اس کو لاہور کے تمام لوگ ٹھیرنا بولتے ہیں اور پنجاب کی تمام کتابوں میں یہ لفظ اسی طرح لکھا جاتا ہے لیکن پنجاب کے سوا ہندوستان میں کوئی شہر اس کی تقلید نہیں کرتا۔ اس لیے یہ لفظ ٹکسال باہر ہے۔
اسی طرح حیدر آباد میں تقصیر کا لفظ صرف حضور کے معنی پر بولا جاتا ہے مگر لکھنؤ کے عوام عام خاص اس جدت کو غلط جانتے ہیں، اس لیے حیدر آباد کے سِوا تمام ہندوستان کے لوگ اسے غلط جانتے ہیں اور اس معنی پر اس کا استعمال نہیں کرتے۔ افسوس ہے کہ اس زمانے میں بعض نا آشنا نے خود روی اختیار کی ہے اور دہلی اور لکھنؤ کے اس اقتدار کو مٹانے کی کوشش کرنا چاہتے ہیں اور اُس کی لطافتِ زبان اور فصاحتِ کلام سے خار کھاتے ہیں۔
اردو ادب ایسا سہل نہیں کہ بغیر کسی تحصیل کے کوئی اس کی معنوی خوبیوں سے آگاہ ہو سکے۔ لوگوں نے معیارِ ہمہ دانی انگریزی زبان کو بنا لیا ہے۔ ایک ہندوستانی ایم اے سمجھتا ہے کہ میں اردو کا بھی مالک ہوں۔ حالانکہ دو سطریں صحیح اردو کی نہیں لکھ سکتا۔ اس ضد میں زبان خراب ہو رہی ہے اور ہندوستان کے لوگ جس درخت پر بیٹھے ہیں اُس کی جڑ کاٹ رہے ہیں۔ اگر تمام ہندوستان جہالت کے دریا میں غرق ہو جائے جب بھی وہ عظمت اور وہ عزت جو خدا نے زبان کے بارے میں دہلی اور لکھنؤ کو دی ہے، کسی طرح کم نہیں ہو سکتی۔
فرض کیجیے آج تمام ہندوستان کے لوگ اتفاق کر لیں کہ ہم دہلی اور لکھنؤ کی پیروی نہیں کریں گے اور اپنی اپنی زبان بولیں گے۔ نتیجہ یہ ہو گا کہ ہر شہر کی بولی الگ الگ ہو گی۔ ایک شہر کا اخبار دوسرے شہر کے لوگوں کی سمجھ میں نہ آئے گا۔ کوئی کہے گا ٹوپی پہنی، کوئی کہے گا ٹوپی اوڑھی۔ کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی کوئی کہے گا ٹوپی باندھی، کوئی کہے گا ٹوپی چپکائی، کوئی کہے گا ٹوپی لٹکائی، کوئی کہے گا ٹوپی دھری، کوئی کہے گا ٹوپی لگائی، کوئی کہے گا ٹوپی سجی، کوئی کہے گا ٹوپی چڑھائی۔ اتنا بڑا فرق صرف ایک لفظ ایک معنی میں ہو گا تو پوری زبان کا کیا ذکر ہے۔ یہ ایک موٹی بات تھی جو ہم نے بیان کی۔ ورنہ زبان میں باریک پیچیدگیاں بہت ہیں۔ سب کے سب ایک قہار سمندر میں غوطہ کھا کر مر جائیں گے اور جو زندہ رہیں گے جہالت اور مزدوروں کی زندگی بسر کریں گے، اور اردو زبان کا جنازہ نکل جائے گا۔ لیکن دہلی اور لکھنؤ کی عظمت و فصاحت و بلاغت بیان و زبان کا نام ہمیشہ قائم رہے گا۔
اس خیال سے میں نے چاہا کہ لکھنؤ کے محاورات کی خصوصیت کا کچھ بیان کروں اور بعض لوگ جو محاورے کا غلط استعمال دوسرے ملکوں میں کر جاتے ہیں ان کو بھی دکھا دوں تاکہ دیکھنے والوں کو احتیاط کا موقع ملے اور سب لکھنؤ کی زبان کے موافق اپنی زبان بھی درست کر لیں۔
ایک بات اور کہنے کی ہے، وہ یہ ہے کہ میں نے اوپر لکھا ہے کہ میں لکھنؤ کے محاورے کی خصوصیت کا بیان کروں گا۔ اس سے یہ نہ سمجھنا چاہیے کہ لکھنؤ اور دہلی کے محاورات میں فرق ہے۔ بات یہ ہے کہ لکھنؤ اور دہلی کے محاورات میں کوئی فرق نہیں ہے۔ صرف بعض بعض الفاظ کی تذکیر و تانیث میں اختلاف ہے، جن کا مجمل ذکر میں اوپر کر چکا ہوں اور ایسا اختلاف خود اساتذۂ لکھنؤ کی تحقیق میں واقع ہو جاتا ہے۔ لکھنؤ میں ایک گروہ کہتا ہے اپیل مذکر ہے، دوسرا کہتا ہے اپیل مونث ہے۔ ایک کہتا ہے آبدست مذکر ہے، دوسرا کہتا ہے مونث ہے۔ ایک کہتا ہے آغوش مذکر ہے دوسرا کہتا ہے مونث ہے۔
اسی طرح محاورات میں بھی جزئی اختلاف ہے اور یہ اختلاف حد تحقیق کی علامت ہے کہ اساتذۂ سخن زبان کی خدمت میں کسی کی پروا نہیں کرتے اور آپس میں بھی اختلاف کر جاتے ہیں۔ اسی طرح دہلی کے اختلاف کو بھی سمجھنا چاہیے کہ جس طرح لکھنؤ آپس میں اختلاف جزئی رکھتا ہے اسی طرح دہلی بھی اختلاف جزئی رکھتی ہے۔ اسی طرح دہلی اور لکھنؤ میں اختلاف جزئی ہے جو طالبانِ زبان کے حق میں مفید ہے۔ مگر میں نے اگرچہ زبان اردو کے قانون ملک الشعرا میر تقی میر کے خاندان سے حاصل کیے ہیں اور دہلی کے بعض اختلاف سے بھی واقف ہوں۔ لیکن کئی پشت سے میرے یہاں لکھنؤ کی زبان بولی جاتی ہے اور قدامت سے لکھنوی ہوں۔ جس طرح ایک دہلی کا مستند شاعر اپنے محاورات و زبان کی تحقیق رکھتا ہے، اُس طرح میں نہیں رکھتا۔ اس لیے میں نے اپنی ہیچمدانی کا اعتراف کر کے کہا، میں لکھنؤ کے محاورات کے متعلق بحث کروں گا۔ ورنہ حقیقت میں دونوں محاورے ایک ہیں۔
کوئی
. اسم عدد ہے۔ تذکیر و تانیث میں اپنے معدود کا تابع ہے۔ ایک کے معنی پر بولا جاتا ہے۔ جیسے کوئی آدمی نہیں ہے۔ گھر بالکل خالی ہے۔
· تخمیناً کے معنی پر جیسے کوئی سو آدمی ہو گا۔ کوئی ہزار آدمی ہو گا۔ یعنی تخمیناً سو تخمیناً ہزار۔
· خال خال کے معنی پر جیسے کوئی کوئی تارا آسمان پر معلوم ہوتا ہے۔
· ایک آدمی کے معنی پر جیسے اس گھر میں کوئی ہے۔
· نا معلوم آدمی کے معنی پر جیسے کوئی آیا تھا۔ آپ کو پوچھتا تھا۔
قاعدہ: کوئی کا استعمال جب مفرد ہو گا تو اس سے آدمی مراد ہو گا۔ جب کسی چیز کے نام سے ساتھ ہو گا تو چیز مراد ہو گی۔ جیسے کوئی کھڑا ہے۔ یعنی آدمی۔ کوئی پیسہ دے دو۔ کوئی روٹی دے دو۔
قاعدہ: کوئی کو واحد عدد کے ساتھ کچھ لوگ بولتے ہیں، یہ غلط ہے۔ جیسے کوئی ایک پیسہ ہو گا۔ کوئی ایک آدمی ہو گا۔ کیونکہ کوئی خود ایک کے معنی پر آتا ہے۔ اس لیے کوئی پیسہ ہو گا۔ یا ایک پیسہ ہو گا بولنا چاہیے۔ ہاں جمع کے ساتھ بولنا فصیح ہے۔ کوئی دس روٹیاں بچی ہوں گی۔ ’’کوئی کوئی‘‘ جمع کے معنی دیتا ہے۔ جیسے کوئی کوئی آدمی کہتا ہے۔ یعنی دو ایک آدمی۔
کَے
کَے اسم عدد جمع ہے۔ جیسے کئے روپے ملے۔ کَے آدمی آئے۔ بعض اس کا غلط استعمال کر جاتے ہیں۔ جیسے کَے بجا ہے۔ یہ غلط ہے۔ بجے ہیں بولنا چاہیے۔
کتنا
اسم مقدار ہے۔ جیسے اِس تالاب میں کتنا پانی ہے۔ یہ سُرمہ کتنا ہے۔ یہ آٹا کتنا ہے۔ یعنی کئے سیر ہے۔ مگر اس کا استعمال محاورے میں اسم عدد کے معنی پر بھی خاص خاص موقع پر ہوتا ہے، جیسے آلو کتنے سیر دو گے۔ یعنی کئے پیسے سیر۔ قلم کتنے کا دو گے، یعنی کئے پیسے کا۔ سب کتنے آم ہیں، یعنی کَے آم ہیں۔ اس طرح کا بھی بولتے ہیں۔ مگر افصح صورت یہ ہے کہ سب کَے آم ہیں۔ کیونکہ یہاں غرض تعداد سے ہے نہ مقدار سے۔ گوشت کتنا ہے۔ چاول کتنے ہیں۔ آلو کتنے ہیں۔ دھنیا کتنا ہے۔ یہ محاورہ ہے کہ آلو کتنے ہیں بولتے ہیں۔ حالانکہ دونوں اسم جنس ہیں۔
قاعدہ: جس چیز کو ہم گن نہیں سکتے اسے کتنا یا کتنی کہیں گے اور جس چیز کو تول بھی سکتے ہیں اور گن بھی سکتے ہیں، اسے کتنی کہیں گے۔ جیسے پانی کتنا ہے۔ رائی کتنی ہے۔ رائی کا لفظ مونث واحد ہے۔ مگر اس کی جمع نہیں کر سکتے۔ بخلاف روٹی کے اس لیے کہ اس کو گن سکتے ہیں، اس لیے کہیں گے روٹی کتنی ہے اور روٹیاں کتنی ہیں۔ کپڑا کتنا ہے۔ برف کتنی ہے۔ زیرہ کتنا ہے۔ میدا کتنا ہے۔ بعض ایسے جن کو گن سکتے ہیں لیکن گنتے نہیں ہیں، اُن کو دونوں طرح بولتے ہیں۔ جیسے چنا کتنا ہے۔ چاول کتنا ہے۔ بیج کتنا ہے۔ اور یوں بھی بولتے ہیں، چنے کتنے ہیں۔ چاول کتنے ہیں۔ بیج کتنے ہیں۔
کچھ
· اسم مقدار و اسم عدد۔ جیسے کچھ درد ہوتا ہے۔ کچھ پیسے دے دو۔ کچھ کہو تو سہی۔
· دوسری بات جیسے تم کچھ کہتے ہو۔ وہ کچھ کہتے ہیں۔ یعنی تم دوسری بات کہتے ہو۔ وہ دوسری بات کہتے ہو۔ وہ کچھ کہتے ہیں۔ یعنی تم دوسری بات کہتے ہو۔ وہ دوسری بات کہتے ہیں۔
· ذرا کے معنی پر جیسے کچھ دیر میں آنا۔
· کوئی چیز کے معنی پر جیسے کچھ کھا لیا۔
· الٹ پلٹ کرنے کے معنی پر، کچھ کا کچھ کر دیا۔
· تھوڑا کے معنی پر جیسے کچھ کھا لو۔ کچھ پی لو۔
· زہر کے معنی پر جیسے کچھ کھا کے سو رہوں۔
· کوئی کے معنی پر جیسے کچھ عیب نکالو تو تقادی کا دعوی کرنا۔
کیا
حرف استفہام اور اسم مقدار ہے۔
· استفہام: ۱۔ کیا تم گھر جاؤ گے
۲۔ تم کیا سوچتے ہو
· مقدار: رات کو وہ ذرا سی بات پر کیا کیا خفا ہوئے۔ یعنی کتنے خفا ہوئے۔
· کس لیے: غربت میں وطن کی یاد کیا آئے۔
· کیسا: تمہارے آنے سے دل کیا خوش ہوا ہے۔
اور بہت سے پہلو ہیں جیسے کیا مجال، کیا طاقت۔ بعض محل استعمال لوگ خلاف فصاحت کر جاتے ہیں ؏
دل نہ دینے پر ہوئے ناشاد کیا
یہاں کیا سے کیوں زیادہ فصیح ہے۔
کی
اردو میں مضاف الیہ کی تانیث میں بجائے اضافت یہ حرف آتا ہے۔ جیسے الٰہی میری جان کی خیر۔ کس قیامت کی گرمی ہے۔
گل ہو گئی ہے شمع ہمارے مزار کی
اچھی نہیں یہ چھیڑ نسیم بہار کی
دوسرے کرنا کا صیغہ واحد مونث۔ سرکار نے بہت فوج جمع کی۔ تم نے کہیں نوکری نہیں کی۔ میں نے اس سے بات نہیں کی۔ بات کی کی، نہ کی نہ کی۔ اک نہ مانی ہزار منت کی۔
اس کے سوا اور کوئی تیسری طرح اس کا استعمال نہیں ہوتا اور یہ لفظ تمام ہند میں صحیح بولا جاتا ہے۔
کَل
اس کے استعمال کی کئی صورتیں ہیں:
· اسم زمان: گزشتہ اور آئندہ کے محل پر۔ جیسے کل آؤں گا۔ تم کل آنا۔
· اسم نکرہ: ریل کی کچھ کَل بگڑ گئی ہے۔ مشین چھاپے کی کل ٹوٹ گئی۔
· قرار کے معنی پر: کسی کروٹ کل نہیں پڑتی۔
لیے
لینا سے صیغہ جمع ہے۔ جیسے میں نے پانچ آم لیے۔ تم نے دو روپے لیے۔ اور کبھی جر کے معنی دیتا ہے، خدا کے لیے ایسا غضب نہ کرنا۔ روٹی کے لیے مار کھائی۔ ایسے موقع کے لیے بولتے ہیں۔
اور کبھی محض لیے بھی بولتے ہیں جیسے اس لیے پہلے سے سمجھا دیا کہ پیچھے کہنے کو نہ ہو۔ ہم اپنے لیے نہیں کہتے۔ جس لیے تم آئے ہو ہم جانتے ہیں۔
سہی
· سہنا سے صیغہ واحد مونث ہے۔ تم سے ایک بات بھی سہی نہیں جاتی۔
· حرف تنبیہ: ۱۔ ذرا یہاں آؤ تو سہی، کیا ٹھیک بناتا ہوں۔
۲۔ ؏
اپنی آہوں سے زمانے کو ہلا دوں تو سہی۔
تو
· واؤ معروف سے ضمیر صیغہ واحد حاضر۔ جیسے کل تو کیا کرتا تھا جو غیر حاضر رہا۔
· واؤ مجہول سے حرف تاکید۔ ذرا اس ڈھیٹ لڑکے کو تو دیکھو۔
· حرف جزا: تم آؤ تو میں جاؤں۔ کبھی زید آتا ہے۔ یہ تو شدنی تھی۔
· بفتح تا: بمعنی تب۔ اس وقت اسم زمان۔
تو سہی کہ تیرا گھر میں آنا موقوف کرا دوں۔ اگر یہ بات ہو تو تم اس وقت واپس آنا۔
؏ لہو اپنا پیوں میں تو گنا جاؤں چٹوروں میں۔
بلکہ
ترقی کا حرف ہے۔ جب کسی ادنیٰ چیز کو اعلیٰ یا اعلیٰ کو ادنیٰ بناتے ہیں تو بلکہ کا استعمال کرتے ہیں۔ وہ آدمی نہیں بلکہ فرشتہ ہے۔ میں اکیلا نہیں بلکہ تمام قوم اِس خوشی میں شریک ہے۔ صرف دھمکی نہیں بلکہ مارا۔ اس موقع پر لوگ مگر اور لیکن بھی بول جاتے ہیں۔ یہ غیر فصیح ہے۔
مگر
· کبھی جزا کا حرف ہوتا ہے جیسے اگرچہ مُدّعی راضی ہے مگر مُدّعا عَلیہ قبول نہیں کرتا۔ گو ہندوستان میں نیک کام کرنے سے روپیہ کافی مل سکتا ہے مگر قومی کام کرنے والوں کی سخت ضرورت ہے۔
· کبھی اسم صفت بن کر عذر کے معنی پر بولا جاتا ہے۔ بس زیادہ اگر مگر نہ کرو یعنی عذر نہ کرو۔
· کبھی حرف استثنا کے معنی دیتا ہے جیسے سب آئیں مگر وہ نہ آئے۔ اسی جگہ پر اِلّا بھی بولتے ہیں، جیسے سب بولے اِلّا میں خاموش رہا۔ لیکن بھی بولتے ہیں ولیکن بھی بولتے ہیں۔ ولیک قدما بولتے تھے مگر اب متروک ہے۔
پھر
· صفت عدد ہے۔
· دوبارہ، جیسے پھر تو کہو۔ پھر سے شروع کرو۔
· اور پھرنا سے صیغہ امر ہے ؏
ہر پھر کے دائرے ہی میں رکھتا ہوں میں قدم
· کبھی اسم ظرف کے معنی پر بولتے ہیں جیسے یہ سب روپیہ ختم ہو جائے گا تو پھر کیا ہو گا۔ یعنی اس کے بعد کیا ہو گا۔
غرض
کبھی فائدہ کاف بیانیہ کا دیتا ہے:
فرشتہ کبھی ہے کبھی جانور
غرض آدمی طرفہ معجون ہے
یعنی کہ آدمی بھی طرفہ معجون ہے۔
کبھی اسم نکرہ بن کر مقصد کے معنی دیتا ہے۔ جیسے اپنی غرض بیان کرو۔ تمہاری غرض اس بیان سے کیا ہے۔
کبھی حاجت کے معنی پر بولا جاتا ہے۔ جیسے غرض بری بلا ہوتی ہے۔ ہماری اُن سے غرض اٹکی ہے۔
کبھی کام کے معنی پر آتی ہے۔ جیسے ہم کو تم سے کیا غرض یعنی کیا کام۔ بعض موقع پر غرضکہ الغرض بھی بولتے ہیں۔
کہاں
حرف نفی کے معنی دیتا ہے جیسے ؏
دل بیتاب یہ کہتا ہے مجھے تاب کہاں
میرے پاس اس قدر دولت کہاں ہے۔
اور کبھی ظرف مکان کے معنی دیتا ہے جیسے تم کہاں جاتے ہو۔ یعنی کس جگہ جاتے ہو۔
اپنا
ضمیر مضاف ہے، جو ضمیر یا حرف اشارہ لازمی کے ساتھ یا ضمیر فاعلی کے ساتھ آتی ہے۔ ضمیر مضاف مفعولی کے ساتھ بولنا غلط ہے۔ ایسی غلطی اکثر لوگ کر جاتے ہیں۔ اس کی تکرار بھی جائز ہے۔ جیسے:
اپنا اپنا یہ نصیبہ ہے اجارا کیا ہے
خالِ رُخ اس کو، مجھے داغِ جگر ہاتھ لگے
اپنی اپنی گور اپنی اپنی منزل۔ میں اپنے آپ آیا۔ وہ اپنا خون جگر کھاتا ہے۔ تم نے اپنے بھائی کی قدر نہ کی۔
کبھی ضمیر کے بدلے اسم کے ساتھ بھی بولتے ہیں۔ رستم اپنے بھائی کو دشمن سمجھتا ہے۔
؏ سمجھا تھا تری زلف کو یہ مرغ دل اپنا
اپنا خود ضمیر مضاف مفعولی ہے۔ اس لیے اس کو ضمیر مضاف مفعولی کے ساتھ ملا کر بولنا خطا ہے۔ جیسے میرا اپنا بھائی کھو گیا۔ تیرا اپنا مکان کیا ہوا۔ اس کا اپنا روپیہ برباد ہو گیا۔ اس کو اِس طرح بولنا چاہیے۔ میرا بھائی کھو گیا۔ تیرا مکان کیا ہوا۔ اس کا روپیہ برباد ہو گیا۔