یہ میرا خیال ہے کہ زبانِ اردو اپنی ذاتی خوبیوں کے سبب سے روز افزوں ترقی کر کے دنیا کے سب سے بڑے حصے پر حکومت کرے گی اور ضرور علمی زبان بنے گی۔ اس لیے میں چاہتا ہوں کہ ابتدائی حالت میں جبکہ اس کی بنیاد قائم ہوئی ہے، لوگ اس کے مرکز اعلیٰ دہلی و لکھنؤ کی تقلید کریں اور حد سے قدم آگے نہ رکھیں۔ اردو کی ہر دلعزیزی سے ضرورت لاحق ہوئی کہ اسی زبان میں تمام ہند میں اخبار جاری ہوں۔ اس لیے لوگوں نے مجبور ہو کر اپنے اپنے ملک میں بعنوان مختلف اس کا استعمال شروع کر دیا اور مرکز کی زبان سے سرتابی کی۔ ہر شہر میں مخصوص مخصوص محاورے بن گئے اور ایک شہر کی اردو سے دوسرے شہر کی اردو میں اتنا فرق ہونے لگا کہ لوگوں کو اس کا سمجھنا دشوار ہوتا جاتا تھا اور خیال ہوا کہ رفتہ رفتہ یہ زبان انقلاب پذیر ہوتے ہوتے فنا ہو جائے گی۔ اس خدشے کو ہر ایک خیر اندیش زبان نے محسوس کیا۔ چنانچہ بعض حضرات نے اس کے سدّ باب میں ملک کے ثقات شعرا سے تحقیق کر کے غلط محاورات کی تردید شروع کی تو جو لوگ زبان سے اچھی طرح واقف نہ تھے، ان کو برا معلوم ہوا اور کہنے لگے کہ آخر ہم بھی تو ہندوستان کے رہنے والے ہیں اور اردو تمام ہندوستان کی زبان ہے تو ہمارے مقابلے میں دہلی اور لکھنؤ کو کیوں شرف دیا جاتا ہے۔ ہم کہتے ہیں یہی صحیح ہے جو ہم بولتے ہیں۔ دو ایک بڑے شہروں میں یہ ہوا پھیلی ہوئی تھی اور زبان میں کچھ نقائص ہو چلے تھے۔ اور خوف تھا کہ ہوتے ہوتے ہندوستان کے بہت سے شہر اس مرض میں مبتلا ہو جائیں گے۔ اس وقت سِوا اس کے کچھ چارہ نہ ہو گا کہ ہم اردو کو بھی دوسری کمزور اور غیر علمی زبانوں کی طرح مردہ سمجھ کر فاتحہ پڑھیں۔ میری سمجھ میں اس کا سبب یہ معلوم ہوا کہ اس زبان کی ماہیت اور معلومات خصوصیات زبان کی کچھ کتابیں نہیں ہیں جن سے لوگ مدد لے کر صحیح زبان بولنے کی قدرت حاصل کریں۔ اس لیے وہ لوگ معذور و مجبور ہیں کہ غلط زبان ہی بول کر اپنے مطالب پورا کریں۔ میں نے چاہا کہ ملک کی اس شکایت کو دفع کروں۔ زبان کے جو معلومات میرؔ کے وقت سے میرے پاس سینہ بسینہ محفوظ تھے۔ میں نے لکھ کر کتاب کی صورت میں پیش کیا، تو لوگوں نے میری تصنیف کو بہت شوق سے دیکھا اور اردو کے سمجھنے میں انصاف کو دخل دیا اور غلط جملوں کے استعمال سے اجتناب کرنے لگے۔ میں خدا کا شکر کرتا ہوں میری پہلی تصنیف زبان دانی بہت پسند ہوئی۔ اسی طرح اصلاح زبان اردو، قواعد میر، شاعری کی پہلی کتاب، شاعری کی دوسری کتاب، اصول زبان اردو مقبول خاص و عام ہیں۔ ان کی کثیر التعداد اشاعت نے مجھے اطمینان دلا دیا کہ ہندوستان کے لوگ صحیح اور فصیح اردو بولنے کی دلی خواہش رکھتے ہیں بشرطیکہ انہیں ایسی کتابیں ملتی رہیں۔ تو میں نے اپنا ایک رسالہ ’’جان اردو‘‘ جو اہل ملک کی ضرورت کے موافق ہے، لکھ کر شائع کیا۔
خواجہ محمد عبد الرؤوف عشرت لکھنوی