ہوسپٹل کا ماحول اس وقت نم دار سا ہو رہا تھا۔۔۔۔
بینچ پر اکرام صاحب سر جھکاۓ بیٹھے تھے۔۔۔۔
نور بیگم بے ہوش پڑی جاناں کے ساتھ بیڈ پے اسکا ہاتھ تھامے بیٹھی تھیں۔۔۔۔۔
آنسو انکی آنکھوں سے مسلسل رواں دواں تھے ۔۔۔
کھڑکی کے پاس کھڑے جان نے پریشانی سے اپنی پیشانی مسلی۔۔۔
"دیکھیں ہوش میں آ رہی ہے میری بیٹی۔۔۔۔"
نور بیگم کی دبی دبی پر جوش سی آواز کانوں میں پڑتے ہی وہ تیزی سے پلٹا۔۔۔
جہاں جاناں کی پلکوں کی لرزش اور ہاتھ کی حرکت اسکو ہوش میں آتا ظاہر کر رہی تھی۔۔۔۔
جان۔۔۔۔!!
ہوش میں آتے ہی اس کے لبوں سے جو پہلا لفظ ادا ہوا۔۔۔
وہ اس شخص کا تھا ۔۔۔۔
بیٹی وہ رہا جان۔۔۔۔!
اکرام صاحب نے جان کو اپنی طرف آتا دیکھ کر اسکے سر پر ہاتھ رکھتے ہوئے بتایا۔۔۔۔
وہ نم آنکھوں میں ہزاروں شکوے لئے جان کو دیکھنے لگی۔۔۔۔
اکرام صاحب نور بیگم کا ہاتھ پکڑے باہر چلے گئے۔۔۔
پیچھے وہ دونوں اکیلے رہ گئے ۔۔۔
جان بیڈ کے قریب چیئر کھینچ کر اسکے پاس بیٹھ گیا ۔۔۔
جاناں ابھی تک اسے دیکھ رہی تھی۔۔۔
جان نے نرمی سے اسکا ڈرپ والا ہاتھ تھام کر سہلانا شروع کر دیا۔۔۔۔
"کچھ کہو گی نہیں۔۔۔؟"
تھوڑی دیر خاموش رہنے کے بعد آخر اسے ہی بولنے میں پہل کرنی پڑی۔۔۔
"اپنے شوہر کی پیٹھ پیچھے عیاشیاں کرنے والی عورت جب رنگے ہاتھوں پکڑی جائے۔۔۔ تو اسکے پاس کہنے کو کچھ نہیں ہوتا۔۔۔کوئی وضاحت نہیں کوئی صفائی نہیں۔۔۔۔"
اسکی آواز بھیگ گئی۔۔۔
جان نے کرب سے آنکھیں میچ لیں۔۔
"ایسا مت کہو۔۔۔!"
اس نے التجا کی۔۔۔
"تو پھر آپ یہ سب کہیں گے۔۔۔؟؟ٹھیک ہے میں خاموش ہوں۔۔۔۔"
"مجھے معاف کر دو۔۔۔ میں اپنی پلاننگ میں یہ بھول گیا۔۔۔۔ کہ میں اس گیم کو تو جیت جاؤں گا۔۔۔ مگر جس کے لئے میں کھیل رہا ہوں۔۔۔۔ کہیں جیتنے کے نشے میں اسے نا ہار جاؤں۔۔۔"
گیم۔۔۔!؟؟
جاناں حیران ہوئی۔۔۔
ہاں۔۔۔!
جان تھکا تھکا سا مسکرایا۔۔۔
پھر چند لمحے بعد گویا ہوا۔۔۔۔
"جب عامر ہمارے گھر آیا۔۔۔۔ تو اسکی یہی چال تھی۔۔۔ کہ تمھارے ساتھ ایسی کوئی حرکت ہو جائے۔۔۔ جس سے وہ تمھیں میری نظروں میں گرا سکے۔۔۔"
شفیق میرا خاص بندہ ہے۔۔۔جسے میں نے خود عامر کے پاس بھیجا تھا۔۔۔۔ وہ دکھنے میں تو عامر کے ساتھ کام کرتا تھا۔۔۔۔ مگر حقیقت میں عامر کی ایک ایک۔ حرکت کی رپورٹ مجھ تک پہنچاتا تھا۔۔۔۔
میں جانتا تھا۔۔۔ کہ وہ سسر جی کی دولت کے پیچھے پڑا ہے۔۔۔۔ جس کے لئے وہ تمہارا استعمال کر رہا تھا۔۔۔۔
تمھیں مہرہ بنا کر وہ اپنی گیم کھیل رہا تھا۔۔۔۔
میں جانتا تھا۔۔۔۔ ہماری اس طرح شادی ہوجانے اور اسکے پول کھلنے کے بعد وہ چپ نہیں بیٹھے گا۔۔۔۔
تب ہی میں نے یہ ساری گیم کھیلی۔۔۔۔
اور دیکھو آج عامر اپنے انجام کو پہنچ چکا ہے۔۔۔۔"
اتنا کہ کر وہ چپ ہوگیا۔۔۔۔
"میں جس چیز کی وضاحت چاہتی ہوں۔۔۔۔ اسکو تم گول مول کر رہے ہو ۔۔۔۔"
اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔
جان مسکرا دیا۔۔۔۔
"اچھا تم بتاؤ جان جاناں۔۔۔ ہمیں ساتھ رہتے ہوئے ایک ماہ ہونے کو تھا۔۔۔۔
اور کوئی دن ایسا نہیں ہوگا۔۔۔۔ جب میں نے تم سے اظھار محبّت نا کیا ہو۔۔۔۔ مگر تم بدلے میں مجھے کیا دیتی تھی۔۔۔۔؟؟
ایک سمائل تک نہیں۔۔۔؟؟
اب کی بار اس نے شکوہ کیا۔۔۔۔
جاناں کا چہرہ شرمندگی سے جھک گیا۔۔۔۔
جان نے ایک نظر اسے دیکھتے ہوئے سلسلہ کلام جوڑا ۔۔
" میں اس دن واقع ہی بہت غصّے میں تھا۔۔۔۔ مگر وہ غصّہ تم پر نہیں۔۔۔۔ عامر پر تھا۔۔۔۔کیوں کہ شفیق نے مجھے بتایا تھا۔۔۔کہ بی بی کا رویہ کیسا تھا عامر کے ساتھ۔۔۔۔ اور مجھے سن کر اچھا لگا تھا۔۔۔۔
مگر مجھے ایسا بھی لگتا تھا
۔۔۔جیسے تم میرے ساتھ نہیں رہنا چاہتی۔۔۔۔
یہ ایک موقع تھا۔۔۔۔ میں جاننا چاہتا تھا کہ تم میرے ساتھ رہنا چاہتی ہو کہ نہیں۔۔۔
میں نے تمھیں آزمایا۔۔۔
مگر یقین کرو۔۔۔تمہارا ریکشن دیکھ کر مجھے لگا۔۔
کہ تم محبّت میں مجھ سے بازی لے گئی۔۔۔
مگر مجھے اپنے پلین کو پایہ تکمیل تک پہنچانا تھا۔۔۔۔
اسلئے تمھیں تمھارے گھر بھیج دیا۔۔۔"
وہ خاموش ہوگیا۔۔۔
جاناں لب بھینچے اسے دیکھتی رہی ۔۔۔۔
مطلب یہ سب اسکا پلین تھا۔۔۔۔ اسکی جیتے جی مارنا۔۔۔ حد ہوگئی تھی۔۔۔۔
بہت ہی وہ ہو تم۔۔۔۔!
وہ غصّے سے بولی۔۔۔
وہ کیا۔۔۔۔؟؟
جان ہنستا چلا گیا۔۔۔
جاناں نے مکا اسے مارنا چاہا۔۔۔
کہ درد سے اسکی چیخ نکل گئی۔۔۔۔
وہ ڈرپ والے ہاتھ کو آگے کھینچ کر لے گئی تھی۔۔۔
او۔۔۔ رونا نہیں۔۔۔رونا نہیں پلیز۔۔۔۔
اسکا ہاتھ سہلا کر جان اسے بچوں کے انداز میں بہلانے لگا ۔۔۔
جاناں نے ایک نظر اسے دیکھا۔۔۔۔
پھر وہ دونوں کھلکھلا کر ہنس پڑے تھے۔۔۔۔
______________________________
مجھے وہ سائیکل لینی ہے۔۔۔۔
مجھے نہیں پتا۔۔۔۔
مجھے وہ سائیکل چاہئے۔۔۔۔
سات سالہ بچہ زمین پر ٹانگیں مارتا مسلسل روۓ جا رہا تھا۔۔۔
بیٹا ۔۔۔ اگلی باری پکّا۔۔۔
ابھی گھر چلو پیسے نہیں ہیں۔۔۔۔
اسکو مسلسل پیار سے مناتے ہوئے اس نرم سے شخص کو دیکھتے ہوئے سارے لوگ رشک سے اس بچے کو دیکھ رہے تھے۔۔۔
کہ اسے کس قدر پیار کرنے والا باپ ملا تھا۔۔۔۔
جو بجاۓ جھڑکنے کے اسے پیار سے منا رہا تھا۔۔۔
بابا آپ ایسا کریں۔۔۔۔میری ڈول اور باقی ٹوائز واپس کر کہ عامر کو سائیکل لے دیں۔۔۔۔
عامر کے ہاتھ میں ڈھیروں ٹوائز کو ایک نظر دیکھتی ہوئ باپ کے ساتھ چپکی وہ بچی ضبط سے بولی تھی۔۔۔
ایک جھٹکے سے اس نے آنکھیں کھولیں۔۔۔
وہ اس وقت نا شاپنگ مال میں تھا۔۔۔۔
اور نا ہی اسکے ساتھ وہ شفیق سے ماموں تھے۔۔۔ اور نا ہی انکی بیٹی۔۔۔۔
وہ تو جیل کی سلاخوں کے پیچھے قید تھا۔۔۔
بے اختیار وہ پھوٹ پھوٹ کر رو پڑا۔۔۔
بے بسی کا احساس بڑھ گیا۔۔۔۔
یہ انسان کی فطرت ہے۔۔۔ جب وہ اکیلا اور بے بس ہوتا ہے۔۔۔
تو اسے اپنے چاہنے والے یاد آتے ہیں۔۔۔
عامر کا حال بھی کچھ یوں ہی ہوا۔۔۔۔
سر تھامے وہ بچوں کی طرح روتا چلا گیا۔۔۔۔
دولت کو پانے کے چکر میں وہ عزت سے بھی ہاتھ دھو بیٹھا تھا۔۔۔۔
بالوں کو نوچتے ہوئے وہ چیخ چیخ کر رونے لگا۔۔۔۔
مگر اب سننے والا کوئی نہیں تھا۔۔۔۔
سواۓ اس رب کی ذات کے۔۔۔
جو اسے اپنے خزانے سے ہدایت کی دولت عطا کرتا۔۔۔
ہاں وہ اسے عطا کر چکا تھا۔۔۔۔
______________________________
کمرے میں داخل ہوتے ہی تازے گلاب کے پھولوں کی بھینی سی مہک اسکے نتھنوں سے ٹکرائ۔۔۔
بیڈ کے آس پاس اصلی گلاب کی لڑیاں لٹک رہی تھیں۔۔۔۔
اوپر سے آتی لڑیوں نے مل کر بیڈ کے اوپر ایک چھتری سی بنا دی تھی ۔۔۔۔
ڈریسنگ اور سائیڈ ٹیبلز پر سرخ اور سفید گلاب کی پتیاں بکھری ہوئی تھیں۔۔۔۔
جنکے بیچ جلتی کینڈلز کمرے کی خوبصورتی میں اضافہ کر رہی تھیں۔۔۔
اور جو جان کے لئے کمرے کی خوبصورتی کی اصل وجہ تھی۔۔۔۔
وہ بیڈ کے بیچوں بیچ بیٹھی گھونگھٹ نکالے جان کے دل کے تار چھیڑ گئ۔۔۔۔
آج فنکشن میں بھی وہ اسے ٹھیک سے دیکھ نہیں پایا تھا۔۔۔۔
اور آج کتنے دنوں بعد وہ اسکی دسترس میں آئ تھی۔۔۔
مسکراتے ہوئے وہ بیڈ کی طرف بڑھا۔۔۔۔
اور جگہ بنا کر جاناں کے پاس بیٹھا۔۔۔۔
"آج کا دن میرے لئے بہت خاص ہے۔۔۔۔ جب تم اپنی مرضی سے اپنی خوشی سے میرے کمرے میں میری بن کر آئ ہو۔۔۔۔"
اسکی بھاری آواز گونجی۔۔۔
گھوگھنٹ میں چھپا وجود سمٹ کر رہ گیا۔۔۔
جان نے محبّت سے اسکا گھونگھٹ اٹھایا۔۔۔۔
کہ اگلے ہی لمحے وہ کرنٹ کھا کر پیچھے ہوا۔۔۔
اتنا بڑا جھٹکا لگنے سے اسکا رنگ فق پڑ گیا تھا
بانو (کام والی) نے تیزی سے بھاری دوپٹا پیچھے کیا۔۔۔
"صاحب جی۔۔۔ معاف کیجئے گا۔۔۔ بی بی جی نے ایسا کرنے کو کہا تھا۔۔۔۔ میں چلی۔۔۔۔"
بانو یہ کہ نو دو گیارہ ہوگئی۔۔۔۔
موتیوں اور چوڑیوں کی چھن چھن کے ساتھ کھنک دار ہنسی اسکے کانوں میں پڑی۔۔۔
ناراضگی سے وہ اس طرف مڑا۔۔۔
مگر ڈریسنگ سے نکلتی جاناں کو دیکھ کر اسے اپنی ناراضگی اڑن چھو ہوتی محسوس ہوئی۔۔۔۔
وہ اپنا ولیمے والا ڈریس غالبا چینج کر چکی تھی۔۔۔۔
پیروں تک آتا پٹھانوں کے سٹائل میں گول گھیرے والا سیاہ فراک جسکے گھیرے اور بازوؤں پر سفید موتیوں سے کام کیا گیا تھا۔۔۔۔
کلائیوں میں بھر بھر سیاہ چوڑیاں پہنے وہ ہنستی ہوئی جان کے پاس آئ ۔۔
اور کلائیاں ہلاتی اسکے گرد چکر لگانے لگی۔۔۔
وہ ٹکٹکی باندھ کر اسے دیکھے گیا۔۔۔
جھٹکا لگا۔۔؟؟
اسکی کھنک دار ہنسی گونجی۔۔۔
جان نے اسے کلائ سے کھینچ کر اپنی گرفت میں لے لیا۔۔۔۔
"بہت تیز ہوگئی ہو۔۔۔۔"
اسکے کانوں میں اس نے دھیمے سے سرگوشی کی۔۔۔۔
"آخر ایک پلیئر کی جو بیوی ہوں۔۔۔۔"
وہ چہکی۔۔۔
مطلب پلیئر کی بیوی بننے کو تیار ہیں آپ۔۔۔؟
اسکے کانوں میں فسوں پھونکتا وہ اسکی دھڑکنیں روک گیا۔۔۔
جاناں نے خاموشی سے اقرار کرتے ہوۓ اسکے سینے پر سر ٹکا دیا۔۔۔۔
جان نے محبت سے اسے اپنی مظبوط پناہوں میں لے لیا ۔۔۔
دور کہیں چاند مسکرا کر بادلوں کی اوٹ میں چھپ گیا تھا۔۔۔۔
تجھ سے لفظوں کا نہیں روح کا رشتہ ہے میرا۔۔۔
تو میری سانسوں میں تحلیل ہے خوشبو کی طرح۔۔۔!
جان جاناں۔۔۔۔!
جان جاناں۔۔۔۔!
ختم شد۔۔۔!