مسعود حسین خاں
ہر زبان کا ایک صوتی نظام ہوتا ہے جس کے ارتقا کی نشان دہی تاریخی لسانیات کے ذریعہ کی جاتی ہے۔ اردو صحیح معنوں میں ایک ریختہ اور مخلوط زبان ہے۔ اس کی قواعد کی ہر سطح پر لسانی اختلاط کے آثار پائے جاتے ہیں۔ عربی فارسی کے اثرات صوتیات سے ہوتے ہوئے تشکیلی صوتیات، صرف و نحو بلکہ معنیات تک نفوذ کر گئے ہیں۔ آج ہم اردو زبان کا صحیح تصور اس وقت تک قائم نہیں کر سکتے جب تک کہ کوئی شخص ز/خ/ ف/ غ/ وغیرہ کو صحیح مخرج سے ادا کرنے پر قدرت نہیں رکھتا۔ /ق/ کے بارے میں جبیں پر شِکنیں پڑ جائیں گی لیکن یہ بھی اسی صف میں آتا ہے۔ اردو رسمِ خط عربی رسمِ خط کی توسیع شدہ شکل ہے جس کا اطلاق پہلے ایرانی پر ہوا اور بعد کو ہندوستانی زبان پر۔ بدیسی لباس میں جلوہ گر ہونے کی وجہ سے اردو کے آریائی خدوخال کسی قدر روپوش ہو جاتے ہیں اور صوتیات کے طالبِ علم کو حرف پر صوت کا دھوکا ہوتا ہے۔ صوتیات کی تدریس کے سِلسلے میں یہ میرا ذاتی تجربہ ہے کہ اردو کے طالب علم کے ذہن میں حرف و صوت کا باہمی تعلق بہت دیر میں واضح ہوتا ہے۔ حرف ذہن پر اس قدر مُسلّط رہتا ہے کہ وہ اردو کی بُنیادی آوازوں کو دیر میں پہچان پاتا ہے۔ وہ ’’گھر‘‘ ،’’بھر‘‘، ’’جھڑ‘‘ وغیرہ الفاظ میں /گھ/ کوگ اور ھ، /بھ/ کو ب اور ھ، اور /جھ/ کو ج اور ھ سے مرکب آوازیں سمجھتا ہے، حالاں کہ صوتی نقطۂ نظر سے یہ مفرد آوازیں ہیں نہ کہ مرکب۔ ہمارے مکتبوں میں اردو کے استاد بچّے کو ہمیشہ گ ھ ر (زبر) گھر اور ب ھ ر (زبر) بھر پڑھاتے آئے ہیں اور پڑھا رہے ہیں۔ بعض اوقات ہائے ہوز اور دو چشمی (ھ) کا امتیاز تک قائم نہیں رکھا جاتا۔ فرق صرف ایسے مقامات پر کیا جاتا ہے جہاں خلطِ مبحث کا ڈر ہو، مثلاً دَھر اور دَہر۔
صوتیاتی نقطۂ نظر سے ہر زبان کی آوازوں کو دو خاص شقوں میں تقسیم کیا جاسکتا ہے:
۱۔ مصوتے(Vowels)
۲۔ مصمتے(Consonants)
یہاں ہم عمداً اردو قواعد کی عام اِصطلاحات حروفِ علت اور حروفِ صحیح استعمال نہیں کر رہے ہیں۔ جیسا کہ میں پہلے کہہ چکا ہوں ، ہمارے فلسفۂ قواعد کے تمام پہلوؤں پر ’’حرف‘‘ کا تصوّر چھایا ہوا ہے جب کہ بُنیادی طور پر زبان تقریر ہے ،نہ کہ تحریر۔
اردو کے مصوتے(Urdu Vowels)
اردو کے تمام مصوتے ہند آریائی ہیں اور تعداد و نوعیت کے اعتبار سے فارسی اور عربی کے مصوتوں سے کافی مختلف۔ ان کے اظہار کے لیے جب عربی فارسی رسمِ خط کو استعمال کیا گیا تھا تو کئی دِقّتوں کا سامنا ہوا۔ ان سے ہمارے معلّمین اور کاتب مختلف زمانوں میں مختلف انداز میں عہدہ برآ ہوئے ہیں۔ تا حال ان کی مقررہ علامات میں اتفاقِ رائے نہیں ہو سکاہے۔
ہند آریائی لِسانی روایت کے مطابق اردو کے مصوتے دیوناگری رسمِ خط میں حسبِ ذیل ہیں:
آٹھ خالِص مصوتے(Pure Vowels) :
دو دوہرے مصوتے(Diphthongs):
دیوناگری میں ان کی ماترائی شکلیں حسبِ ذیل ہوتی ہیں:
حرف کی ماترا مفقود ہے، اِس لیے کہ دیوناگری کے تمام مصمتوں(Consonants) میں یہ مُضمر تصور کیا جاتا ہے۔ سنسکرت میں جب کسی مصمتے کو بغیر کے یعنی ساکن دکھانا مقصود ہوتا ہے تو)\( کی شکل میں ’’ہل‘‘ کر دیتے ہیں۔ کے اس مضمر تصوّر سے آج ہندی پڑھنے میں نو مشقوں کو ایک سخت دِقت کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ہندی زبان اب لسانی ارتقا کی اس منزل میں پہنچ چکی ہے جہاں ارکانِ تہجّی(Syllables) کے خاتمے پر مصمتے ساکن ہو جاتے ہیں۔ لیکن اِس تصوّر کی وجہ سے دیہاتی مکاتِب میں ابھی تک یُوں پڑھایا جا رہا ہے: بجائے چَلْتی یعنی متحرک بجائے ساکن کے۔ اِس اعتبار سے اردو کا جزم ( ْ ) زیادہ صحیح تلفّظ کی جانب رہبری کرتا ہے۔
عربی فارسی رسمِ خط میں مصوتوں کی مذکورہ بالا اقدار تین مکمل شکلوں (یعنی ا،و، ی) اور تین اعراب (زیر، زبر، پیش) کے علایم میں اظہار کی جاتی ہیں۔ باقی ماندہ انھیں سے مرکب شکلوں میں ظاہر کی جاسکتی ہیں۔ اگر دیوناگری کی ترتیب ملحُوظ رکھتے ہوئے ہم اپنے مصوتوں کو اردو رسمِ خط میں پیش کرنا چاہیں تو یہ شکلیں بنتی ہیں:
َ ا ، ِ ی ، ُ وٗ ، ے و ، ے۸ و۸ ۔
مثالیں:
مَل مال، مِل میٖل، مُل موٗل، میل مول، میل۸ مو۸ ل ۔
دیوناگری رسمِ خط اور سنسکرت صوتیات لِسانی نقطۂ نظر سے اہم ہونے کے باوجود بعض لسانی مغالطوں کا شکار ہے، مثلاً اور کے اظہار میں کو کی طویل شکل تسلیم کیا جاتا ہے۔ لیکن جَدید صوتیاتی تجزیے سے یہ بات پایۂ ثبوت کو پہنچ گئی ہے کہ ان مصوتوں میں صرف لمبائی کا اختلاف نہیں بلکہ مخارج کا بھی ہے۔ چنانچہ بین الاقوامی صوتیاتی رسمِ خط میں (جو رومن پر مبنی ہے) ان مخارج کے اختلافات کو پیشِ نظر رکھ کر ہر مصوتے کے لیے علاحدہ علامت مقرر کی گئی ہے:
مصوتوں کے چوکھٹے میں جو انسانی مُنہ کی علم الاشکال کی روشنی میں شکل پیش کرتا ہے، ان مصوتوں کو حسبِ ذیل انداز میں پیش کیاجاسکتا ہے:
اردو کے مصمتے(Urdu Consonants):
اردو مصمتوں کی تاریخ نہایت دِل چسپ ہے جب کہ مصوتے خالِص آریائی ہیں۔ مصمتوں میں ہندی، فارسی اور عربی آوازوں کی آمیزش پائی جاتی ہے۔ ان آوازوں کو حسبِ ذیل مرکبات میں پیش کیاجاسکتا ہے:
۱۔ خالِص ہندی آوازیں : بھ۔ پھ۔ تھ۔ ٹھ۔ جھ۔ چھ۔ کھ۔ گھ۔ دھ۔ ڈھ۔ ڑھ۔ ٹ۔ ڈ۔ ڑ۔
۲۔ خالِص فارسی: ژ۔
۳۔ خالِص عربی: ق۔
۴۔ ہندی فارسی مشترک: ب۔ پ۔ ت۔ ج۔ چ۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ گ۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔
۵۔ ہندی عربی مشترک: ب۔ ت۔ ج۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔
۶۔ فارسی عربی مشترک: ب۔ ت۔ ج۔ خ۔ د۔ ر۔ ز۔ س۔ ش۔ غ۔ ف۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔
۷۔ ہندی فارسی عربی مشترک: ب۔ ت۔ ج۔ د۔ ر۔ س۔ ش۔ ک۔ ل۔ م۔ ن۔ و۔ ہ۔ ی۔
لیکن اردو رسمِ خط میں اس سے زیادہ حروف پائے جاتے ہیں ، مثلاً: ذ۔ ض۔ ظ۔ ط۔ ث۔ ص، وغیرہ۔
یہ تمام حرف ہیں صَوت نہیں۔ اردو رسمِ خط کے لیے ایک طرح سے وبالِ جان بنے ہوئے ہیں۔ عربی، فارسی لِسانی روایت کی دھاک ابھی تک اسی طرح قائم ہے کہ اصلاح کی تمام کوشِشوں کے باوجود ان سے چُھٹکارا نہیں مِل سکاہے۔ صوتیاتی نقطۂ نظر سے اردو کی اصوات کو حسبِ ذیل طور پر مرتب کیا جاسکتا ہے:
اردو کے مصمتے
دولبی
دندانی
معکوسی
حنکی
غشائی
لہاتی
(کوے کی)
غیر مسموع
پ
ت
ٹ
چ
ک
ق
بندشی (اسپھوٹ)
ہاکاری
پھ
تھ
ٹھ
چھ
کھ
مسموع
ب
د
ڈ
ج
گ
ہاکاری
بھ
دھ
ڈھ
جھ
گھ
انفی (ناک کی)
مسموع
م
ن
چستانی (رگڑالو)
غیر مسموع
ف
س
ش
خ
ہ
یا صفیری
مسموع
و
ز
(ژ)
غ
تالیکا
مسموع
ر
پہلوئی
مسموع
ل
تھپک دار
مسموع
ڑ
مسموع (ہاکار)
ڑھ
نیم مصوتہ
ی
اس طرح اردو کے کُل مصمتے ۳۷ ہوتے ہیں (مقابلہ کیجئے تعدادِ حروف سے)۔ ان میں سے (ژ) سے مرکب الفاظ اس قدر کم ہیں کہ اس کا اخراج کیاجاسکتا ہے۔ صرف چند لفظ ہیں اژدحام، اژدہا، جن کی دوسری شکل ازدحام، ازدہا بھی رائج ہے۔
(لیکن مژہ اور مژگاں کا کیا کیجئے گا؟ اور خاص طور پر غالبؔ کی ’’مژ ہ ہائے دراز‘‘ کا۔ صرف ایک لفظ کی خاطر اسے آپ اردو صوتیات میں رکھنا چاہیں تو مجھے کوئی اعتراض نہیں )۔
یہاں میں اردو رسمِ خط کی کم مایگی کی جانب اشارہ کر دینا ضروری سمجھتا ہوں ، یعنی ہاکار (ہائے مخلوط والی) آوازوں کی جانب۔ یہ آوازیں اپنی وسعت اور تقسیم کے باعث اردو کے نظامِ صوت کی مفرد آوازیں ہیں۔ ہندی رسمِ خط میں ان کے لیے علاحدہ حروف بھی قائم کیے گئے ہیں لیکن اردو حروفِ تہجی میں یہ مرکب آوازیں تصوّر کی گئی ہیں اور اِسی بنا پر اردو تدریس کا یہ انداز ہنوز جاری ہے کہ گ ھ ر زبر گھر، ب ھ زبر بھر جو صوتی نقطۂ نظر سے مہمل ہے کہ مبنی ہے حرف کے تصوّر پر_
مصمتوں کے سِلسلے میں اُن زائد حروف کا ذکر بھی ضروری ہے جو عربی سے لیے گئے ہیں اور جو ہمارے حروفِ تہجّی اور نظامِ درس کے لیے پیرِ تسمہ پا بنے ہوئے ہیں۔ میری مُراد__
ذ۔ ض۔ ظ۔ ط۔ ث۔ ص۔ ح، وغیرہ سے ہے۔
صوتی نقطۂ نظر سے یہ سب مُردہ لاشیں ہیں ، جسے اردو رسمِ خط اٹھائے ہوئے ہے، صرف اِس لیے کہ ہمارا لِسانی رشتہ عربی سے ثابت رہے۔
/ع/ کی شکل ذرا مختلف ہے۔ ہر چند یہ قریب المخرج مصوتے میں ضم ہو جاتا ہے، لیکن بعض جگہ ایک صوتی کھٹک بن کر اپنے اثرات ہمارے لہجے میں چھوڑ جاتا ہے۔ عام طور پر معلوم کو مالوم ، عرب کو اَرب اور مَنع کو مَناہی بولا جاتا ہے( قطع نظر چند عربی دانوں کے)، لیکن اِس قسم کے مقامات پردوسری صوت پائی جاتی ہے، مثلاً شعرا، (مسیحِ) موعود، جہاں / ع/ ایک مخصوص اعراب کی شکل میں قائم رہتا ہے۔
عربی فارسی کے جو مصمتے اُردو صوتیاتی نظام کا جزو بن گئے ہیں ، حسبِ ذیل ہیں:
ف۔ ز۔ خ۔ غ۔ ق۔
/ق/ کو چھوڑ کر یہ بیشتر رگڑ دار آوازوں کی صَف میں آتے ہیں۔ ان کا اثر اُردو شاعری کے صَوتی آہنگ پر کافی پڑا ہے۔ اور جو لوگ آہنگِ شعر کے اُصولوں کا مطالعہ کرتے ہیں اُن کے لیے یہ ایک علاحدہ دلچسپ مسٔلہ ہے۔
اردو کی انفی آوازیں اور ان کی خصوصیات
انفیت(Nasalization) کے عمل کا اردو صوتیات میں حسبِ ذیل انداز میں مطالعہ کیاجاسکتا ہے:
۱۔ انفی مصوتے (Nasalized Vowels)
۲۔ انفی مصمتے (Nasal Consonants)
۳۔ انفیاتی ہم آہنگی (Homorganic Nasalization)
۱۔ اردو کے تمام مصوتے(Vowels) انفیائے جاسکتے ہیں ،گو لفظ کے اندر ہر مقام پر یہ ممکن نہیں ، مثلاً:
ڈاٹ : ڈانٹ
باٹ : بانٹ
مَے : مَیں
گئی : گئیں
تھی : تھیں
ضمنی اور غیر اہم انفیت (Nasalization) کی مثالیں عام طور پر پائی جاتی ہیں ، مثلاً ایسے الفاظ جِن میں /م/ یا/ ن/ کے پاس واقع مصوتے انفی رنگ اختیار کر لیتے ہیں۔ اُردو کے بعض علاقوں بالخصوص دہلی اور اس کے اطراف میں اس کی مثالیں کثرت سے مِل جاتی ہیں جس کااثر ہمیں قدیم دکنی پر بھی نظر آتا ہے، مثلاً:
دہیں ، کونچے کونچے، آنگے (قدیم)۔
یا آنٹا، چانول، گھانس، جاناں (جدید)۔
یہ غیر ضروری انفیانا اُردو میں ناشستہ تلفّظ کی علامت سمجھی جاتی ہے۔ اس لیے کہ اُردو میں جیسا کہ اُوپر مذکُور ہو چکا ہے،Nasalizationمعنی کی تبدیلی اور افعال کی تعداد وجنس کی وضاحت کے لیے بہت زیادہ اہمیت رکھتا ہے۔
۲۔ جہاں تک کہ انفی مصمتوں کا تعلق ہے، اُردو میں صرف دو مصمتے ہیں:
/م/ اور /ن/ ۔
(ن ط) کی آواز اُردو نے اپنے ارتقا کے کسی دَور میں نہیں اپنائی۔ ہندی بولیوں میں بھی یہ عام طور پر /ن/ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ جَدید ہندی میں بہت سے سنسکرت الفاظ کےClusters کی طرح اس کا بھی تعلیم کے ذریعہ احیاء ہو رہا ہے۔
۳۔ /ن/ کی آواز جب کسی دوسرے مصمتے سے قبل واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ (Homorganic) ہو جاتی ہے ، مثلاً:
ن/ ب : انبہ
ن / ت / د : سنت، اندازہ
ن / ڈ/ ٹ : انڈا، انٹ
ن/ ج/چ : رنج، اِنچ
ن/ گ/ : رنگ، دنگ
لیکن جب یہ آواز عربی صوت / ق/ کے ساتھ واقع ہوتی ہے تو ہم آہنگ نہیں ہوتی، مثلاً:انقلاب، انقباض،انقسام ،وغیرہ۔
/ک/ کی آواز کے ساتھ میں حسبِ ذیل مُستثنیات مل جائیں گی:
انکار ، انکسار، انکشاف۔
/ن/ کا غیر آہنگ ہونا اس بات کی بھی دلیل ہوتا ہے کہ الفاظ مفرد نہیں بلکہ مرکب ہیں ، مثلاً: اَن مول،اَن میل، اَن پڑھ، اَن بَن، آن کے ، آن بان، وغیرہ۔ لیکن اردو صوتیات کے عام رُجحان کے تحت بعض مرکب الفاظ تک میں /ن/ ہم آہنگ ہو جاتا ہے، مثلاً کنٹوپ (کن +ٹوپ)،اَن دَاتا (اَن + داتا)، وغیرہ۔
اردو کی کوزی آوازیں
اردو میں کوزی یا معکوسی(Retroflex) آوازیں خالِص ہندوستانی بلکہ آریائی بھی نہیں ، بیشتر درادیدی لِسانی روایت کی دین ہیں۔ شاید اسی لیے یہ شمالی ہند کی آریائی زبانوں میں اس قدر نُمایاں نہیں جتنی کہ دراویدی زبانوں میں پائی جاتی ہیں۔ ہندی کے برعکس سنسکرت کی بعض معکوسی آوازوں کو اُردو نے اپنے ارتقا کے کسی دور میں قبول نہیں کیا، مثلاً:
( ش ط )
جو ہمیشہ اردو میں چھ یا کھ ، ن ، اور ش ہو جاتے ہیں۔
اردو کی معکوسی آوازیں حسبِ ذیل ہیں:
/ٹ/، /ڈ/ٗ/ڑ/ اور /ٹھ/ٗ/ ڈھ/ ،/ڑھ/ ۔
ان میں /ڈ/ڈھ/ڑ/ڑھ/ کی تقسیم اردو کے نظامِ صوت میں تکمیلی انداز میں پائی جاتی ہے جسے ایک جدول کے ذریعہ پیش کیاجاسکتا ہے۔ (دیکھئے نوٹ):
لفظوں کے ابتدا میں لفظوں کے درمیان میں لفظ کے آخر میں
ڈ P O O
ڈھ P O O
ڈّ (مشدّد)O P O
نڈ (انفی)O P P
ڑ O P P
ڑّ (مشدّد)O O O
ڑھ O P P
نڑ (انفی)O O P
تجزیاتی مشاہدات
۱۔ /ڈ/کی آواز صرف لفظوں کے شروع میں آتی ہے، مثلاً ڈر، ڈال، ڈول، وغیرہ۔ آخر میں یہ ہمیشہ نونِ غُنہ کے ساتھ آتی ہے۔ انگریزی کے مستعار لفظ مُستثنیات میں سے ہیں ، مثلاً روڈ، بورڈ، کارڈ۔ (۱)
۲۔ اردو کا کوئی لفظ /ڑ/ یا/ ڑھ/ سے شروع نہیں ہوتا۔
۳۔ /ڈھ/ کی آواز صرف الفاظ کی ابتدا میں پائی جاتی ہے۔ وسطی طور پر یہ مشدّد ہوتی ہے ، /ڈ/ کے ساتھ (مثلاً بڈّھا)۔ لفظ کے اختتام پر یہ /ڑھ/ کی شکل اختیار کر لیتی ہے، مثلاً علی گڈھ پر علی گڑھ فصیح ہے۔
/ڈھ/ اور / ڑھ/ کا باہمی ربط ذیل کی مثالوں سے بھی واضح کیاجاسکتا ہے:
بڈّھا یا بوڑھا
گڈّھا یا گڑھا
ٹھڈّی یا ٹھوڑی
/ر /اور/ڑ/ کا تعلق (فصاحت کے نطقۂ نظر سے):
پوری : پوڑی
کچوری : کچوڑی
کرور : کڑوڑ
ساری : ساڑی (ساڑھی)
پھلواری : پھلواڑی
اردو کے ہاکاری (نفسی) مصمتے(Urdu Aspirates)
/ہ/ کی چستانی یا صفیری(Fricative)آواز سے قطع نظر جو اردو زبان کا ایک حلقی صوتیہ ہے، دیگر ہند آریائی زبانوں کی طرح ہاکاری آوازیں اردو کی خصوصیت ہیں۔ ان کی کل تعداد گیارہ ہے۔ جن میں سے دس بندشی آوازیں ہیں اور ایک تھپک دار۔ تفصیل حسبِ ذیل ہے:
بندشی غیر مسموع : پھ تھ ٹھ چھ کھ
بندشی مسموع : بھ دھ ڈھ جھ گھ
تھپک دار مسموع : ڑھ
جیسا کہ پہلے لکھا جا چکا ہے، یہ آوازیں اردو کے صوتی نظام میں صوتیہ(Phoneme) کا حکم رکھتی ہیں اور دیوناگری لپی میں ان کے لیے مُستقل اور علاحدہ حروف بھی ہیں۔ لیکن اردو میں ہائے مخلوط کے استعمال کی وجہ سے انھیں متوازی غیر ہاکاری آوازوں کے تابع سمجھا گیا ہے اور اس لیے اردو حروفِ تہجی میں ان کی علاحدہ شکلوں کا تعین نہیں کیا گیا ہے۔ مذکورہ بالا ہاکاری صوتیوں کی فہرست میں /لھ/، / مھ/ ، / نھ/، /رھ/ اور /وھ/ کا اضافہ کیاجاسکتا ہے۔ لیکن یہ بہت کم الفاظ میں آتے ہیں۔ اس لیے ان کا علاحدہ ذکر عام طور پر نہیں کیا جاسکتا۔ ان سے مرکب الفاظ کی مثالیں یہ ہیں:
کولھو، تمھارا، ننّھا، وھاں۔
ان ہاکاری آوازوں اور بُنیادی ہاکاری صوتیوں کا خاص فرق یہ ہے کہ جب کہ پٹ اور پھٹ، تک اور تھک، ٹاٹ اور ٹھاٹ، چل اور چھل، کل اور کھل، گن اور گھن اور ڈال اور ڈھال میں /پ/اور /پھ/،/ ت/ اور / تھ/،/ٹ/ اور/ ٹھ/،/ک/ اور /کھ/،/ گ/ اور /گھ/ اور /ڈ/ اور / ڈھ/ ممیز(Distinctive) آوازیں ہیں ، /نھ/، /لھ/،/ مھ/ وغیرہ ممیز نہیں ہیں۔
مصوتوں اور مصمتوں میں کمیت(Quantity)
ہندوستان کے قواعد نویسوں میں یہاں کی زبانوں کے مصوتوں کی کمیت کے بارے میں خاصی غلط فہمی رہی ہے۔ ناگری لپی کی تشکیل میں یقیناً یہ مغالطۂ صوتیاتی پوشیدہ ہے کہ مصوتوں کی قسمیں دو ہیں : (۱) لمبے، (۲) مختصر۔ اور یہ دونوں آپس میں بدل بھی جاتے ہیں۔ اردو رسمِ خط چونکہ عربی مصوتوں کا ترجمان ہے، اس لیے ہند آریائی صوتیاتی اقدار کی ادائگی میں اور زیادہ پیچیدگیاں پیدا ہو گئی ہیں ، مثلاً چھوٹے مصوتے (زبر، زبر، پیش) چونکہ لکھے نہیں جاتے اس لیے اردو رسمِ خط میں الفاظ کا تلفظ مسلسل بدلتا رہا ہے۔ صوتیاتی نقطۂ نظر سے اردو کے مصوتوں کی کمیت اس قدر اہم نہیں جس قدر کہ ان کی کیفیت۔
اردو میں دس مصوتے بنیادی ہیں۔ اس لیے َ ، کو آ، کی چھوٹی شکل سمجھنا بنیادی غلطی ہے۔ جب کہ ( َ ، ) ایک درمیانی وسطی مصوتہ ہے ،(آ) ایک زیر یں عقبی مصوتہ ہے۔ یہ دونوں ایک دوسرے کی چھوٹی بڑی شکلیں نہیں۔ یہ ضرور ہے کہ ( َ ) کا طول (آ a) سے یقیناً کم ہے لیکن یہ طول کسی طرح ممیز نہیں۔ ’’آسمان‘‘ کو عوامی تلفظ میں ’’اَسمان‘‘ کہا جائے تب بھی کسی قسم کی معنیاتی تبدیلی وقوع پذیر نہیں ہوتی۔
۱۔ سنسکرت کے برعکس اردو کا کوئی لفظ ( َ ، ِ ، ُ ) یعنی چھوٹے مصوتوں پر ختم نہیں ہوتا۔
۲۔ طویل مصوتے /آ/، /ی /، /وٗ/ جب دوسے زیادہ رُکنِ تہجی(Syllable) رکھنے والے الفاظ میں آتے ہیں تو قدرے چھوٹے اَدا کیے جاتے ہیں۔ لیکن ان کی کمیت میں اختصار کے باوجود ان کی کیفیت(Quality) / َ /،/ ِ /،/ ُ / سے ممیز ہوتی ہے۔ لیکن جب یہی مصوتے ایک رُکنِ تہیجی والے الفاظ میں (مثلاً آ، جا، کھا) میں آتے ہیں تو یہ معمول سے زیادہ طویل اَدا کیے جاتے ہیں۔
۳۔ اردو مصوتوں کی لمبائی پر اس وقت بھی اثر پڑتا ہے جب کہ کسی مصوتے کے بعد آنے والا مصمتہ مسموع یا غیر مسموع ہوتا ہے۔ یہ مسموع کے پاس طویل تر ہو جاتا ہے اور غیر مسموع کے پاس مختصر ، مثلاً:
آ :ب(۱) /آپ/
آ : دھ /آٹھ/
ا : یڑھ /ایک/
۴۔ طویل مصوتے انفی مصمتے سے پہلے آئیں تو قدرے مختصر اَدا کیے جاتے ہیں۔ مقابلہ کیجئے:
دان کا دا : ل سے
چین (چی ن) کا چیل (چی :ل) سے
سیم (سے م) کا سیر (سے: ر) سے
۵۔ لیکن انفی مصوتوں کی صورتِ حال دیگر ہے۔ یہ طویل ہو جاتے ہیں ، مثلاً: چاند، گیند، ہینگ۔ ان کا مقابلہ چاد، گید، ہیگ سے کیجئے تو آخر الذکر الفاظ میں مصوتے مختصر ٹھیریں گے۔
مصمتوں کے خوشے ((Consonantal Clusters
اردو کئی لحاظ سے آمیختہ زبان ہے لیکن اس کی صوتیات کے چوکھٹے میں مُستعار الفاظ کی ہڈیاں پسلیاں توڑ مروڑ کر دُرست کر دی جاتی ہیں۔ یہ عمل سب سے زیادہClusters میں نظر آتا ہے۔ اردو صوتیات کا عام رُجحانClusters کے خلاف ہے۔ اتفاق سے عربی، فارسی، سنسکرت اور انگریزی جِن زبانوں سے اس نے اپنی لغت کا خزانہ بھَرا ہےClusters سے بھَری پڑی ہیں۔ یہClusters عام طور پر الفاظ کے شروع میں آتے ہیں اور کبھی کبھی خاتمے پر بھی، جب کہ خاتمے کے خوشے کا اردو احترام کرتی ہے۔ لفظ کی ابتدا کے خوشے اس کے لیے ناقابلِ برداشت ہیں ، مثلاً:
سنسکرت: بَرہمن! بِرہمن :
پَرجا :
انگریزی: اِسپرٹ : (سپرٹ) Spirit
اِسٹیشن : ( سٹیشن) Station
اِسکول : (سکول) School
عربی: صَدَر : صَدْر
بَدَر : بَدْر
غَدَر : غَدْر
لیکن یہ امرِ واقعہ ہے کہ چونکہ عربی کے بیشتر اسیے الفاظ میںCluster لفظ کے اختتام پر آتا ہے اِس لیے عِلمیت اور فصاحت یہی اشارہ کرتی رہتی ہے کہ غلط العام سے آگے بڑھ کر غلط العوام کی تہمت اپنے سَر نہ لی جائے، مثلاً:
تَخْت نہ کہ تَخَت، مُفْت نہ کہ مُفَتْ
ذِکر ْ نہ کہ ذِ کَرْ، وَقْت نہ کہ وَخَتْ۔
بڑی دِل چسپ بات یہ ہے کہ پنجاب، اور یو۔ پی کے مغربی اضلاع میں ایک رُجحان عوامی بولیوں میں یہ بھی موجود ہے کہ جہاںCluster نہ ہو وہاں بھی شاید علمیت دکھانے کے لیے پیدا کر دیا جائے، مثلاً:
غَلَط کا غَلْط، شَرَف کا شَرْف
غَرَض کا غَرْض، مَرَض کا مَرْض ۔
مصمتوں کے خوشوں کے سلسلے میں یہ بُنیادی مسٔلہ بار بار ذہن میں اُٹھتا ہے کہ آیا اردو زبان ارتقا کے ان مَدارج پر پہنچ گئی ہے جہاں اس کا بولنے والا یہ کہہ سکے کہ:
مُستند ہے میرا فرمایا ہوا
اپنے فرمائے ہوئے کے مُستند ہونے کی شہادت کئی سوبرس پہلے ’دریائے لطافت‘ میں اِنشاَ اللہ خاں نے ان الفاظ میں دی ہے:
’’ہر لفظ جو اردو میں مشہور ہو گیا، عربی ہو یا فارسی، ترکی ہو یا سُریانی، پنجابی ہو یا پُوربی، از روئے اصل غلط ہو یا صحیح، وہ لفظ اردو کا لفظ ہے۔ اگر اصل کے موافق مُستعمل ہے تو بھی صحیح ہے اور اگر خلافِ اصل مُستعمل ہے تو بھی صحیح ہے۔ اس کی صحت و غلطی اردو کے استعمال پر موقوف ہے ،کیوں کہ جو کچھ خلافِ اردو ہے غلط ہے۔ ‘‘
***