سیدہ جعفر
(۱)
دکن میں اردو زبان کے آغاز و ارتقا کی تاریخ نہایت قدیم ہے۔ اردو زبان نے سرزمینِ دکن میں اپنے ارتقا کے دوران جو قابلِ قدر ادبی کارنامے انجام دیے ہیں ، اردو ادب کی تاریخ میں ان کی حیثیت ایک نہایت شاندار اور روشن باب کی ہے۔ دکنی اردو زبان و ادب کی تاریخ کئی صدیوں پر محیط ہے۔ بہمنی سلطنت کے قیام (۱۳۴۷ء) سے لے کر اورنگ زیب کی وفات (۱۷۰۷ء) تک دکن میں ادبی و شعری تصانیف کا ایک لامتناہی سلسلہ پایا جاتا ہے، جب کہ شمالی ہندوستان میں اس طویل عرصے کے دوران میں صرف چند تصانیف کا ہی سراغ مل سکا ہے۔ دکن کے ادبی سرمائے میں جہاں مثنوی، قصیدہ، غزل، مرثیہ اور رباعی جیسی اصناف شامل ہیں وہاں سب رس (ملّا وجہی)، معراج العاشقین (شاہ مخدوم حسینی)، شمائل ا لاتقیا (میراں یعقوب)، کلمۃ الحقائق (برہان الدین جانم) اور گنجِ مخفی (امین الدین علی اعلیٰ) جیسے نثری شہ پارے بھی موجود ہیں۔ لیکن یہ عجیب بات ہے کہ دکنی ادب کا مطالعہ اب تک زیادہ تر تاریخی اور لسانیاتی نقطۂ سے ہی کیا گیا ہے اور دکنی زبان میں ظہور پذیر ہونے والی لسانی تبدیلیوں ، نیز لسانیاتی خصوصیات ہی پر عالموں کی توجہ مرکوز رہی ہے۔ خالص ادبی اور تنقیدی نقطۂ نظر سے دکنی ادب کے مطالعے کی اہمیت بہت کم رہی ہے، اور دکنی ادب کے اسلوبیاتی مطالعے کی تو ابھی ابتدا بھی نہیں ہوئی ہے۔ دکنی اردو متون کی تدوین کے وقت بعض اوقات مرتبین ضمناً ان کی ادبی خصوصیات پر بھی روشنی ڈالتے ہیں ، لیکن فن پارے کی اسلوبی خصائص(Style-features) اور اس کے اسلوبیاتی پہلوؤں کو بالکل نظر انداز کر دیا جاتا ہے۔ تدوینِ متن کے دوران متن کی تحقیقی چھان بین، اس کے زمانۂ تصنیف، مصنف کے احوال و کوائف، مخطوطے کی عام کیفیت، املا اور کتابت کے مسائل نیز لسانیاتی خصوصیات ہی کو زیادہ تر اہمیت دی جاتی ہے۔ شاید ہی کسی مرتب نے تدوینِ متن کے دوران فن پارے کے اسلوب سے بھی بحث کی ہو یا اس کی اسلوبیاتی خصوصیات کو بھی بیان کیا ہو۔
یہاں دکنی اردو ادب کی لسانی خصوصیات اور اسلوبیاتی خصوصیات کے درمیان فرق کو واضح کر دینا ضروری ہے۔ دکنی ادب کی لسانی خصوسیات سے مراد دکنی زبان کی وہ خصوصیات ہیں جو شمالی ہند کی اردو میں نا پید ہیں۔ جب کہ دکنی ادب کی اسلوبیاتی خصوصیات کا تعلق دکنی ادب میں زبان کے تخلیقی و جمالیاتی استعمال کی نہج و نوعیت اور اسلوبی امتیازات سے ہے۔ مثال کے طور پر /ق/کی/خ/ میں تبدیلی جیسے عقل سے ’’اخل‘‘، وقت سے ’’وخت‘‘، نقش سے ’’نخش‘‘ یا ’’اں ‘‘ کے اضافے کے ساتھ جمع کی تشکیل مثلاً لوگاں ، باتاں ، راتاں وغیرہ یا صیغۂ ماضیِ مطلق بناتے وقت فعلِ امر کے بعد ’’یا‘‘ کا اضافہ مثلاً، کہیا، چلیا، بولیا، وغیرہ۔ اس قسم کی خصوصیات کو ہم دکنی اردو کی لسانیاتی خصوصیات کہیں گے، کیوں کہ ان کا تعلق دکنی اردو کی ساخت و ہیئت سے ہے۔ یہ تمام لسانی خصوصیات دکنی ادب میں بھی پائی جاتی ہیں۔ ان خصوصیات کو ہم اسلوبیاتی خصوصیات نہیں کہیں گے، خواہ ان کا استعمال ادب و شاعری میں ہی کیوں نہ ہوا ہو۔
(۲)
اس امر کا ذکر یہاں بیجا نہ ہو گا کہ اسلوبیات سے یہاں مراد ’لسانیاتی اسلوبیات‘ ہے جو ’ادبی اسلوبیات‘ سے مختلف ہے۔ لسانیاتی اسلوبیات کی تمام تر بنیاد جدید لسانیات کے اصولوں پر رکھی گئی ہے۔ اس کا ارتقا بھی جدید لسانیات کے ارتقا کے بعد عمل میں آیا۔ لسانیاتِ جدید اپنے شاخ در شاخ سلسلوں سمیت خالص بیسویں صدی کی ایجاد ہے اور لسانیاتی اسلوبیات بیسویں صدی کے نصفِ دوم کی اختراع ہے۔ لسانیاتی اسلوبیات، ادبی اسلوب کے توضیحی و تجزیاتی مطالعے کا نام ہے۔ اس میں زبان کے ادبی و جمالیاتی استعمال کا مطالعہ خالص لسانیاتی نقطۂ نظر سے کیا جاتا ہے جس میں سائنسی، معروضی اور منظم طریقِ کار اختیار کیا جاتا ہے۔ لسانیاتی اسلوبیات، ادبی اسلوبیات سے ان معنوں میں بھی مختلف ہے کہ ادبی اسلوبیات کا تعلق بیان و بلاغت اور صنائع و بدائع سے ہے، جب کہ لسانیاتی اسلوبیات ادبی زبان کی توضیح، اسلوبی خصائص کی شناخت نیز ادب میں زبان کے تخلیقی و جمالیاتی استعمال کے امکانات سے سروکار رکھتی ہے۔ ادبی اسلوبیات میں ’حرف‘ اور ’لفظ‘ کے تصور کو بنیادی اہمیت حاصل ہے، جب کہ لسانیاتی اسلوبیات میں ’حرف‘ کی جگہ’ صوت‘ کو بنیادی اکائی مانا گیا ہے۔ اپنے مزاج کے اعتبار سے ادبی اسلوبیات تاثراتی اور تشریحی ہے، جب کہ لسانیاتی اسلوبیات مزاجاً معروضی اور تجزیاتی ہے۔ ادبی اسلوبیات کا تعلق ادبی تنقید سے، جب کہ لسانیاتی اسلوبیات اطلاقی لسانیات(Applied Linguistics) کی ایک شاخ ہے۔ لسانیاتی اسلوبیات کی تمام تر بنیاد لسانیات کے اصولوں پر رکھی گئی ہے، اسی لیے اسلوبیاتی تجزیے کے لیے لسانیات کا پہلے سے ٹھوس علم ہونا نہایت ضروری ہے۔ ادبی فن پارے کا اسلوبیاتی تجزیہ، زبان کے لسانیاتی تجزیے کے دوش بدوش کام کرتا ہے۔ یعنی شعر و ادب کا مطالعہ صوتیات کی سطح پر بھی ہوسکتا ہے اور لفظیات، صرف و نحو اور معنیات کی سطحات پر بھی۔ اسلوبیاتی مطالعے کا مقصد فن پارے کا محض لسانیاتی تجزیہ نہیں ہے، بلکہ جیسا کہ پہلے بھی کہا جا چکا ہے کہ اس تجزیے کے ذریعے فن پارے کے اسلوبی خصائص کا پتا لگانا مقصود ہے جن کی وجہ سے وہ فن پارہ دوسرے فن پارے سے ممیز و ممتاز ہو جاتا ہے، اور اس کے خالق کو انفرادی حیثیت حاصل ہو جاتی ہے۔ یہ بات بدیہی ہے کہ موضوعات کسی کی ملکیت نہیں ہوتے۔ کسی فن پارے کی انفرادیت کا تعین ہم اس کے اسلوب اور اسلوبیاتی خصائص کی ہی بنیاد پر کرسکتے ہیں اور اسلوب کی تعمیر و تشکیل میں زبان جو کردار ادا کرتی ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ اسلوبیاتی تجزیے اور اسلوبیاتی خصوصیات کی شناخت و دریافت سے ادبی فن پارے کی تحسین میں مدد ملتی ہے۔ چنانچہ اسلوبیاتی تجزیے کے ذریعے سے ہم ادب سے بہتر طور پر محظوظ اور لطف اندوز ہوسکتے ہیں۔ اسی لیے کہا گیا ہے کہ اسلوبیاتی مطالعہ ادبی تنقید کی معاونت کرتا ہے۔ یہ ادبی تنقید کا بدل نہیں ہے۔
چوں کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے، اس لیے ادب و شعر میں ظہور پذیر ہونے والے لسانیاتی اور اسلوبیاتی خصائص سے انکار نہیں کیاجاسکتا۔ ان خصائص کا مطالعہ و تجزیہ بھی کیاجاسکتا ہے۔ اس تجزیے میں ایک ماہرِ لسانیات یا اسلوبیاتی نقاد جو کردار ادا کرتا ہے اس سے صرفِ نظر نہیں کیاجاسکتا۔ ایک ما ہرِ لسانیات کی ادب میں دلچسپی محض اس لیے ہوسکتی ہے کہ ادب کا ذریعۂ اظہار زبان ہے یعنی ادب زبان کو اپنے میڈیم (Medium) کے طور پر استعمال کرتا ہے اور زبان لسانیات کا مواد و موضوع(Subject Matter) ہے۔ اس لیے ادب اور لسانیات کے درمیان گہرے رشتے کا پایا جاتا امرِ لازمی ہے۔
زبان کا اگر ایک طرف مواد و موضوع کے اعتبار سے لسانیات سے براہِ راست تعلق ہے تو دوسری جانب ذریعۂ اظہار ہونے کی وجہ سے ادب سے بھی اس کا نہایت گہرا اور مربوط رشتہ ہے۔ اسی طرح اگر ایک طرف اسلوبیات کا سِرا لسانیات سے ملتا ہے تو دوسری طرف ادب سے بھی اس کا رشتہ استوار ہے۔
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتاکہ اسلوبیات نے پچھلے چند دہوں کے دوران تنقیدِ شعر کی ایک نئی راہ متعین کی ہے اور ادبی تنقید کو ایک نئی جہت سے روشناس کرایا ہے۔ اسلوبیاتی مطالعے کا ایک پہلو یہ بھی ہے کہ بقولِ پروفیسر مسعود حسین خاں ’’یہ کلاسیکی نقدِ ادب کے اصولوں کی تجدید کرتا ہے اور قدماء کے مشاہدات اور اصطلاحاتِ ادب کو سائنسی بنیاد عطا کرتا ہے۔ ‘‘(۱)
(۳)
جیسا کہ پہلے کہا جا چکا ہے کہ ادب کا اسلوبیاتی مطالعہ، مطالعۂ زبان یعنی لسانیات کی مختلف سطحات پر کیا جاتا ہے۔ اس مطالعے کی پہلی سطح صوتیات ہے۔ دکنی ادب کے صوتیاتی مطالعے کی بنیاد دکنی اردو کے صوتیاتی نظام پر قائم کی جاسکتی ہے جس میں مصمتے بھی ہیں اور مصوتے بھی۔ مصمتوں میں ہکار آوازیں بھی ہیں اور کوز،صفیری اور بندشی آوازیں بھی۔ اردو کے صوتیاتی نظام کی خصوصیت یہ ہے کہ اس میں عربی، فارسی اور ہندی کی الگ الگ آوازیں شامل ہیں۔ اور ایسی آوازیں بھی ہیں جو ان میں سے دونوں یا تینوں زبانوں میں مشترک ہیں۔ اردو کی کوز اور ہکار آوازوں ، مثلاً ٹ، ڈ، ڑ اور پھ، بھ، تھ، دھ وغیرہ کا تعلق خالص ہند آریائی سے ہے۔ انھیں آوازوں کے تانے بانے سے یا ان کے باہمی آہنگ و اتصّال نیز ان کی مخصوص ترتیب و تنظیم اور تکرار و تکرّر سے شعر کے صوتی نمونے(Phonological Patterns) تیار ہوتے ہیں اور شعر کے صوتی آہنگ کی تشکیل عمل میں آتی ہے جن کے مطالعے اور تجزیے سے صوتی سطح پر شعر کے اسلوبیاتی خصائص کا تعین کیاجاسکتا ہے۔
دکنی ادب کی ایک اہم خصوصیت اس کی ہندی آمیز زبان ہے جس کا سلسلہ ہندی کی شعری روایت اور ہند و مذہبی تصوّرات سے بھی جا ملتا ہے۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی ادب کے صوتی آہنگ میں ہندی نژاد کوز اور ہکار آوازیں بہت اچھی طرح کھپ سکی ہیں۔ اس کے برعکس اردو کی ایرانی شعری روایت میں کوز آوازیں پیوست نہیں ہو سکی ہیں۔ غالب اور اقبال اردو کے دو ایسے شاعر گزرے ہیں جن کی شاعری کا صوتی آہنگ کوز آوازوں کے تانے بانے سے یکسر خالی ہے۔ پروفیسر مسعود حسین خاں غالب اور اقبال کے کلام کے صوتی تجزیوں کے بعد یہ نتیجہ اخذ کرتے ہیں:
’’صفحے کے صفحے الٹتے چلے جائیے ٹ، ڈ، ڑ کی آوازیں اردو شاعری کے مقدس وید یعنی دیوانِ غالب میں نہیں ملتیں۔ یہی حال اقبال کا ہے۔ ‘‘(۲)
کوز آوازوں سے تشکیل پانے والے تتسم اور تدبھو الفاظ دکنی ادب کے ہر دور اور ہر مصنّف کے ہاں بہ کثرت پائے جاتے ہیں۔ جیسا کہ ابھی کہا گیا ہے، دکنی ادب ہندی شعری روایت اور ہندو فلسفے سے بھی مملو ہے، لہٰذا اس روایت کی صوتی عکاسی اور اس فلسفے کی صوتی ترجمانی کوز اور ہکار آوازوں کے استعمال کے بغیر ممکن نہ تھی۔ یہی وجہ ہے کہ دکنی ادب کے صوتی آہنگ میں ان آوازوں کے تارو پود اور تانے بانے کو ایک خاص اہمیت حاصل ہے۔ مختلف دکنی تصانیف سے کوز یا معکوسی آوازوں پر مشتمل چند الفاظ یہ ہیں:
اکنڈ (سالم)، ویکنٹھ (جنّت)، برہمانڈ (کائنات)، ٹھار (جگہ)، ٹھانوں (جگہ)، منڈل (گھیرا)، درشٹ (نظر)، دشٹی(نظر)،کوٹ (قلعہ)، منڈپ (عارضی سائبان)، ناڑ (نبض)، پرکٹ (ظاہر)، باٹ (راستہ)، بھینٹ (ملاقات)، دیوٹ (چراغ)، ڈونگر (پہاڑ)، مُکٹ (تاج)، نوکھنڈ (نوآسمان)، بھنڈار (ذخیرہ)، نپٹ (بہت)، پٹ (تخت)، پنڈ (جسم)، کھنڈی (تلوار) گھٹ (جسم، دل) بھر شٹ (خراب)، تٹ (کنارہ)، ناٹک (ڈرامہ)، وغیرہ۔
اردو کی تین کوز آوازوں /ٹ/‘/ڈ/ اور /ڑ/ کے علاوہ ایک انفی کوز آواز/ن/ بھی ہے جو خاص طور پر سنسکرت زبان سے مخصوص ہے۔ اس کے بارے میں عام خیال یہ ہے کہ اسے اردو نے اپنے ارتقا کے کسی بھی دور میں اختیار نہیں کیا۔ لیکن بدیع حسینی کی تحقیق کے مطابق قدیم دکنی میں یہ آواز موجود تھی۔ انھوں نے میراں یعقوب کی شمائل الا تقیاء مرتب کرتے وقت اس کے مقدمے میں لکھا ہے کہ ’’اور مخطوطوں کی طرح شمائل الاتقیاء میں بھی یہ نون ملتا ہے۔ ‘‘(۳)
کوز آوازوں کی طرح ہندی کی ہکار آوازیں مثلاً پھ، بھ، تھ، دھ، چھ، جھ، کھ، گھ، وغیرہ بھی دکنی شعریات کے صوتی آہنگ کا جزوِ لاینفک ہیں۔ ہکار آوازوں سے تشکیل شدہ ان گنت تتسم اور تدبھو الفاظ سنسکرت اور پراکرت سے آکر دکنی ادب کے ذخیرۂ الفاظ میں شامل ہو گئے ہیں۔ ہکار آوازوں کے سلسلے میں یہ بات قابلِ ذکر ہے کہ بعض الفاظ میں ان کی ہکاریت زائل ہو جاتی ہے۔ مثلاً مج (مجھ)، کچ (کچھ)، تج (تجھ)، دُک (دکھ) وغیرہ میں ہکاریت کا عنصر معدوم ہو گیا ہے۔ لیکن یہ بات صرف ادبی زبان سے مخصوص نہیں ، بلکہ دکنی اردو کا یہ ایک عام لسانی رجحان ہے۔
ہکار آوازوں سے تشکیل پانے والے دکنی ادب سے مخصوص کچھ الفاظ یہ ہیں:
اندھکار (اندھیرا)، پرگھٹ (ظاہر)، بھُئیں (زمین)، آدھار (بنیاد)، بکھان (بیان)، انجھو (آنسو)، پر تھمی (زمین)، کرودھ (غصّہ)، دھن (دولت)، مکھ (منہ)، کھنڈ (حصّہ)، بھار (بوجھ)، بھید (راز)، ادھک (زیادہ)، چھند (فریب)، چھب (انداز)، الکھ (زلف)، بھال (پیشانی)، کنٹھ (گلا)، گمبھیر (گہرا)، وغیرہ۔
کوز اور ہکار آوازوں سے ترکیب پانے والے الفاظ سے قطع نظر دکنی اردو ادب میں ایسے سنسکرت اور ہندی الفاظ کی تعداد اور بھی زیادہ ہے جو ان آوازوں سے مرکب ہیں جو ہندی۔ فارسی اور ہندی۔ عربی میں مشترک ہیں۔ مثلاً/ن/کی آواز عربی ، فارسی اور ہندی تینوں زبانوں میں مشترک ہے، مثلاً نوم (عربی)، نان (فارسی) اور ناری (ہندی)۔ ہندی و فارسی اور ہندی و عربی مشترک آوازیں تعداد میں ۱۷ ہیں ، یعنی ب پ ت ج چ د ر س ش ک گ ل م ن وہ ی۔ ان آوازوں کے تانے بانے سے جب کوئی ہندی لفظ تشکیل پاتا ہے تو اس کا صوتی آہنگ بھی ہندی کہلائے گا، نہ کہ عربی یا فارسی، ہر چند کہ عربی۔ فارسی میں بھی یہ آوازیں مشترک ہیں۔ ایسے کچھ الفاظ کی مثالیں دکنی ادب میں حسبِ ذیل ہیں:
جیو، جیون، سیوک، گیان، چرن، بالک، پرکار، کمل، کال، سنسار، روپ، سروپ، دیپ، اُپما، جل، پوجا، دان روگ، ماتا، گگن، کلا، پون، نیر، نرمل، امرت، داس، نین، ترون، گج، چمپا، سندر، مایا، گن، انوپ، اچل، مدن، چندن، جگت، موہنی، درپن، انت، بل، نراکار، روگ، اوتار، پتی ورتا، ستونت، سُورگ، سپن، انگ، مارگ، ناس، سور، دیا، چتر، اُتم، پُن، درس، نراسا، نیہ، یدی، اگن، بس، پُرش، آسا، استری، آکاش، پران، پرکاش، دوس، رت، سریر، جنم، لوک، بچن، بچار، الاس، پربت، وغیرہ۔
اردو شاعری کے صوتی آہنگ میں غیر مسموع لہاتی بندشی آواز /ق/کو ایک نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ یہ آواز عربی زبان سے مخصوص ہے۔ اردو لہجے کو نفیس، شستہ، معیاری اور شہری بنانے میں اس آواز کا خاصا دخل ہے۔ لیکن جس طرح پنجابی اردو دانوں میں یہ آواز مفقود ہے، اسی طرح دکنی اردو بولنے والوں میں بھی اس آواز کا وجود معدوم ہے، لہٰذا دکنی شعروادب کے صوتی آہنگ کا صحیح تصوّر /ق/ کی آواز کو اس کے صوتی نظام سے خارج کرنے کے بعد ہی کیاجاسکتا ہے۔ اس کا اثر یہ ہو گا کہ دکنی کے صوتی آہنگ میں صفیری آواز /خ/ کا تکرّر(Frequency) بڑھ جائے گا جس سے اس کے صوت جمالیاتی تاثر میں بھی اضافہ ہو گا، کیوں کہ /ق/ کی آواز دکنی اردو میں /خ/ میں تبدیل ہو جاتی ہے۔ دکنی کے صوتی آہنگ میں صفیری آواز /ژ/ بھی ایک طرح سے مفقود ہے۔ ہندی کے ذخیرۂ الفاظ کا دکنی ادب میں اتنا زیادہ عمل دخل ہے کہ صفحے کے صفحے پلٹنے پر بھی /ژ/ سے مرکب الفاظ دکنی شاعری میں نہیں ملتے۔ جس طرح /ق/ ایک خالص عربی آواز ہے، اسی طرح /ژ/ بھی ایک خالص فارسی آواز ہے اور اس سے تشکیل پانے والے الفاظ آج کی معیاری اردو میں بھی صرف چند ہیں ، مثلاً مثرگاں ، ژالہ، اژدہا، پژمردہ، وغیرہ۔ لیکن ان الفاظ میں اگر/ژ/کو/ز/ سے بدل دیاجائے تو اردو کا صوت جمالیاتی آہنگ بُری طرح مجروح ہو جائے گا۔
اس میں کوئی شک نہیں کہ اردو زبان کے صوتی آہنگ کی امتیازی شان عربی فارسی کی چھے آوازوں یعنی /ف/‘/ز/‘/ژ/ ‘/خ/‘/غ/‘/ اور / ق/ سے ہی قائم ہے جن میں سے دو آوازیں یعنی /ق/اور /ژ/ دکنی کے صوتی آہنگ سے خارج ہو جاتی ہیں۔ باقی ماندہ چار عربی فارسی آوازوں یعنی /ف/‘/ز/‘ /غ/‘/ اور /خ/ سے ترکیب پانے والے الفاظ اگرچہ دکنی ادب میں بکثرت پائے جاتے ہیں ، لیکن ان کے بغیر بھی دکنی شعری اسلوب بدستور قائم رہتا ہے۔ لہٰذا یہ کہنا بیجا نہ ہو گا کہ دکنی ادب کا بنیادی صوتی آہنگ ہندی نثر اور صوتی آہنگ ہے۔ اس صوتی آہنگ کی چند مثالیں ملاحظہ ہوں:
ہنسلی تجھ گل میں دیکھ کہتے ہیں
چاند سیں مکھ کا ہے گا یو ہالا
(ولی)
پہاڑاں تیرے داس کہواویں سب
چل آوے، کہے توں تو چل آویں سب
(غواصی)
تج یاد بنا ہور منجے کام نہیں
نِس جاگتے جاتی ہے، دن آرام نہیں
(ملاوجہی)
پِیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے جا
(محمد قلی قطب شاہ)
تج بن پیارے نیند ٹک نیناں میں مُنج آتی نہیں
رینی اندھاری کٹھن تج بن کٹی جاتی نہیں
(محمد قلی قطب شاہ)
رہن نا سکے من پیا باج دیکھے
ہووے تَن کوں سکھ جب ملے پیو پیالا
(محمد قلی قطب شاہ)
اس حقیقت سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ دکنی ادب کے تشکیلی دور میں سنسکرت اور ہندی نژاد الفاظ کا استعمال کثرت سے ہوا ہے۔ شری رام شرمانے اس کی دو وجہیں بیان کی ہیں۔ (۴) پہلی وجہ تو یہ ہے کہ جن صوفی بزرگوں نے ابتدائی زمانے میں دکنی کے ذریعے اپنے سلوک و عرفان کو بیان کیا وہ ہندوستان کے ویدانت اور فلسفے سے واقف تھے۔ انھوں نے اسلامی افکار کے ساتھ ہندوستان کے قدیم اور مروج فلسفے کے امتزاج کی کوشش کی۔ اس آمیزش کی بنا پر انھوں نے ہندوستان کے فلسفے میں استعمال شدہ اصطلاحوں کو قدرے ردّ و بدل کے ساتھ قبول کر لیا۔ اسی لیے ان کے کلام اور اقوال میں سنسکرت کے خالص الفاظ کی افراط ہے۔ اس کی دوسری وجہ یہ ہے کہ دکنی کے مشہور شعراء سنسکرت ادبیات سے بھی متعارف تھے جس نے ان کی تصانیف کو سنسکرت کے متعدد خالص الفاظ عطا کیے۔ لیکن قدیم دکنی اردو ادب میں سنسکرت اور ہندی نژاد الفاظ کے کثرتِ استعمال کی سب سے اہم وجہ یہ ہے کہ جس زبان کو دکنی مصنّفین نے ادبی اظہار کا وسیلہ بنایا تھا وہ ایک خام اور نا پختہ زبان تھی جو اپنے تشکیلی اور ارتقائی مراحل سے ابھی گزر ہی رہی تھی کہ اسے تحریر کا جامہ پہنا دیا گیا۔ اس زبان کے تلفظ و املا کے نہ تو ابھی کوئی اصول مقرر ہوئے تھے اور نہ ہی اس کی معیاری بندی عمل میں آئی تھی۔ یہ ایک ایسی زبان تھی جو نہ صرف خام اور نا پختہ تھی بلکہ سیّال حالت میں بھی تھی۔
(۴)
شعر کے صوتی آہنگ کی تعمیر و تشکیل میں آوازوں کے انتخاب، الفاظ میں ان کی ترتیب و تنظیم اور تکرار کو نمایاں حیثیت حاصل ہے۔ شعر کی موسیقیت، ترنمی کیفیت اور غنائیت کا انحصار بہت کچھ اصوات کی تکرار و تکرّر پر منحصر ہوتا ہے جس سے بعض اوقات شعر کی فکری اور معنوی اثریت میں بھی اضافہ ہو جاتا ہے۔ صوتی تکرار مصمتی(Consonanatal) بھی ہوسکتی ہے اور مصوتی(Vocalic) بھی۔ مصمتی تکرار کو تجنیسِ صوتی یاAlliteration بھی کہتے ہیں جس میں قریب الواقع الفاظ متجانس آواز سے شروع ہوتے ہیں جس سے شعر میں ایک مخصوص قسم کا صوتی آہنگ پیدا ہو جاتا ہے۔ دکنی ادب میں اس کی نہایت عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں۔ محمد قلی قطب شاہ کے درجِ ذیل شعر کے پہلے مصرعے میں /پ/ کی تکرار اور دوسرے مصرعے میں /ج/ کی تکرار سے نہایت دلکش صوتی آہنگ ابھرتا ہے:
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پ پ پ
پیا باج یک تل جیا جائے نا
ج ج
اس شعر کے پہلے مصرعے میں پیا اور پیالہ کی ابتدا میں /پ/ کی تکرار پائی جاتی ہے اور دوسرے مصرعے میں جیا اور جائے کی ابتدا میں /ج/ کی تکرار پائی جاتی ہے۔ تجنیسِ صوتی سے قطع نظر اس شعر کے پہلے مصرعے میں پیا بمعنی ’محبوب‘ اور پیا بمعنی ’پینا‘ (فعل) میں تجنیسِ تام بھی ہے۔ مصمتی تکرار کی چند اور مثالیں یہ ہیں:
۱۔ /ش/ کی تکرار:
شرابِ شوق میں سرشار ہیں ہم
کبھو بے خود کبھو ہوشیار ہیں ہم
(ولی)
۲۔ /خ/ کی تکرار:
خوبرو خوب کام کرتے ہیں
یک نگہ میں غلام کرتے ہیں
(ولی)
۳۔ /م/ کی تکرار:
ترے دو نین ہیں مد مست متوال
ترے دو گال ہیں خوبی کے گلّال
(محمد قلی قطب شاہ)
۴۔ /ن/ کی تکرار:
رکھے نارو و ناز سوں پگ جہاں
سورج چاند سجدا کریں آ وہاں
(وجہی)
مصمتی تکرار کی ایک صورت یہ بھی قرار پاتی ہے کہ دو الفاظ شعر میں قوافی کے علاوہ بھی ہم قافیہ بن جاتے ہیں ، مثلاً:
۱۔ مشتاق/عشاق:
مدت ستی مشتاق ہیں عشاق جفا کے
بے داد کہ وو ظالمِ بے داد نہ آیا
(ولی)
۲۔ یار/دلدار:
اگر یار دلدار ہور اہل ہے
تو یو کام کرنا بہوت سہل ہے
(وجہی)
۳۔ محبت/ لذت:
محبت کی لذت فرشتاں کونیں ہے
بہت سعی سوں میں سو لذت پچھائی
(محمد قلی قطب شاہ)
مصمتی تکرار سے قطع نظر، مصوتی تکرار(Assonance) سے بھی شعر میں ایک مخصوص قسم کا صوتی آہنگ پیدا ہوتا ہے۔ اس کی صورت یہ ہوتی ہے کہ ایک ہی مصوتہ(Vowel) قریب الواقع الفاظ یا قریب الواقع صوتی ارکان میں بار بار دہرایا جاتا ہے، مثلاً:
ساقیا آ شرابِ ناب کہاں
(محمد قلی قطب شاہ)
اس مصرعے کے ہر لفظ میں طویل مصوتہ /آ/ کی تکرار پائی جاتی ہے، یعنی سا، یا، آ، را، نا اور ہاں۔ اس طرح پانچ الفاظ پر مشتمل اس مصرعے میں طویل مصوتہ /آ/ چھے باراستعمال ہوا ہے۔
اسی طرح ذیل کے شعر کے مصرعۂ اولیٰ میں سکھی، دیکھی، اور سریجن میں طویل مصوتہ/ای/ اور مصرعۂ ثانی میں سوں ، کوں اور سوں میں طویل مصوتہ/اوٗ/ کی تکرار پائی جاتی ہے:
سکھی میں خواب میں دیکھی سریجن آئے ہیں جانو
اوچا کر پیار سوں مج کوں گلے سوں لائے ہیں جانو
(ہاشمی)
مصوتی تکرار کی کچھ اور مثالیں یہ ہیں:
۱۔ /اے/ کی تکرار:
محبت کے مرے دعوے پہ نا ہووے سند مجھ کوں
لکھیا ہوں صفحۂ ہستی پہ خونِ دل سے نام اس کا
(ولی)
۲۔ /ای/ کی تکرار:
کہ میں ہوں بنی بالی تیری پرت کی
اسی تے لگی ہے تماری خماری
(محمد قلی قطب شاہ)
صوتی تکرار کے مطالعے اور تجزیے کو اسلوبیاتی تنقید میں ایک خاص اہمیت حاصل ہے، کیوں کہ صوتی تکرار شعری اظہار کی ایک خوبی تسلیم کی گئی ہے جو زبان کو حسن وسلیقے کے ساتھ استعمال کرنے سے ہی ظہور میں آتی ہے۔ صوتی تکرار کی بے شمار قسمیں ہیں اور دکنی شاعری میں اس کی بہت عمدہ مثالیں دیکھنے کو ملتی ہیں ، لیکن ان تمام اقسام کا یہاں احاطہ کرنا ممکن نہیں۔ شعر کی صوتی تکرار کا ذکر بیان و بدیع کی قدیم کتب میں بھی ملتا ہے جس سے اندازہ ہوتا ہے کہ قدماء کا بھی اس ضمن میں مشاہدہ بہت گہرا تھا۔
شعر کے صوتی آہنگ میں قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ کو مرکزی حیثیت حاصل ہوتی ہے۔ شعر کا بنیادی صوتی آہنگ دراصل قوافی و ردیف کے صوتی آہنگ سے ہی تشکیل پاتا ہے۔ قوافی وردیف میں آوازوں کی اندرونی تنظیم سے جو موسیقیت اور نغمگی برآمد ہوتی ہے، دکنی شعراء نے اس سے بھرپور کام لیا ہے۔
دکنی شعراء کی غزلوں کے صوتی آہنگ کا مطالعہ و تجزیہ قوافی و ردیف کے درمیان لگائی جانے والی گرہ کے نقطۂ نظر سے بھی کیاجاسکتا ہے۔ اس ضمن میں یہ بات یاد رکھنی چاہیے کہ اگر قافیہ مصوتے(Vowel) پر ختم ہو اور ردیف مصمتے(Consonant) سے شروع ہو تو قافیے اور ردیف کے درمیان صوتی گرہ بہت کامیابی کے ساتھ لگائی جاسکتی ہے۔ دکنی شاعروں کے یہاں اس کا اکثر و بیشتر التزام پایا جاتا ہے، لیکن دکنی شاعروں کے دواوین میں ایسی غزلیں بھی ہیں جن میں صوتی گرہ کی یہ صورت نہیں پائی جاتی، مثلاً قوافی اگر مصمتے پر ختم ہوتے ہیں تو ردیف مصمتے ہی سے شروع ہو جاتی ہے۔ جہاں جہاں یہ صورت پیدا ہوئی ہے، شعر میں ایک قسم کی ثقا لتِ صوتی پیدا ہو گئی ہے اور شعر کی روانی، لَے اور نغمگی بری طرح مجروح ہوئی ہے۔ مثال کے طور پر محمد قلی قطب شاہ کی غزل__
ساقیا آ شرابِ ناب کہاں
میں قافیہ ناب، مصمتہ /ب/ پر ختم ہوتا ہے اور ردیف کہاں ایک دوسرے مصمتے /ک/ سے شروع ہوتی ہے جس سے شعر کی ترنمی کیفیت، لَے اور روانی بری طرح مجروح ہوتی ہے اور ثقا لتِ صوتی کا احساس پیدا ہوتا ہے۔ اس غزل کا مقابلہ اگر محمد قلی قطب شاہ کی ایک دوسری غزل:
پیا باج پیالہ پیا جائے نا
پیا باج یک تل جیا جائے نا
سے کیا جائے تو اندازہ ہو گا کہ اس میں قوافی و ردیف کے درمیان صوتی گرہ کتنی کامیابی کے ساتھ لگائی گئی ہے۔ یہاں قوافی پیا، جیا، وغیرہ طویل مصوتے /آ/پر ختم ہوتے ہیں اور ردیف جائے نا مصمتے /ج/ سے شروع ہوتی ہے۔ دکنی شاعروں کی نمائندہ غزلوں میں قوافی و ردیف کے درمیان صوتی گرہ کا زیادہ تر یہی نمونہ(Pattern) پایا جاتا ہے۔
دکنی شعر و ادب میں اسلوبیاتی تجزیوں کے بھر پور امکانات پائے جاتے ہیں۔ چنانچہ لسانیات کی ہر سطح پر اسلوبیاتی خصائص کی شناخت ممکن ہے۔ لیکن اس مختصر سے مقالے میں ان تمام امور کا احاطہ کرنا ممکن نہیں۔
حواشی و حوالے
۱۔ مسعود حسین خاں ، ’’مطالعۂ شعر: صوتیاتی نقطۂ نظر سے‘‘ مشمولہ شعر و زبان (مسعود حسین خاں )، حیدرآباد: شعبۂ اردو، عثمانیہ یونیورسٹی، ۱۹۶۶ء، ص ۱۶۔
۲۔ ایضاً، ص ۲۲۔
۳۔ دیکھیے شمائل الاتقیاء (انتخاب) ازمیراں یعقوب مرتبہ بدیع حسینی مطبوعہ قدیم اردو (حیدرآباد)، جلد دوم، ۱۹۶۷ء۔ ص ۱۶۶۔
۴۔ د یکھیے شری رام شرما کی تصنیف دکھنی ہندی کا ادبھو اور وکاس (ہندی) جس کا ترجمہ غلام رسول (سابق لائبریرین، سٹی کالج، حیدرآباد) نے دکنی زبان کا آغاز اور ارتقا کے نام سے کیا۔ یہ کتاب آندھراپردیش ساہتیہ اکیڈمی، حیدرآباد کی جانب سے ۱۹۶۷ء میں شائع ہوئی۔
(۱۹۸۷ء)