خاندان میں مرد اور عورت دونوں یکساں اہمیت کے حامل ہیں۔۔ اسلام معاشرتی نظام حسن اور پائیداری قائم کرنے کے لئے وہ مرد کو عورت پر ایک درجہ ترجیح دیتا ہے اور اس فوقیت کو نظامِ معاشرت میں توازن قائم رکھنے کے لیے ضروری قرار دیتا ہے: اَلرِّجَالُ قَوّٰمُوْنَ عَلَی النِّسَآءِ بِمَا فَضَّلَ اللّٰہُ بَعْضَھُمْ عَلیٰ بَعْضٍ وَّبِمَآ اَنْفَقُوْا مِنْ اَمْوَالِھِمْ[25] ’’مرد عورتوں پر قوام ہیں، اس کی بنا پر کہ اللہ نے ان میں سے ایک کو دوسرے پر فضیلت عطا کی ہے، اور اس بنا پر کہ مرد اپنے مال خرچ کرتے ہیں۔‘‘
قوام یا قیم اس شخص کو کہتے ہیں جو کسی فرد یا ادارے یا اجتماعی نظام کے معاملات کو چلانے، اس کی حفاظت و نگرانی کرنے اور اس کے لیے مطلوبہ ضروریات فراہم کرنے کا ذمہ دار ہو۔ مرد اِن تینوں معنوں میں قوام یا قیم ہے۔
مرد کو قوام کیوں بنایا گیا ہے؟ اس کی وضاحت کرتے ہوئے سید ابو الاعلیٰ مودودیؒ حقوقِ زوجین میں لکھتے ہیں:
’’خانگی زندگی کے نظم کو برقرار رکھنے کیلئے بہر حال زوجین میں سے کسی ایک کا قوام اور صاحب امر ہونا ناگزیر ہے۔ اگر دونوں مساوی درجہ اور مساوی اختیارات رکھنے والے ہوں تو بد نظمی کا پیدا ہونا یقینی ہے۔۔ ۔ اسلام چونکہ ایک فطری دین ہے اس لئے اس نے فطرت کا لحاظ کر کے زوجین میں سے ایک کو قوام اور صاحبِ امر اور دوسرے کو مطیع اور ماتحت بنانا ضروری سمجھا اور قوامیت کیلئے اس فریق (مرد)کا انتخاب کیا جو فطرتاً یہی درجہ لے کر پیدا ہوا ہے۔ [26]
بحیثیت قوام زوجین کے باہمی تعلق میں مرد کو مرکزی کردار حاصل ہے۔ استحکام خاندان کا دار و مدار عورت کی بہ نسبت مرد پر زیادہ ہے کیونکہ اگر وہ جسمانی لحاظ سے طاقتور ہے تو اعصابی لحاظ سے بھی عورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ مضبوط ہے۔ اس میں تحمل مزاجی اور برد باری کی صفات عورت کے مقابلے میں کہیں زیادہ ہیں۔ اسی سبب سے اس کے ہاتھ میں عقدۃ النکاح تھمائی۔ کیونکہ وہ فہم و فراست میں عورت سے فائق ہے اور عورت کی طرح جلد بازی سے کام نہیں لیتا۔ اس کے مقام اور درجے کا بھی یہی تقاضا ہے کہ وہ عورت کی جانب سے ہونے والی کوتاہیوں کو نظر انداز کرے اور کمال شفقت و محبت، صبر و حلم، ایثار و حکمت سے اپنے اس تعلق کو مزید حسن و خوبی سے آراستہ کرے۔
مرد کی قوامیت کا یہ مطلب نہیں ہے کہ مرد حاکمانہ رویہ اختیار کرے۔ کیونکہ مرد کا بے جا رعب و دبدبہ بھی خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا سبب بن سکتا ہے۔ ’’ایسے گھرانے جہاں پر مرد کا آمرانہ رویہ ہے۔ اور وہ اپنی رائے اور اپنے فیصلوں سے اختلاف کو سنگین جرم سمجھتا ہے اور ایسے جرم کو خواہ وہ اس کی بیوی ہو یا بیٹی سخت سزا کا موجب گردانتا ہے یہ رجحان اسلامی اصولوں کے خلاف ہے، اسلامی تعلیمات کے منافی اور خاندانی استحکام کو نقصان پہچانے والا رویہ ہے۔‘‘ [27]
اس حوالے سے آنحضورﷺ کا اسوہ ہمارے سامنے ہے۔ خانۂ نبوت میں مختلف عمروں اور مزاج کی حامل خواتین شامل تھیں۔ لیکن آپﷺ کے انصاف، حکمت اور فہم و فراست نے گھر کا توازن اور حسن کبھی بگڑنے نہیں دیا۔ ازواج مطہرات نے تنگی کی شکایت کرتے ہوئے نان و نفقہ میں اضافہ کا مطالبہ کیا تو آپﷺ نے ایک روایتی مرد کی طرح نہ تو لعن طعن کیا اور نہ ہی زد و کوب کیا۔ اور نہ اٹھ کر انہیں وعظ و نصیحت کرنا شروع کر دی بلکہ آپﷺ نے خاموشی اختیار کی اور بالا خانہ پر تشریف لے گئے تا آنکہ آیت تخییر نازل ہوئی اور آپﷺ نے انہیں دامن نبوت اور اپنی خواہشات میں سے کسی ایک چننے کا آزادانہ اختیار دے دیا۔
اسی طرح حضرت عائشہؓ کم سن تھیں تو آپﷺ نے انہیں کبھی یہ احساس دلانے کی کوشش نہ کی تھی کہ بیوی ہونے کی حیثیت سے اب بچپنا چھوڑ دو اور سنجیدگی اختیار کرو بلکہ آپﷺ خود جا کر ان کی سہیلیوں کو بلا کر لاتے تھے انہیں گڑیوں سے کھیلنے کی اجازت دیتے، [28] انہیں اپنی اوٹ میں کھڑا کر کے حبشیوں کا کھیل دکھاتے، [29] ان کے ساتھ دوڑ لگاتے، [30] کبھی گیارہ عورتوں کا طویل قصہ یا کہانی سناتیں تو نہ صرف تحمل بلکہ پورے انہماک سے سنتے، [31] آپؓ سوئی ہوتیں تو آہستہ سے اٹھتے اور آہستہ سے دروازہ کھولتے تاکہ آپؓ کی نیند میں خلل واقع نہ ہو، [32] اور کبھی ان سے خطا ہو جاتی تو کمال حکمت سے کام لیتے ہوئے ان کی راہنمائی کرتے جیسے ایک بار آپﷺ حضرت عائشہؓ کے ہاں تشریف فرما تھے۔ زینب بنت جحشؓ نے آنحضرتﷺ کے لئے ایک پیالے میں کچھ کھانے کی چیز بھیجی۔ حضرت عائشہ کو غیرت آئی اور آپؓ نے ہاتھ مار کر وہ پیالہ توڑ دیا اور کھانا بھی ضائع ہو گیا۔ بعد میں آپؓ کو ندامت ہوئی تو آپﷺ سے پوچھنے لگیں کہ اب کیا کروں تو آپﷺ نے خوش مزاجی سے فرمایا عائشہ ویسا برتن اور ویسا ہی کھانا اس کا بدلہ ہے۔ [33]
آپﷺ چاہتے تو حضرت عائشہؓ کو سخت سخت بھی سنا سکتے تھے لیکن آپﷺ نے ان کے جذبہ غیرت کو سمجھتے ہوئے کچھ نہ کہا یہاں تک کہ حضرت عائشہؓ کو خود ندامت محسوس ہوئی اور آپﷺ نے بغیر ڈانٹ ڈپٹ کے ازالہ کی راہ بھی سجھا دی۔ لہٰذا عورتوں پر مردوں کی فضیلت ایک طرف ان کی ذمہ داریوں کے باعث ہے تو دوسری طرف زوجین کی باہمی رفاقت میں بیوی کی جانب سے ہونے والی بہت سے معاملات میں کوتاہیوں سے چشم پوشی اور اعلیٰ درجہ کی برداشت کے سبب سے بھی ہے۔
اختلافات اور تنازعات کس گھر میں نہیں ہوتے ازواج مطہرات میں بھی ہوتے تھے لیکن آپﷺ کے حلم اور فراست نے ہمیشہ ماحول کو خوشگوار ہی رکھا۔ ایک بار حضرت صفیہ زار و قطار رورہی تھیں۔ آپﷺ نے ان سے پوچھا کہ صفیہ کیوں رورہی ہو؟کہا کہ زینب جو آپکی بیوی ہیں وہ کہہ رہی تھیں کہ ہمارا تعلق نبی کریمﷺ سے نسبی ہے، لہذا فضیلت میں ہم تم سے بڑھ کر ہیں۔ تم فضیلت میں ہمارے برابر نہیں ہو سکتیں اور ہم سے بڑھ نہیں سکتیں۔ فوراً نبی کریمﷺ نے ان سے یہ کہا کہ: ارے !تم نے یہ کیوں نہیں کہہ دیا کہ تم مجھ سے فضیلت میں کیسے بڑھ کر ہو سکتی ہو جبکہ میرا باپ ہارونؑ اور میرے چچا موسیٰؑ اور میرے شوہر حضرت محمدﷺ ہیں۔ [34]
یہ بھی آپﷺ کا حکمت بھرا انداز تھا جس نے دلوں میں دوریاں اور کدورتیں بڑھنے نہ دیں اور ہلکے پھلکے انداز میں بات کی تلخی اور اثر کو بھی زائل کر دیا۔ ہمارے معاشرے میں مرد ماں اور بیوی کے درمیان توازن نہیں رکھ سکتا اور دونوں کے درمیان پس کر رہ جاتا ہے اسی غیر متوازن رویے کے سبب اکثر گھروں کا ماحول کشیدہ رہتا ہے۔ جبکہ اکثر و بیشتر یہ ناچاقی اس قدر بڑھ جاتی ہے کہ خاندان کا شیرازہ ہی بکھر جاتا ہے۔ یہاں مرد کی فہم و فراست اور حکمت و دانشمندی ہی وہ چیز ہو سکتی ہے جو خاندان میں توازن کو برقرار رکھ سکتی ہے اور بحیثیت قوام یہ اس کے فرائض میں سے ایک اہم فریضہ ہے۔ خانہ نبوت میں بیک وقت متعدد ازواج موجود تھیں باہم غیرت یا رقابت کے جذبات کے واقعات ہمیں ازواج النبیﷺ کی زندگی سے بھی ملتے ہیں۔ اس نسوانی فطرت کی جھلک ہمیں ان میں بھی نظر آتی ہے لیکن آپﷺ کے انصاف، عدل حکمت اور فہم و فراست نے توازن کو کبھی بگڑنے نہ دیا اور ازواج مطہرات کے درمیان باہم محبت، احترام کا جذبہ ہمیشہ قائم رہا۔ یہی مرد کی قوامیت کا تقاضا ہے کہ وہ حسن تدبیر سے کام لے خاندان کی اکائیوں کے درمیان توازن کو قائم رکھے۔ کیونکہ اس کی ذرا سی غفلت یا لا پرواہی خاندان کا شیرازہ منتشر کرنے کا سبب بن سکتی ہے۔
آپﷺ نے تمام ازواج مطہرات کی نفسیات، ضروریات، حسب نسب، مقام و مرتبہ اور ان کے رجحانات کو ایک ماہر نفسیات کی طرح ہمیشہ ملحوظ رکھا، یہی وجہ ہے کہ ہر زوجہ بحیثیت شوہر آپﷺ کے کردار سے مطمئن و شاداں نظر آئیں۔ اگر بحیثیت آپﷺ کمال تدبر و حکمت سے کام نہ لیتے تو خاندان نبوت کا شیرازہ بکھر جاتا۔ یہ آپﷺ کی تربیت ہی تھی کہ جس کے باعث وصال نبیﷺ کے بعد بھی تمام ازواج باہمی احترام و مودت، محبت و حسن سلوک کی مجسم پیکر نظر آئیں۔