ہمارے معاشرے میں یہ مقولہ زبان زد عام ہے کہ گھر عورتیں بناتی ہیں، حقیقت تو یہ ہے کہ گھر تنہا بن ہی نہیں سکتا جب تک زوجین مل کر اس کی تعمیر و تزئین نہ کریں اور اسے اپنے خون سے نہ سینچیں۔ میاں اور بیوی دونوں کا اپنا اپنا دائرہ عمل ہوتا ہے اپنے اپنے فرائض ہوتے ہیں جن کی احسن انداز سے ادائیگی خاندان کو استحکام بخشتی ہے۔ گھر کو گھر بنانے کے لیے مادی وسائل جہاں مرد مہیا کرتا ہے وہیں اپنی ذمہ داریوں کی بطریق احسن ادائیگی سے اسے پائیداری بھی عطا فرماتا ہے۔ جبکہ عورت کا وجود اس گھر میں تزئین و آرائش کا سامان مہیا کرتا ہے۔ مرد اگر خاندان کے لیے معاشی اور معاشرتی تحفظ فراہم کرتا ہے، عزت کی چھت اور چار دیواری مہیا کرتا ہے تو عورت اس مکان کو اپنے وجود سے اپنی توجہ، لگن، محبت، خلوص، ایثار، وفا شعاری، جانثاری اور محنت سے گھر بناتی ہے۔ وہ اپنی فہم و فراست اور حکمت سے خاندان کی اکائیوں کو آپس میں جوڑے رکھتی ہے۔ انہیں محبت کے دھاگے میں پروئے رکھتی ہے۔ انہیں منتشر نہیں ہونے دیتی۔ عورت کا وجود خاندان کو باطنی استحکام فراہم کرتا ہے۔
خاندانی نظام کے استحکام میں عورت کا یہ مرکزی کردار ہی ہے کہ جنت ماں کے قدموں تلے رکھ دی۔ [8] اور بحیثیت ماں اسے مرد جو کہ باپ ہے اس پر تین گنا فضیلت اور درجات عطا کیے [9] عورت کا رویہ اپنی اولاد کے ساتھ حقوق و فرائض سے بڑھ کر احسان کا ہوتا ہے۔ اس کی تربیت ہی کی بدولت صالح، نونہالان امت اور معمار قوم پیدا ہوتے ہیں اسی لیے اسے عورت کے جہاد سے تعبیر کیا گیا ہے۔ [10]
مرد خاندان کے لیے ایک مضبوط اور مہربان سائبان کی مانند ہوتا ہے لیکن عورت ایک ایسا رفیق حیات ثابت ہوتی ہے جو اس سائبان کے لیے سہارے کا کام دیتی ہے اسے نامساعد حالات میں کمزور نہیں پڑنے دیتی اس کی ہمت بندھاتی ہے اور مسائل اور مشکلات سے نبرد آزما ہونے کے لیے اسے ہمت، طاقت، اعتماد اور حوصلہ دیتی ہے۔ اسی لیے تو مقولہ عام ہے کہ ہر کامیاب مرد کے پیچھے ایک عورت کا ہاتھ ہوتا ہے۔ آپﷺ کے ذمہ عظیم مشن تھا جب پہلی وحی نازل ہوئی تو آپﷺ اس قدر خوفزدہ ہوئے کہ آپ کو اپنی جان کا خطرہ محسوس ہوا لیکن ان حالات میں حضرت خدیجہؓ ہی تھیں کہ جنہوں نے ایک مہربان رفیق کی طرح اپنی محبت، توجہ، لگن اور وفا شعاری سے آپﷺ کی دلجوئی کی اور آپﷺ کو تسلی دیتے ہوئے فرمایا:
’’ہرگز نہیں، خدا کی قسم، اللہ تعالیٰ آپﷺ کو کبھی بھی رسوا نہیں کرے گا، آپﷺ تو صلہ رحمی کرتے ہیں، ناتوانوں کا بوجھ اپنے اوپر لیتے ہیں، محتاجوں کے لئے کماتے ہیں، مہمان کی مہمان نوازی کرتے ہیں اور حق کی راہ میں مصیبتیں اٹھاتے ہیں۔‘‘ [11]
حضرت خدیجہؓ کی یہی ہمدردی، دلسوزی اور جاں نثاری تھی کہ حضورﷺ ان سے بے پناہ محبت فرماتے تھے۔ ان کی زندگی میں دوسرا نکاح نہیں فرمایا۔ [12] ان کی وفات کے بعد بھی آپﷺ اکثر انہیں یاد کیا کرتے تھے کیونکہ انہوں نے نبی کریمﷺ کے ساتھ اپنی ازدواجی زندگی میں انتہائی اہم کردار ادا کیا تھا ان کے اسی کردار کے باعث نبی کریمﷺ سے جب کہا گیا کہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا آپ کے لئے ایک سن رسیدہ زوجہ کے علاوہ کچھ نہ تھیں تو آپﷺاس بات پر ناراض ہوئے، اور فرمایا کہ رب تعالیٰ نے مجھے کبھی بھی ایسی زوجہ عطا نہیں کی جو حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا کا نعم البدل بن سکے۔ کیونکہ انہوں نے میری تصدیق کی جبکہ کسی نے میری تصدیق نہیں کی، انہوں نے میری مدد کی ایسے حال میں جب کسی اور نے میری مدد نہیں کی، اپنے مال سے میری امداد کی جب کہ دوسرے اپنا مال دینے سے انکاری تھے۔ [13]
نبی محترمﷺ کے حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ کے بارے میں ان جذبات و خیالات سے واضح ہوتا ہے کہ وہ عائلی زندگی میں آپ کے ایثار و خلوص، وفا و احسان کو انتہائی قدر کی نگاہ سے دیکھتے تھے یعنی ایک خاندان کو نامساعد حالات میں بہتر انداز میں چلانے اور اس کا استحکام برقرار رکھنے کے لئے جن جذباتی و مالی سہاروں کی فوری ضرورت ہوتی ہے وہ حضرت خدیجہ رضی اللہ تعالیٰ عنھا نے فوری طور پر اختیار کئے۔ اگر آپ اس وقت یہ رویہ اختیار نہ کرتیں تو نبی کریمﷺ اعلان نبوت کے بعد اتنے نا مساعد حالات کے لئے تیار نہ ہوتے۔
مرد ہمہ وقت گھر پر نہیں رہ سکتا کسب معاش کے لیے اسے گھر سے باہر جانا پڑتا ہے۔ بعض اوقات کئی دنوں کے لیے اور کبھی کبھار دیار غیر میں سالوں تک خاک چھاننا پڑتی ہے۔ ایسے میں گھر کی حفاظت، شوہر کے مال کی حفاظت، اپنی عزت و آبرو کی حفاظت، بچوں کی پرورش ان کی تعلیم و تربیت کی ذمہ داریاں عورت ہی ادا کرتی ہے۔ آنحضورﷺ کئی کئی دنوں کے لیے غار حرا میں عبادت کے لیے چلے جایا کرتے تھے۔ اس عرصے میں بنات النبیﷺ کی پرورش اور تربیت حضرت خدیجہؓ ہی کیا کرتی تھیں۔ یہ حضرت خدیجہ ہی تھیں جنہوں نے آنحضورﷺ کو خانگی مسائل اور فکر سے بے نیاز رکھا۔ آنحضورﷺ کو بھی ان کی ذات پر بھروسا تھا کہ میری غیر موجودگی میں بھی یہ تمام امور کو بخوبی سر انجام دے لیں گی۔ اسی لیے جب حضرت خدیجہؓ کی وفات ہوئی تو آپﷺ ملول رہنے لگے۔ یہ دیکھ کر حضرت خولہ بنت حکیمؓ نے ایک دن بارگاہ نبوی میں عرض کی ’’یا رسول اللہ! خدیجہؓ کی وفات کے بعد میں آپ کو ہمیشہ ملول دیکھتی ہوں۔‘‘ حضورﷺ نے فرمایا: ہاں، گھر کا انتظام اور بچوں کی تربیت خدیجہ ہی کے سپرد تھی۔ [14] یہ سن کر حضرت خولہؓ نے آپﷺ کے سامنے حضرت سودہؓ کا نام رکھا اور آپﷺ کو قائل کرتے ہوئے ان کے خصائص بیان کیے کہ وہ ایک سچی مومنہ اور آپ کی اتباع کرنے والی نیک دل خاتون ہیں۔ چنانچہ آپﷺ نے ان کی یہ تجویز انہی خصائل کی وجہ سے پسند فرمائی کہ خاندان کے استحکام اور اولاد کی پرورش اور تربیت کے لیے ایسی ہی خاتون مناسب ہو سکتی تھی۔ لہٰذا ہم نے دیکھا کہ حضرت سودہؓ کا اپنی سوتیلی اولادوں کے ساتھ برتاؤ حقیقی ماؤں سے بڑھ کر رہا۔ حضرت سودہؓ نے بنات النبیﷺ کی پرورش اور تربیت نہایت محبت و شفقت کے ساتھ کی، نبی محترمﷺ کے مکہ سے ہجرت کرنے کے چھ ماہ تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا مکہ مکرمہ میں نبی کریمﷺ کی بچیوں کی دیکھ بھال، تربیت کی کٹھن ذمہ داریوں کو خوش اسلوبی سے پورا کرتی رہیں۔ ایک سن رسیدہ خاتون کے لئے اپنی سوتیلی اولاد سے شفقت و محبت کا برتاؤ کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے مگر آپ رضی اللہ عنہا نے سیدہ خدیجہ رضی اللہ عنہا کی صاحبزادیوں کے ساتھ باوجود یکہ وہ سوتیلی اولاد تھیں، انہیں حقیقی ماں جیسا پیار دیا۔ سیدہ ام کلثوم رضی اللہ عنہا اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہا کم و بیش پانچ چھ سال تک سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی زیرِ تربیت رہیں لیکن ساری زندگی کوئی ناخوشگوار واقعہ پیش نہیں آیا، نہ سیدہ سودہ رضی اللہ عنہا کی طرف سے اور نہ ہی سیدہ ام کلثوم اور سیدہ فاطمہ رضی اللہ عنہما کی طرف سے۔
یہی نہیں بلکہ دیگر تمام ازواج مطہرات کا آپﷺ کی اولاد کے ساتھ برتاؤ مثالی تھا۔ جب حضرت فاطمہؓ کی شادی ہوئی تو تمام ازواج مطہرات نے اس میں نہ صرف شرکت کی بلکہ تمام انتظامات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیا حضرت عائشہؓ بیان کرتی ہیں کہ انہوں نے خود حضرت فاطمہؓ کے لیے مکان لیپا، بستر لگایا، اپنے ہاتھ سے کھجور کی چھال دھن کر تکئے بنائے، چھوہارے اور منقے دعوت میں پیش کئے، لکڑی کی ایک الگنی تیار کی کہ اس پر پانی کی مشک اور کپڑے لٹکائے جائیں۔ آپؓ فرماتی ہیں کہ فاطمہ کے بیاہ سے کوئی اچھا بیاہ میں نے نہیں دیکھا۔ [15] جب حضرت فاطمہؓ مرض الموت میں مبتلا ہوئیں تو حضرت امّ سلمہؓ ان کی تیمار داری کرتی رہیں اور وفات سے پہلے انہیں غسل میں مدد بھی دی۔ [16] یہی وہ رویہ ہے جو خاندان کے دیگر افراد کے ساتھ عورت کے حسن سلوک، خوش معاملگی کے باعث ان تمام اکائیوں کو باہم ایک دوسرے سے پیوست کر دیتا ہے۔ عورت کی محبت، وفا، ایثار، خدمت، حکمت گھریلو ماحول میں محبت کی چاشنی کو برقرار رکھتی ہے اور گھر کے شیرازے کو بکھرنے نہیں دیتی۔
اسی حکمت، دانائی اور دور اندیشی کی ضرورت تب بھی پیش آتی ہے جب مرد کی ایک سے زائد بیویاں ہوں۔ محبت میں شراکت کوئی بھی عورت برداشت نہیں کرتی یہ ایک فطری جذبہ ہے جس سے کوئی بھی عورت مبرا نہیں ہوتی۔ اسی وجہ سے عموماً سوکنوں کے درمیان انس و محبت شاذ و نادر ہی پائی جاتی ہے۔ بلکہ کبھی کبھار ان کے اختلافات کی وجہ سے ماحول کشیدہ اور کثیف بھی ہو جاتا ہے ایسی صورتحال مرد کے لیے ذہنی اضطراب کا باعث بنتی ہے اور وہ اپنے معمولات تندہی سے انجام نہیں دے پاتا ایسی صورتحال میں خواتین کے لیے ازواج مطہرات کا اسوہ مشعل راہ ثابت ہو سکتا ہے۔ کیونکہ ازواج مطہرات میں اس فطری جذبہ کے باوجود نہایت دوستانہ اور خوشگوار تعلقات موجود تھے۔ اکثر خانگی مشوروں میں وہ ایک دوسرے کی رفیق ہوا کرتی تھیں۔ [17] ایک دوسرے کے فضائل کی معترف ہوتی تھیں۔ چنانچہ حضرت عائشہؓ حضرت سودہؓ کی تعریف کرتے ہوئے فرمایا کرتی تھیں کسی عورت کو دیکھ کر مجھے یہ خیال نہ ہوا کہ ان کے قالب میں میری روح ہوتی۔ [18] حضرت عائشہؓ اور حضرت صفیہؓ میں اس قدر موافقت تھی کہ ایک بار دوران سفر باہم مشورے سے دوران سفر ایک دوسرے سے اونٹ تبدیل کر لیا، [19] حضرت زینبؓ جب حلقہ ازواج میں داخل ہوئیں تو حضرت عائشہؓ نے ان کو مبارکباد دی، [20] منافقین نے جب حضرت عائشہؓ پر تہمت لگائی تو حضرت زینبؓ نے حضرت عائشہؓ کے پاکیزہ کردار کی گواہی ان الفاظ کے ساتھ دی ما علمت فیھا الاخیرا۔ [21] اور حضرت عائشہؓ حضرت زینبؓ کی مدح میں فرماتی ہیں کہ ’’میں نے کوئی عورت زینب سے زیادہ دیندار، زیادہ پرہیزگار، زیادہ راست گفتار، زیادہ فیاض، زیادہ فیاض، سخی، مخیر اور اللہ کی تقرب جوئی میں زیادہ سرگرم نہیں دیکھی۔‘‘ [22] پھر یہی نہیں ایسے واقعات بھی احادیث کی کتب میں ملتے ہیں کہ جب حضرت محمدﷺ اپنی کسی زوجہ سے ناراض ہوتے تو یہ ازواج باہم ایک دوسرے کی حمایت میں صلح کی کوشش بھی کرتی نظر آتیں جیسا کہ ایک بار حضرت عائشہؓ حضرت زینبؓ اور حضرت محمدﷺ کے درمیان صلح کروانے کے لیے سفارش کے لیے جاتی ہیں تو باقاعدہ بناؤ سنگھار کا اہتمام کرتی ہیں۔ [23] یہ سب اس لیے تھا کہ ازواج مطہرات میں حد درجہ خوف خدا، تقویٰ اور عدل کی صفات بدرجہ اتم موجود تھیں۔ انہیں حقوق میں توازن اور عدل و انصاف کی اہمیت کا ادراک تھا اور اس بات کا بھی بخوبی احساس تھا کہ ان کی ذرا سی نادانی گھر کے ماحول کو کثیف اور حالات کو پیچیدہ بنا سکتی ہے۔ ایسے حالات ان کے شوہر کے لیے ذہنی اضطراب اور اذیت کا باعث بن سکتے ہیں اور وہ عظیم مشن جو آپﷺ کے ذمہ تھا اس میں خلل واقع ہو سکتا ہے۔ لہٰذا جہاں تعدد ازواج کی صورت مرد پر ازواج کے درمیان عدل واجب ہے۔ وہیں خاندان کی فلاح اور استحکام کا انحصار عورت کے رویے پر بھی ہے کہ وہ اعلیٰ ظرفی کا مظاہرہ کرے، خوف خدا کو ملحوظ رکھتے ہوئے رشتوں کی نزاکت اور ان کے درمیان توازن کا خیال رکھے۔ یہی وجہ ہے کہ متعدد احادیث میں دیندار عورت کو نکاح کے لیے ترجیح دی ہے۔ آپﷺ نے نیک اور دیندار بیوی کو دنیا کی بہترین متاع قرار دیتے ہوئے فرمایا: ’’بے شک دنیا متاع ہے اور دنیا کی متاع میں کوئی چیز نیک عورت سے زیادہ افضل نہیں اللہ تعالیٰ کے تقویٰ کے بعد جو چیز مومن کو فائدہ دیتی ہے وہ نیک بیوی ہے کہ جب وہ اسے حکم دے اسے بجا لائے جب اس کی طرف نظر کرے تو وہ اسے خوش کر دے اور جب اسے قسم دے تو اسے پورا کرے اس کی غیر موجودگی میں اپنے نفس اور اس کے مال کی حفاظت کرے۔‘‘ [24]
دیندار عورت افراد خاندان کے ساتھ باہمی تعلقات میں اپنی پر خلوص محبت، ایثار اور احسان پر مبنی سلوک کے باعث خاندان کی تعمیر و ترقی میں ایک نباض حکیم کا کردار ادا کرتی ہے جو زمانے کی تند و تیز ہواؤں سے اپنے آشیانے کی حفاظت کرتی ہے اور اس کے گرد اپنی تربیت کا حصار قائم کرتی ہے جو اسے زمانے کی سرد و گرم کا مقابلہ کرنے کی صلاحیت عطا کرتے ہیں نیز وہ اپنی محنت لگن، توجہ، محبت، حکمت، حسن تدبیر اور ایثار سے گھر کو جنت نظیر بنا دیتی ہے، جہاں معاشرے کی صالح، پاکیزہ فطرت اور بلند کردار کی حامل ہستیاں پروان چڑھتی ہیں، عورت کا یہی مثبت کردار خاندان کی شیرازہ بکھرنے نہیں دیتا اور ایک ایسے مستحکم خاندان کا قیام عمل میں لاتا ہے جو ایک پر امن اور خیر خواہی پر مبنی معاشرے کے قیام کی راہ ہموار کرتا ہے۔