خاندان معاشرتی زندگی کی بنیادی اکائی ہے۔ کسی بھی معاشرے کا استحکام اور تعمیر و ارتقاء اسی ابتدائی سماجی اکائی کا رہین منت ہے۔ نسل نو کی تربیت اور تعمیر و تشکیل کے ساتھ ساتھ مذہبی، سماجی، تعلیمی و تربیتی، تہذیبی و ثقافتی وظائف خاندان ہی کے ذریعے سے اگلی نسلوں تک منتقل کیے جاتے ہیں۔ خاندان جس قدر تندہی اور جانفشانی سے اپنے یہ وظائف ادا کر رہا ہو گا اسی قدر مستحکم و منظم ہو گا اس کا یہ استحکام معاشرتی استحکام اور تعمیر میں معاون ثابت ہو گا۔ اس کے برعکس اگر خاندان اپنے فرائض کی ادائیگی میں غفلت یا کوتاہی برتے تو اس سے خاندانی نظام میں انتشار و افتراق رونما ہو گا جس سے معاشرے کا استحکام بھی انتشار کا شکار ہو گا۔ یعنی معاشرے کا استحکام خاندان کے استحکام پر منحصر ہے۔
خاندان کی اسی اساسی اہمیت و ناگزیریت کے سبب حضرت محمدﷺ نے نہ صرف اس ازدواجی تعلق کے قیام کی ترغیب دی بلکہ اس کے ساتھ ساتھ ایسے تمام دینی، اخلاقی، معاشرتی، معاشی اور قانونی اقدامات کیے جن سے یہ رشتہ حقیقی معنوں میں زوجین کے لیے سکون اور باہمی مؤدت و رحمت کا باعث بن سکے۔ جس کے ثمرات سے زوجین، ان کی اولاد، والدین اور تمام افراد معاشرہ بہتر طور پر مستفید ہو سکیں۔ آپﷺ نے خاندان کی ہر اکائی کو اس کے حقوق و فرائض سے آگاہ کیا اور خود اپنی سیرت سے ایسی مثالیں پیش کیں جو رہتی دنیا تک کے ہر خاندان کے لیے مثالی حیثیت رکھتی ہیں۔