ربط سا اک ربط ہے تصویر سے تصویر کا
یہ کسی کی یاد ہے یا سلسلہ زنجیر کا
خواب سے تعبیر تک سو مرحلے ہیں درمیاں
خواب دیکھے جا ، تصور بھی نہ کر تعبیر کا
ایک جانب ہیں مشینیں ، دوسری جانب ہیں دل
مسئلہ الجھا ہوا ہے شعر کی تفسیر کا
گھر تو لٹتے بھی ہیں لیکن دل کا گھر ایسا لٹا
شائبہ تک بھی نہ چھوٹا حسرتِ تعمیر کا
دل پہ نقشِ کالحجر ہو جائے تو وہ ہے سخن
ورنہ کیا رتبہ کسی تقریر کا تحریر کا
لمحہ در لمحہ چلا جاتا ہے صدیوں تک خیال
عہد غالبؔ کا بھی ہے جاویدؔ شاید میرؔ کا