شور شرابا لگا ہوا سا رہتا ہے
بستی سی اک بسی ہوئی ہے اندر کیا
مدت سے میں اپنے باہر رہتا ہوں
ڈھونڈ بھی میری مچی ہوئی ہے اندر کیا
سوکھے پیڑ کے نیچے رک کر سوچوں ہوں
شاخِ جاں بھی جلی ہوئی ہے اندر کیا
لوگ یہ کیسے اپنے اندر جاتے ہیں
سیڑھی کوئی لگی ہوئی ہے اندر کیا