اک اور اشراق ہو رہا ہے
اک اور شب نے
اپنی پھیلی، سیاہ زلفیں، لپیٹ لی ہیں؛
اک اور امروز مر چکا ہے،
اور اپنی معیاد بھر چکا ہے
اک اور اشراق ہو رہا ہے!
اک اور امروز روزِ روشن کا روپ بھر کر
لحد سے دیروز کی ابھر کر
فضاے روشن میں آگیا ہے —
اک اور اشراق ہو رہا ہے
خیال تھا، خواب تھا جو فردا
خیال ہے، خواب ہے ابھی تک
خیال یا خواب ہو رہے گا—
جگا کے ارمان— سو رہے گا
اک اور اشراق ہو رہا ہے—!
یہ کیا تماشا ہے میرے مالک؟
بدلتی شکلوں، بدلتے ناموں سے عقل حیران ہو رہی ہے
ثبات کو ڈھونڈتی ہیں آنکھیں
ثبات ہے بھی کہیں—؟
نہیں ہے—
بدلتی شکلوں میں اصل صورت بھی ہے کہیں بھی—؟
کہیں نہیں ہے—
جو آج امروز ہے وہ دیروز ہو رہے گا
جو آج جاگا ہے ، سو رہے گا—
اک اور اشراق ہو رہا ہے،
اک اور اشراق ہو رہے گا—!!